غیروں کو بائیکاٹ کرنے کا سنت طریقہ کیا ہے؟
جب مدینہ میں *یہودیوں کا ظلم* بڑھنے لگا تو مصطفی علیہ السلام نے مدینہ کے ایک میدان میں مسلمانوں کا ایک *بازار* قائم کروایا اور صحابیوں کو تلقین کی کہ وہ اسی بازار سے *خرید و فروخت* کریں،جب اپنی *حیثیت اور استطاعت* کے مطابق ہر کوئی اس بازار سے کاروبار کرنے لگا اور مسلمانوں کا فائدہ مسلمانوں کے ذریعے ہونے لگا،اور جب کچھ *مستحکم* ہوے تو پھر مصطفی علیہ السلام نے حکم فرمایا۔۔۔ مفہوم۔۔۔ *اب سے کوئی بھی مسلمان ان یہودیوں سے کسی قسم کا کوئی خرید و فروخت نا کرے اور جو بھی ہمارے بازار سے کاروبار کیا گویا اس نے جنت میں سودا کیا*
اس *عظیم بشارت* کا ملنا تھا کہ مسلمانوں نے پورے *جوش و خروش* کے ساتھ اس مشن کو کامیاب بنانے میں جڑ گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ جلد ہی مسلمان *مالی و معاشی* اعتبار سے مستحکم اور مضبوط ہوگئے، یعنی کسی کے بائیکاٹ سے پہلے اس کا *متبادل تیار* کرنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ بغیر متبادل کے انسان مجبور ہوتا ہے،
*ہمارے پاس کن کن چیزوں کا متبادل ہے؟؟*
بنا متبادل کے بائیکاٹ کرنا *بے معنی اور لا حاصل* ہے، الٹا اس طرح کے *مظاہرے اور میسیج سے* دشمن اور چوکنا ہو جاتا ہے،جس سے نقصانات ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے،اس لیے *پہلے متبادل* تیار کیا جائے پھر مخالفت۔۔۔ جس طریقے سے *پتنجلی* نے روزمرہ کی ضروریات کے *تمام اشیاؤں* کا متبادل تیار کرلیا ہے،اسی طرح ہم کو بھی متبادل تیار کرنا ہوگا، *بگ بازار اور ڈی مارٹ* جیسی بڑی دوکانیں شروع کرنی ہوگی، مسجد و مدرسہ کی تعمیر اور کارگزاری پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرنے کی بجائے خود کی تجارتی منڈیاں اور پیداوری کارخانے قائم کیے جاے، اور ان میں عبادت کے لئے ایک مخصوص حصہ بنادیا جائےجس سے دونوں مقاصد پورے ہوجائے،
تب جا کر ہمارا *بائیکاٹ اور مقصد* دونوں کامیاب ہوگا۔۔۔ ان شاءاللہ ۔۔۔
2 تبصرے
براہ کرم اسکا کوئی حوالہ بھی کسی حدیث کی کتاب سے عنایت فرمائیں
جواب دیںحذف کریںبراہ کرم اسکا کوئی حوالہ بھی کسی حدیث کی کتاب سے عنایت فرمائیں محمد اطہر طارق - جدہ
جواب دیںحذف کریںاپنا کمینٹ یہاں لکھیں