از۔مولانا افتخار حسین رضوی
اردو کالونی
ٹھاکر گنج۔کشن گنج بہار
حضور والا
دعوت وتبلیغ دینی خدمات اصلاح معاشرہ اور تنظیمی امور وسرگرمیوں سے متعلق چند معروضات پیش خدمت ہیں
قوی عمدہ جوابات سے نوازیں گے ایسے مسائل پر میں بہت غورکرتا ہوں
*معروضات*
کیا موجودہ دور میں دینی خدمات کیلئے تنظیم بنانا ضروری ہے
تنظیم کے ذریعے کام کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے، تنظیم کو کامیابی کیسے مل سکتی ہے
عوام کو تعلیم یافتہ کیسے بنایا جائے ہرگاوں میں مکتب ہوتا ہے پھربھی ٹھیک سے قرآن اور اردو پڑھنا نہیں آتا
سنی عوام خاص کر نوجوانوں کی اکثریت بےنمازی ہے انکو نمازی کیسے بنایا جائے....پیران کرام کا دورہ تو بہت ہوتا ہے پھر بھی نمازیوں میں اضافہ نہیں ہوتا
عوام علماء کی بےقدری کیوں کرتے ہیں.... ......جو علمائے کرام بےعمل ہوتے ہیں ان سے عوام کو کیسا سلوک کرنا چاہیے........
جلسوں سے تعلیم یافتہ بہت دور رہتا ہے انکے لئے کیسے جلسے ہونے چاہیے
مشربی اختلافات سے نقصان ہے یا نہیں عوام کو ایسے اختلافات سے کیسے دور رکھا جائے
کیا مقررین بہت زیادہ نذرانہ مانگتے ہیں ان پر عوام کا اعتراض کیسا ہے
مزارات کو غیرشرعی امور سے کیسے پاک کیا جائے.......وغیرہ وغیرہ.....اس کے علاوہ بھی کثیر سوالات پریشان کرتے ہیں... ......فی الحال اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہوں
جوابات
از؛مفتی قوم و ملت فاضل شہیر حضرت علامہ مفتی محمد مظفر حسین رضوی مصباحی(گیا:بہار)
معروضہ نمبر 1 کا جواب ۔۔۔۔۔۔
موجودہ وقت میں دینی خدمات کے لٸے تنظیم کا ہونا کوٸی ضروری نہیں
دینی خدمات کا ہر طالب و شاٸق اپنی سطح سے حتی الوسع خدمت کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔
نیز قریبا ہرجگہ مسجد یا مدرسہ یا مکتب ہے اس سے متعلق ہوکر بھی بہت عمدہ کام کر سکتا ہے یہ سب بھی تنظیم ہی کی شکل ہے۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تنظیم اگر بنتی ہے تو بہتر ہے کیونکہ تنظیم کے لفظ و معنی کا بھی اثر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
تنظیم کو کامیاب کے طریقے اور صورتیں متعدد ہیں
سب سے پہلی چیز یہ کہ تنظیم میں صرف مولوی برادری نہ ہو بلکہ عوام سے متصلب صالح فکر و اعتقاد اور فعال اشخاص کا انتخاب عمل میں لاکر باوقار اندازمیں تنظیم میں شامل کیا جاٸے ، تو إن شاءالله تنظیم کامیاب ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2...گاٶں کے مکتب کا عالم یہ ہے کہ پچاس سو طلبا و طالبات پہ ایک معلم ہوتا ہے
اب ایک معلم اپنا مخرج محفوظ رکھے یا اتنے بچوں کو مخرج درست کراٸے یا سبق آموختہ پہ نگاہ رکھے
تو بنیادی تعلیم کی اہمیت کو ہم نے خود تباہ کیا ہے وہ معلم اس قدر ذمہ دار نہیں
لیکن مکتب کا معلم بالکل بے قصور بھی نہیں جس پہ بحث احقر نے علاقہ کے اہالیان مکاتب سے کٸی بار اپنے ادارہ میں نشستوں میں کر چکا ہے کہ آپ پچاس سو کو نہیں سنوار سکتے تو کم از کم پانچ دس کو لاٸق تعریف و تحسین بنا ہی سکتے ہیں لیکن کوٸی معقول جواب نہ ملا اور نہ ہی کوٸی تبدیلی آٸی۔۔۔۔۔۔۔
عوام کو ضروریات دین کی تعلیم اور مذہبی رکھ رکھاٶ کا آسان طریقہ احقر کی نظر میں یہ ہے کہ جملہ علما و أٸمہ اپنے حلقہ اثر میں مسجد یا مدرسہ یا مکتب میں یہاں تک کہ جامعہ اور دارالعلوم میں بھی بوقت شب صرف ایک گھنٹہ کے لٸے تعلیم بالغاں کا اہتمام کیا جاٸے جس کے لٸے اہل علم و ہنر کی خدمات لی جاٸیں اور اہل علم کی خدمت یعنی بدل خدمت کے لٸے اہل ثروت کی خدمات لی جاٸیں تو إن شاءالله بہت جلد انقلاب نظر آٸیگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنی عوام کی اکثریت بے نمازی اس لٸے ہے کہ شیاطین کے حملے تمام تر سنیوں پہ ہوتے ہیں کیونکہ ایمان و عمل تو سنیوں ہی کےمقبول و محمود ہیں
اب جس کا ایمان ہی نہیں تو عمل چہ معنی دارد لھذا شیطان وہاں وقت کیوں ضاٸع کرے اس لٸے بدعقیدے نماز بے نیاز زیادہ کرتے دکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ایسا بھی نہیں کہ سنی عوام کو بے لگام چھوڑ دیا جاٸے بلکہ اس پہ محنت کی جاٸے جس کے لٸے علما و اٸمہ سے زیادہ عوام میں پابند نماز افراد زیادہ کام کرسکتے ہیں
علما اگر کچھ افراد کو طریقہ دعوت و تبلیغ بتادیں اور وہ افراد اپنے متعلقین میں بھی اگر نماز وغیرہ کی تحریک چلاٸیں تو بہت عمدہ نتیجہ نکل سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
3......... عوام کے ذریعہ علما کی نا قدری کی کٸی وجہ ہے۔۔۔۔
ایک تو یہ کہ ہم نے عوام کو قاعدے سے بتایا ہی نہیں کہ علما کا مقام و مرتبہ کیا ہے
ہم عوام کو کسی عالم یا شیخ کا کمال و جمال اس وقت بتاتے ہیں جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ، کٸی جگہوں پہ ہم نے سنا چند افراد بہت افسوس کررہے تھے کہ حضرت ہمارے درمیان تھے لیکن ہم بے خبر تھے کاش معلوم ہوتا تو مستفیض ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ طریقہ نا محمود کب محمود ہوگا مجھے پتہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔
دوسری وجہ عوام کے سامنے علما و اٸمہ کا خلاف شرع اعمال و افعال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
4......... ہمارے جلسے بے ترتیب بے طریقہ بے وقت ہوتے ہیں اس لٸے بہترے لوگ ہمارے جلسوں سے دور رہتے ہیں اگر اس میں تبدیلی لاٸی جاٸے تو نتاٸج اچھے نظر آٸینگے۔۔۔۔۔۔۔
ایک جلسہ میں ایک SDM صاحب آکر بیٹھے جو میرے رشتہ دار تھے لیکن
ماٸک کی کرخت آواز ، ساتھ ہی نقیب و خطیب و شاعر کی بلاوجہ چینخ و پکار اور حلق میں انگلی ڈالکر سبحان اللہ ماشاءاللہ الله أكبر کہلانے کے شوق نے انہیں جلد ہی کرسی چھوڑنے پر مجبور کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشربی اختلاف سے کیا مراد ہے وضاحت کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
6 ۔۔۔۔۔۔۔ شاعر و خطیب کے زیادہ نذرانہ لینے پر اعتراض کرنا حماقت ہے کیونکہ اس کی عادت تو عوام نے ہی دلاٸی ہے
اگر یقین نہ آٸے تو ابھی بیس چالیس پچاس ہزار نذرانے کا مطالبہ کرنے والوں کو دو چار ہزار پہ دعوت دیکر دیکھ لو ، دوڑے چلے آٸینگے ۔۔۔۔۔۔۔
علاقے کے عالم و امام خوب عمدہ مدلل خطاب بھی کردیں پھر بھی عوام انکی خاطر خواہ خدمت نہیں کرتی اور بیرونی خطبا و شعرا کے لٸے تو کیا کہنے ہیں ایسا محسوس ہو کہ بس آج کی رات اس علاقہ یا شہر سے بدعقیدے اوندھے منہ گر پڑیں گے
جبکہ ہوتا کچھ نہیں پھر بے چارا علاقہ یا محلہ کے اسی عالم و امام کو مذہب و ملت کی خدمات کے لٸے عرق ریزی کرنی پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
7......... مزارات کے نظم و نسق کو علما حق کے حوالہ کردیا جاٸے تو مساٸل کباٸر از خود دور ہوجاٸیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھذا ما ظھر لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد مظفر حسین رضوی مصباحی
خادم دارالعلوم غریب نواز ، روپن ، فتحپور ، گیا ، بہار
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں