فنائے مسجد میں مانگنے والے کو دینا کیسا؟
*سُوال :* کیا فنائے مسجد میں کسی مانگنے والے کو دینا جائز ہے؟
*جواب:* اِس مسئلہ میں مسجد و فنائے مسجد دونوں کا ایک ہی حکم ہے کیونکہ مسجد میں سُوال کی ممانعت کی وجہ وہاں شُور و غُل ہے تو فنائے مسجد میں بھی شُور و غل کی اجازت نہیں۔ مسجد یا فنائے مسجد میں اپنی ذات کے لیے سُوال کرنے کی *دو صورتیں* ہیں: *پہلی صورت یہ ہے* کہ مانگنے والا مجبور و لاچار نہیں بلکہ پیشہ ور بھکاری ہے تو اُسے سِرے سے
سُوال کرنا ہی حلال نہیں چہ جائیکہ مسجد ہو یا بازار اور ایسے کو اِس کے سُوال پر کچھ دینا بھی ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے جیسا کہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنَّت مولانا شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیۡہِ رَحۡمَۃُ الرَّحۡمٰن فرماتے ہیں: *قوی (طاقتور) تندرست قابلِ کسب (کمانے کے لائق) جو بھیک مانگتے پھرتے ہیں ان کو دینا گناہ ہے کہ ان کا بھیک مانگنا حرام ہے اور ان کو دینے میں اس حرام پر مدد، اگر لوگ نہ دیں تو جھک ماریں اور کوئی پیشہ حلال اِختیار کریں۔* دُرِّمختار میں ہے: *یہ حلال نہیں کہ آدمی کسی سے روزی وغیرہ کا سُوال کرے جبکہ اس کے پاس ایک دن کی روزی موجود ہو یا اس میں اس کے کمانے کی طاقت موجود ہو جیسے تندرست کمائی کرنے والا اور اسے دینے والا گنہگار ہوتا ہے اگر اس کے حال کو جانتا ہے کیونکہ حرام پر اس نے اس کی مدد کی۔* ([1])
*دوسری صورت یہ ہے* کہ سائل پیشہ ور بھکاری نہیں بلکہ کوئی محتاج مسافر ہے تو اگر وہ نمازیوں کے آگے سے نہ گُزرے ، نہ ہی لوگوں کی گردنیں پھلانگے اور نہ ہی بار بار سُوال کرے تو اُسے دے سکتے ہیں چنانچہ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں: *اگر وہ شخص پیشہ ور فقیر ہے تو اُسے دینا ، چاہے مسجد میں ہو یا عِلاوہ مسجد، بہرصورت منع ہے اور اگر وہ شخص خستہ حال مسافر ہے کہ وہاں اُس کا کوئی جاننے والا نہیں اور نہ وہ نمازیوں کو پھلانگتا ہے ، نہ ہی بار بار سُوال کرتا ہے تو اُسے دینا جائز ہے۔*([2])
*اِمام صاحب اور کمیٹی کے ساتھ رَوَیَّہ*
*سُوال :* مسجد میں مدنی کام کرنے کے لیے اِمام صاحب اور کمیٹی کے ساتھ کیسا رَوَیَّہ ہونا چاہیے ؟
*جواب:* مسجد میں مدنی کام کرنا ہو یا عِلاقے میں، دِینی کام ہو یا دُنیوی اس میں حِکمتِ عملی اور نرمی اِختیار کرنے والا ضَرور کامیاب ہوتا ہے۔جس طرح ایک تاجِر گاہک کو اپنا بنانے کے لیے اس کے ساتھ حُسنِ اخلاق اور نرمی سے پیش آ کر بالآخر اُس سے اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے تو اسی طرح دِین کا کام کرنے والوں کو بھی حُسنِ اَخلاق کا پیکر اور نرمی کا خُوگر ہونا چاہیے لہٰذا اِمام صاحب اور کمیٹی کے ساتھ حُسنِ اَخلاق کا مُظاہرہ کیجیے، حکمتِ عملی اور نرمی سے پیش آئیے اور ہرگز کسی بھی مُعاملے میں ان سے نہ اُلجھئے اِنْ شَآ ءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مَساجد میں مدنی کام کرنے میں آسانی ہوگی۔حدیثِ پاک میں ہے: *اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ یعنی حکمت مؤمن کا گمشدہ خزانہ ہے۔* ([3])
*یاد رہے!* اگر کمیٹی میں کوئی فاسِقِ مُعلِن ہو تو اُس کی تعظیم کرنے، اُسے نمایاں جگہ پر بٹھانے ، خود اُس کے قدموں میں بیٹھنے اور اُس کی جھوٹی تعریف وغیرہ کرنے کی اِجازت نہیں، جہاں فتنے کا اَندیشہ ہو وہاں دُور رہنے میں ہی عافیت ہے۔
اگر آپ کی معلومات کے مُطابِق اِمام صاحب کسی مَسئلے میں غَلَطی کر رہے ہوں تو آپ اِبتداءً کسی صحیحُ العقیدہ، سُنّی مفتی صاحِب سے وہ مَسئلہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِمام صاحب دُرُست ہوں اور آپ غَلَطی پر ہوں یا اِمام صاحب خود عالِم ہوں اور وہ اس مسئلے کی دَلیل رکھتے ہوں۔اگر اِمام صاحب ہی غَلَطی پر ہوں تو پھر بھی آپ اچھی طرح غور و فکر کر لیجیے کہ کیا یہ ایسی غَلَطی ہے کہ جس کی اِصلاح شرعاً ضَروری ہے اور یہ بھی دیکھ لیجیے کہ کیا یہ بات آپ اِمام صاحب کو سمجھا پائیں گے؟ اگر سمجھانا ضَروری ہو اور آپ اس کی اِستطاعت بھی رکھتے ہوں تو اب سب کے سامنے ٹوکنے اور سمجھانے کے بجائے حِکمتِ عملی سے کام لیتے ہوئے وہی مَسئلہ کسی مستند کتاب مثلاً *”بہارِ شریعت“* یا *”فتاویٰ رضویہ “* وغیرہ سے نکال کر امام صاحب کے پاس لے جائیے اور عرض کیجیے: *”حُضُور ! یہ مَسئلہ مجھےسمجھا دیجیے“* اور آپ کا اَنداز بھی سیکھنے والا ہو کیونکہ عُلَمائے کرام کَثَّرَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام ہمارے راہ نُما ہیں۔ جب آپ سیکھنے والے اَنداز میں ان سے عرض کریں گے تو وہ آپ کو مَسئلہ سمجھا دیں گے اور ہو سکتا ہے کہ ان کی اپنی تَوَجُّہ بھی اس طرف چلی جائے کہ اس مَسئلے میں تو میں بھی بھُول کر رہا ہوں۔ وہ آپ کو سمجھاتے سمجھاتے خود بھی سمجھ جائیں گے اِس طرح وہ ناراض بھی نہیں ہوں گے اور اُن کی اِصلاح بھی ہو جائے گی۔
[1] فتاویٰ رضویہ، ۲۳/۴۶۳ رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور
[2] فضائلِ دُعا،ص ۲۷۹مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی
[3] جامع صغیر، حرفُ الکاف ، ص۴۰۲، حدیث : ۶۴۶۲ دار الکتب العلمیة بیروت
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں