اگر گیہوں 1800 سو روپے کنٹل خرید کر پھر اسے 6 مہینے بعد یا 10 مہینے بعد جب مارکیٹ میں گیہوں کی قیمت زیادہ ہو تب بیچ سکتے ہیں یا نہیں؟

اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں
کہ اگر گیہوں 1800 سو روپے کنٹل خرید کر پھر اسے 6 مہینے بعد یا 10 مہینے بعد جب مارکیٹ میں گیہوں کی قیمت زیادہ ہو تب بیچ سکتے ہیں یا نہیں؟ 
نور عالم انصاری ضلع سہسرام بہار،

(وعلیکم السلام و رحمة الله و بركاته)

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَةَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ: صورت مستفسرہ میں حکم شرع یہ ہے کہ، مستقبل میں قیمت بڑھ جانے کی امید پر کھانے پینے کی چیزوں کو خریدکر اپنے پاس روک لینے اور ذخیرہ جمع کرلینے کی وجہ سے اگر اہل بستی کو پریشانی وگرانی اور نقصان ہو تو یہ احتکار (ذخیرہ اندوزی)ممنوع ومکروہ ہے،اور سخت گناہ، اور اگر وہاں والوں کے لیے مضر نہ ہو تو نہ احتکار ہے نہ اس کی ممانعت،
جیسا کہ رد المحتار میں ہے: (وكره احتكار قوت البشر) الاحتكار لغة: احتباس الشئ انتظارا لغلائه، والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس. وشرعا: اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يوما، لقوله عليه الصلاة والسلام: من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والافلاس وفي رواية فقد برئ من الله وبرئ الله منه قال في الكفاية: أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة اه‍. وفي أخرى فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا الصرف: النفل، والعدل: الفرض، شرنبلالية عن الكافي وغيره. وقيل شهرا وقيل أكثر، وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع والتعذير لا للإثم لحصوله وإن قلت المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى. در منتقى مزيدا. والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد وعليه الفتوى، كذا في الكافي. وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه فهو احتكار، (رد المحتار علی الدرالمختار،الجزءالتاسع،باب الاستبراء و غيره، فصل في البيع،صفحہ 571، دار عالم الكتب ،الرياض)، یعنی آدمی کے کھانے پینے کی چیزوں میں ذخیرہ اندوزی مکروہ ہے،اور علامہ شامی فرماتے ہیں:احتكار: لغت میں چیزوں کو روکنا ہے مہنگائی کے انتظار تک، اور حکرہ ضمہ اور سکون کے ساتھ قاموس میں ہے،.
اور کھانے پینے کی چیزوں کو مہنگائی کے انتظار میں چالیس دن تک ذخیرہ کرنا شرعاً احتکار ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے مسلمانوں پر چالیس دن ذخیرہ اندوزی کی اللہ تعالیٰ اس پر جذام(کوڑھ) اور افلاس کو مسلط کر دے گا، اور ایک روایت میں ہے، وہ اللہ سے بری ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس سے بیزار ہوگا، اور ایک روایت میں ہے، اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہو، اللہ تعالیٰ اس کا فرض قبول کرے گا نہ نفل، چالیس دن کی مدت اس پر دنیاوی سزا مثلاً تعزیر جاری کرنے کے لیے ہے، گناہ کے لیے یہ قید نہیں ہے، اگر چند دن بھی مہنگائی کے انتظار میں ذخیرہ اندوزی کی تو گنہ گار ہوگا،احتکار کی تعریف میں کھانے پینے کی چیزوں کی قید امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ اور امام محمد علیہ الرحمہ نے لگائی ہے، (اور اسی پر فتویٰ ہے) اور امام ابویوسف علیہ الرحمہ کے نزدیک ہر وہ چیز جس کی ذخیرہ اندوزی سے مسلمانوں کو ضرر ہو وہ احتکار ہے،،
اور امام اہل سنت اعلی حضرت علیہ الرحمہ ،اسی طرح کے ایک استفتاء کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : غلہ کو اس نظر سے روکنا کہ گرانی کے وقت بیچیں گے بشرطیکہ اسی جگہ یا اس کے قریب سے خریدا اور اس کانہ بیچنا لوگوں کو مضر ہو مکروہ وممنوع ہے، اوراگر غلہ دور سے خرید کر لائے اور بانتظار گرانی نہ بیچے یانہ بیچنا اس کا خلق کو مضرنہ ہو تو کچھ مضائقہ نہیں ،
فی العالمگیریۃ الاحتکار مکروہ وذلک ان یشتری ذلک یضر بالناس کذا فی الحاوی وان اشتری فی ذلک المصر وحبسہ ولایضر باھل المصر لاباس بہ کذا فی التتارخانیۃ ناقلاعن التجنیس واذا اشتری من مکان قریب من المصرفحمل طعاما الی المصر وحبسہ وذلک یضر باھلہ فہو مکروہ ھذا قول محمد وھو احدی الروایتین عن ابی یوسف وھو المختار ھکذافی الغیاثیۃ وھو الصحیح ھکذا فی جواہر الاخلاطی، وفی الجامع الجوامع فان جلب من کان بعید واحتکر لم یمنع کذا فی التاتارخانیۃ ۱؎۔
عالمگیریہ میں ہے احتکار مکروہ ہے اس کی صورت یہ ہے کہ شہر میں غلہ خرید لے اور اس کو فروخت کرنے سے روک رکھے اوریہ روکنا لوگوں کے لئے نقصان دہ ہو یہ حاوی میں ہے اور شہر میں خرید کر اس کے بیچنے سے روکا مگر اس سے لوگوں کو ضرر نہیں پہنچتا تو کوئی حرج نہیں یونہی تاتارخانیہ میں تجنیس سے نقل کیا گیا ہے، اور اگر شہرکے قریب سے خریدا اور شہر میں اٹھالایا اور فروخت سے روک رکھا جبکہ اس سے شہر والوں کو ضرر پہنچتاہے تو یہ مکروہ ہے یہ امام محمد علیہ الرحمۃ کا قول ہے، اورامام ابویوسف رحمہ اللہ تعالی علیہ سے بھی دوروایتوں میں سے ایک میں یہی آیاہے، یہی مختار ہے، اسی طرح غیاثیہ میں ہے، اوریہی صحیح ہے جیسا کہ جواہر الاخلاطی میں مذکور ہے اور جامع الجوامع میں ہے کہ اگر کہیں دور سے اناج خرید کر کھینچ لایا اور شہر میں فروخت سے روک رکھا تو ممنوع نہیں ، تتارخانیہ میں یوں ہی ہے(فتاوی رضویہ مترجم ج17،صفحہ 189)،
اور علامہ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ نے لکھا ہے: : احتکار یعنی غلہ روکنا منع ہے اور سخت گناہ ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ گرانی کے زمانہ میں غلہ خریدلے اور اسے بیع نہ کرے بلکہ روک رکھے کہ لوگ جب خوب پریشان ہوں گے تو خوب گراں کرکے بیع کروں گااوراگر یہ صورت نہ ہو بلکہ فصل میں غلہ خریدتاہے اور رکھ چھوڑتا ہے کچھ دنوں کے بعد جب گراں ہو جاتا ہے بیچتا ہے یہ نہ احتکار ہے نہ اس کی ممانعت(بہار شریعت ج2،حصہ 11،صفحہ 725،مکتبۃ المدینہ)،
احتکار ممنوع ہے۔ احتکار کے یہ معنی ہیں کہ کھانے کی چیز کو اس لیے روکنا کہ گراں ہونے پر فروخت کریگا۔ احادیث میں اس بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ ایک حدیث میں یہ ہے '' جوچالیس روز تک احتکار کریگا، ﷲتعالی اس کو جذام و افلاس میں مبتلا کریگا۔دوسری حدیث میں یہ ہے کہ ''وہ ﷲ(عزوجل)سے بری اورﷲ(عزوجل)اس سے بری۔ تیسری حدیث یہ ہے کہ ''اس پر ﷲ(عزوجل)اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت، ﷲ تعالی نہ اس کے نفل قبول کریگا نہ فرض۔ احتکار انسان کے کھانے کی چیزوں میں بھی ہوتا ہے، مثلا اناج اور انگور بادام وغیرہ اور جانوروں کے چارہ میں بھی ہوتا ہے جیسے گھاس، بھوسا،، اور،، 
احتکار وہیں کہلائے گا جبکہ اس کا غلہ روکنا وہاں والوں کے لیے مضر ہو یعنی اس کی وجہ سے گرانی ہوجائے یایہ صورت ہو کہ سارا غلہ اسی کے قبضہ میں ہے، اس کے روکنے سے قحط پڑنے کا اندیشہ ہے، دوسری جگہ غلہ دستیاب نہ ہوگا(بہار شریعت ج3،حصہ 16،صفحہ 492،مکتبۃ المدینہ)،.
وَاللهُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وَسَلَّم
كَتَبَهُ
عبده المذنب محمد شبیر عالم الثقافي غفرله

٢٤/شعبان المعظم ١٤٤١ھ مطابق ١٩ اپریل ٢٠٢٠ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے