Header Ads

سیدی اعلی حضرت نے حضور غوث پاک کی شان میں اشعار کہے ، جس پر پیر نصیرالدین نصیر نے خمسہ کہا ہے

سیدی اعلی حضرت نے حضور غوث پاک کی شان میں اشعار کہے ، جس پر پیر نصیرالدین نصیر نے خمسہ کہا ہے -
 پڑھیے ، ان شاءاللہ بہت لطف آئے گا :

مرحبا رنگ ہے کیا سب سے نرالاتیرا
جھوم اٹھا جس نے پِیا وصل کا پیالا تیرا
اولیا ڈھونڈتے پھرتے ہیں اجالا تیرا

"واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اُونچے اُونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا"

جیسے چاہے تری سنتا ہے سناتا ہے تجھے
حسبِ تدبیر سلاتا ہے ، جگاتا ہے تجھے
اپنی مرضی سے اٹھاتا ہے ، بٹھاتا ہے تجھے

"قسمیں دے دے کر کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ ترا  چاہنے  والا  تیرا"

بخدا مملکت فقر کا تو ناظم ہے 
تاجداروں پہ سدا دھاک تیری قائم ہے 
کیوں نہ راحم ہو کہ اللہ ترا راحم ہے 

"کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابنِ ابی القاسم ہے 
کیوں نہ قادر ہوکہ مختار ہے بابا تیرا"

میں کہاں اور کہاں تیرا مقام قربت
میری اوقات ہی کیا تھی کہ یہ پاتا رفعت
تیری چوکھٹ نے عطا کی یہ مسلسل عزت

"تجھ سے در ، در سے سگ ، سگ سے ہے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا"

ہم درِ غیر کو خاطر میں بھلا کیا لاتے 
عمر گزری تری دہلیز پہ ٹکڑے کھاتے
کوئی کیوں مارے ، ترے ہوتے تیرا کہلاتے

"اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹّہ تیرا"

علم میں فرد کہ وہ زہد میں یکتاہوں گے 
اہل سجادہ وتسبیح ومصلیٰ ہوں گے 
میں نے مانا کہ فضائل میں وہ کیا کیا ہوں گے
"جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یاہوں گے 
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا"

معترض کے لیے ہر چند یہ ہے طُرفہ مطاف
ہے مگر اہلِ بصیرت کو یہ منظر شفاف
آنکھ والوں نے یہ دیکھا ہے بچشمِ انصاف

"سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبے کا طواف
کعبہ کرتا ہے طوافِ درِ والا تیرا"

حسنی پھول!ترا روئے دل آرا گلزار 
ہو کے جلووں میں ترے محوِ نظارا گلزار
جھوم کر لہجۂ خوشبو میں پکارا گلزار

"تو ہے نوشاہ ، بَراتی ہے یہ سارا گلزار
لائی ہے فصلِ سمن گوندھ کے سہرا تیرا"

اُن پہ خالق نے کیا ہے یہ خصوصی انعام
کب وہ مایوس ہوئے ، ان کا رُکا کون ساکام
کون سے ملک میں حاصل نہ ہوا ان کو مقام

"راج کس شہر پہ کرتے نہیں تیرے خدام
باج کس نہر سے لیتا نہیں دریاتیرا"

تو جو مائل بہ کرم ہو تو نہیں لگتی دیر
پھر ڈراتا نہیں انسان کو تقدیر کا پھیر
غیر محدود ہے شاہاتری برسات کا گھیر

"مزرعِ چشت وبخارا وعراق واجمیر
کون سی کِشت پہ برسا نہیں جھالا تیرا"

کم نظر کاش کسی طور تجھے پہچانیں 
حسد وبغض کو چھوڑیں ، تجھے دل سے مانیں
تجھے بخشیں ترے اللہ نے کیا کیا شانیں

"سُکر کے جوش میں جو ہیں وہ تجھے کیا جانیں
خِضر کے ہوش سے پوچھے کوئی رتبہ تیرا"

وسوسہ ذہن میں ڈالے جو کسی کے خناس
نیک وبد کا اسے رہتا نہیں ہر گز احساس
کرگزرتا ہے جہالت میں وہ کیا کیا بکواس

"آدمی اپنے ہی احوال پہ کرتا ہے قیاس
نشے والوں نے بھلا سُکر نکالاتیرا"

صحووتمکیں نے عجب رنگ جمایا تجھ پر
سُکرومستی کا کوئی لمحہ نہ آیا تجھ پر
سائباں فضل کا خالق نے لگایا تجھ پر

"ورفعنالک ذکرک کا ہے سایا تجھ پر
بول بالا ہے ترا ، ذکر ہے اونچا تیرا"

تابہ کَے  ذہن کو بہکائیں گے اعدا تیرے
اپنے انجام سے گھبرائیں گے اعدا تیرے
مرگِ ذلت سے نہ بچ پائیں گے اعدا تیرے

"مٹ گئے ، مٹتے ہیں ، مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا"

تیرے بدخواہ کی جس نہج پہ بھی عمر کٹے
نہیں ہٹتا وہ اگر اپنی ڈگر سے ، نہ ہٹے
دشمنی پر ترے ہر چند مخالف ہوں ڈٹے
"توگھٹائے سے کسی کے نہ گھٹا ہے نہ گھٹے
جب بڑھائے تجھے اللہ تعالیٰ تیرا"

خوان توحید پہ ہے خلقِ خدا ضَیف تیری
قدر کی غیر پرستوں نے نہ ، صد حیف تری
بات چلتی ہے بہر حال وبہر کیف تری

"حکم نافذ ہے ترا ، خامہ ترا ، سیف تری
دم میں جو چاہے کرے دَور ہے شاہاتیرا"

آج گھیرے ہوئے اعمال کی شامت ہے مگر
سامنے آگ بھی خطرے کی علامت ہے مگر
خوفِ پرسش بھی بدستور سلامت ہے مگر

"دھوپ محشر کی وہ جاں سوز قیامت ہے مگر
مطمئن ہوں کہ مرے سر پہ ہے پلہ تیرا"

گرچہ آمادہ بہ برباد شُدن خرمنِ تُست
دل بدخواہ کہ آسودہ ز آزردن تست
تنگ ہر چند دلے چند نصیر ازفن تست

"اے رضا چیست غم ار جملہ جہاں دشمنِ تست
کردہ ام مأمنِ خود قبلۂ حاجاتے را"

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے