بچپن کی عادتیں دل ودماغ پر نقش ہوجاتی ہیں ‏ ‏

باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلیٰ وآلہ

بچپن کی عادتیں دل ودماغ پر نقش ہوجاتی ہیں 

عہدحاضر میں عصری تعلیم گاہوں میں مخلوط تعلیم اور اسکول ڈریس بچوں کو مغربیت زدہ اور یوروپین تہذیب وثقافت کا دلدادہ بنانے کے واسطے کافی ہے۔بچے اوربچیاں نوعمری سے لے کر بالغ ہونے کے بعد تک ایک ہی کلاس میں مخلوط ہوکرپڑھتے ہیں۔ بچیوں کا اسکولی لباس ایسا ہوتا ہے کہ ستر پوشی نہیں ہوپاتی۔

کلاس روم میں اسکولی ڈریس کی پابندی لازم ہوتی ہے۔بہت سی مسلم بالغ بچیاں گھر سے نقاب پہن کر اسکول جاتی ہیں،لیکن کلاس روم میں ان کوحجاب کی اجازت نہیں ہوتی۔

یہ بات ہرکسی کومعلوم ہے کہ بے شمار اسکولوں میں لڑکیوں کا اسکولی لباس ایسا ہوتا ہے کہ وہ نیم برہنہ ہوتی ہیں۔اسی کلاس روم میں دوسری طرف بالغ لڑکے بیٹھے ہوتے ہیں۔چوں کہ عام طورپرنو/دس کلاس کی بچیاں اوربچے بالغ ہوتے ہیں توفریقین کی کم عمری اور بلوغت کے سبب نفس امارہ انہیں آسانی کے ساتھ برائیوں کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے۔ 

اس مخلوط تعلیم کے سبب جہاں بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں،وہیں لڑکیوں میں بے حیائی وبے شرمی جڑ پکڑ لیتی ہے۔چوں کہ بچپن سے وہ لڑکیاں نصف لباس میں کلاس روم میں لڑکوں کے ساتھ رہتی آئی ہیں تو شرم وحیا کا رخصت ہوجانا،اور نقاب وحجاب کی جگہ بے حجابی کی عادت ان کے دل ودماغ پر نقش ہوجاناایک فطری امر ہے۔

مردوں سے شرم وحیا نہ کرنا اور بے پردگی ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے،پھر ہم لوگ کہتے پھر تے ہیں کہ معاشرہ میں بے پردگی بڑھتی جارہی ہے اور جنسی برائیا ں بھی قدم جمانے لگی ہیں۔

ان برائیوں کا سبب کیا ہے؟اس پر بھی ہمیں غورکرنا چاہئے۔جب بچے اور بچیاں اور بچے نوعمری سے ہی مخلوط ماحول میں رہیں گے توبرائیاں پیدا ہونا فطری امر ہے۔یہ ماحول ان کے دل ودماغ میں نقش ہوجائے گا۔ 

اختلاط سے نہ لڑکیا ں شرمائیں گی،نہ ہی وہ حجاب کی ضرورت محسوس کریں گی۔ایسے ماحول میں جنسی برائیاں پیداہونا بھی فطری امر ہے۔

 تعجب ہوتا ہے کہ اسکول میں لڑکوں کے واسطے فل ڈریس ہوتا ہے،لیکن لڑکیوں کے واسطے نصف ڈریس ہوتا ہے۔بالغ بچیاں بھی نیم عریاں ہوتی ہیں۔

جوبچیاں اوربچے اس پراگندہ ماحول کی آلودگیوں سے محفوظ رہتے ہیں،وہ محض اپنے گھریلو ماحول کے سبب محفوظ رہتے ہیں،ورنہ اسکولی ماحول اور اس کا نظم ونسق قابل اعتراض ہے۔ والدین کوبھی چاہئے کہ اپنے بچوں کے اخلاقی حالات پر نظر رکھیں۔بچوں کا شعور نا پختہ ہوتا ہے،وہ کسی جانب بھی مائل ہوسکتے ہیں۔

جن اسکولوں میں لڑکیوں کے واسطے غیرمخلوط تعلیم اور مکمل لباس کا قانون ہو،وہیں بچیوں کو داخل کرنا چاہئے،گر چہ تعلیم کچھ کمزورہی ہو۔

شرعی اصول وقوانین کے اعتبارسے مخلوط تعلیم اور نیم عریاں لباس کی اجازت ہرگز نہیں مل سکتی۔یہاں کوئی شرعی مجبوری بھی نہیں۔

ریاستی ومرکزی حکومتیں فاصلاتی تعلیم کا انتظام کرتی ہیں۔بچیوں کو فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعہ امتحانات دلائے جاسکتے ہیں۔محلے کی لڑکیوں کوامتحان کی تیاری کرانے کے واسطے کسی معلمہ کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ ہرشخص کو انفرادی انتظام کی قوت نہ ہوتوچند بچیوں کے والدین مل جل کرکسی معلمہ کو مقرر کرلیں۔وہ معلمہ متعینہ وقت پر نصابی مضامین کی تعلیم اورامتحان کی تیاری کرائے۔آج کے زمانے میں معلمہ ملنا مشکل نہیں۔

پرائیویٹ مسلم اسکولوں میں عام طورپر لڑکیوں کے واسطے مکمل لباس کا قانون ہوتاہے۔اگر ان اسکولوں میں لڑکوں اورلڑکیوں کے واسطے الگ کلاس روم ہو،اور غیر مخلوط تعلیم کا انتظام ہوتو بہت سی برائیوں پر کنٹرول ہوسکتا ہے۔دراصل ہم کوشش نہیں کرتے,ورنہ یہ کوئی ناممکن کام نہیں ہے۔

ہم نے قوم کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ہرشخص اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ تک محدود ہو چکا ہے اور قومی اجتماعیت کا نام ونشان غائب ہو چکا ہے۔قران وحدیث میں متحد رہنے کی تاکید ائی ہے تاکہ اجتماعی قوت سے اجتماعی مفادات کی تکمیل ہو سکے۔

آج کل تعلیم ایک بڑی تجارت بن چکی ہے۔جابجا انگلش میڈیم پرائیویٹ اسکول نظر آتے ہیں۔

اگر مسلم علاقوں میں مسلم تعلیم یافتگان انگلش میڈیم گرلس اسکول قائم کردیں۔جہاں صرف لڑکیوں کے واسطے تعلیم کا انتظام ہو، اور اسکولی لباس بھی مکمل ہو۔ساتھ ہی دینیات کا بھی ایک سبجیکٹ ہو تو بہت اچھا ہوگا۔

اس طرح ماحول میں بڑھتی ہوئی مغربی تہذیب وثقافت، بے حیائی وبے پردگی،جنسی جرائم اور بہت سی اخلاقی برائیوں سے نجات مل سکتی ہے۔

میری رائے پر غور کیا جائے۔جب اس جانب توجہ کریں گے تو رحمت الٰہی بھی دستگیری فرمائے گی۔

جوخواب غفلت میں ہوتا ہے،توفیق الٰہی بھی اس سے دور رہتی ہے۔

خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
جسے نہ ہوخیال خود اپنی حالت بدلنے کا   

طارق انور مصباحی
 
 جاری کردہ:11:اکتوبر 2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے