صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شان

صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شان
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

حضور نبیِّ غیب دان، رسولِ ذیشان، رحمتِ عالمیان صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے:
*لَا تَسُبُّوا اَصْحَابِي فَلَوْ اَنَّ اَحَدَكُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ*
ترجمہ:-
یعنی میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی اُحُد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مُدّ کو پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی مُدّ کے آدھے کو۔
(بخاری، ج2، ص 522، حدیث:3673)

*شرح حديث:*
شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ایمان کی حالت میں حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا۔
(اشعۃ اللمعات،ج 4، ص641)

قراٰن و حدیث اور تمام شرعی احکام ہم تک پہنچنے کا واحد ذریعہ حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی درس گاہ کے صادق و امین اور متقی و پرہیز گار صحابَۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم ہیں، اگر مَعَاذَ اللہ ان ہی سے امانت و دیانت اور شرافت و بزرگی کی نفی کر دی جائے تو سارے کا سارا دین بے اعتبار ہو کر رہ جائے گا، اس لئے اس حدیثِ پاک میں حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی عظمت کو یوں بیان فرمایا کہ ان کی برائی کرنے سے منع فرمایا اور ان کے صدقہ و خیرا ت کی اللّٰہ پاک کی بارگاہ میں مقبولیت کو بھی ذکر فرمایا: چنانچہ
*(لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي)*

حدیثِ پاک کے اس حصّے کے تحت فقیہ و محدّث علّامہ ابن الملک رومی حنفی علیہ رحمۃ اللہ تعالٰی القَوی (وفات:854ھ) ارشاد فرماتے ہیں:
اس میں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو بُرا کہنے سے منع کیا گیا ہے،جمہور (یعنی اکثر علما) فرماتے ہیں:
جو کسی ایک صحابی کو بھی بُرا کہے اسے تعزیراً سزا دی جائے گی۔
(شرح مصابیح السنۃ، ج6، ص395 ،تحت الحدیث: 4699)

*(فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ۔)*
شارحین نے اگرچہ اس کی مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں لیکن شارحِ بخاری امام احمد بن اسماعیل کورانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی (وفات:893ھ) ارشاد فرماتے ہیں:
سیاقِ کلام سے پتا چلتا ہے کہ صحابَۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو یہ مقام حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت کے شرف کی وجہ سے ملا ہے۔
(الکوثر الجاری، ج6، ص442، تحت الحدیث:3673)

شارحِ حديث حضر ت علامہ مُظہرالدین حسین زیدانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی (وفات:727ھ)
اسی حدیثِ پاک کے تحت ارشاد فرماتے ہیں: 
صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی فضیلت محض”رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت“ اور ”وحی کا زمانہ پانے“ کی وجہ سے تھی، اگر ہم میں سے کوئی ہزار سال عُمر پائے اور تمام عُمر اللّٰہ پاک کے عطا کردہ احکام کی بَجا آوری کرے اور منع کردہ چیزوں سے بچے بلکہ اپنے وقت کاسب سے بڑا عابد بن جائے تب بھی اس کی عبادت رسول ِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت کے ایک لمحہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتی۔
(المفاتیح فی شرح المصابیح، ج6، ص286، تحت الحدیث:4699)

مُفَسِّر شہیر ،مُحَدث کبیر حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:
یعنی میرا صحابی قریبًا سوا سیر جَو خیرات کرے اور ان کے علاوہ کوئی مسلمان خواہ غوث و قطب ہو یا عام مسلمان پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو اس کا سونا قربِِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ اور قبولیت میں صحابی کے سوا سیر کو نہیں پہنچ سکتا، یہ ہی حال روزہ، نماز اور ساری عبادات کا ہے۔
جب مسجد ِنبوی کی نماز دوسری جگہ کی نمازوں سے پچاس ہزار گُنا ہے تو جنہوں نے حضورِ اکرم (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا قُرب اور دیدار پایا ان کا کیا پوچھنا اور ان کی عبادات کا کیا کہنا!
یہاں قربِِ الٰہی کا ذکر ہے۔
مفتی صاحب مزید ارشاد فرماتے ہیں:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضراتِ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہئے کسی صحابی کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو۔ یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب عَزَّوَجَلَّ نے اپنے محبوب کی صحبت کے لئے چُنا،مہربان باپ اپنے بیٹے کو بُروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا تو مہربان رَبّ نے اپنے نبی کو بُروں کی صحبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا:؟
(مراٰۃ المناجیح،ج 8، ص 335)

*سب صحابہ کرام سے محبت کا انعام:*
حضرت سَیِّدُنَا عبدالرحمٰن بن زید رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے والد ارشاد فرماتے ہیں:
میں چالیس (٤٠) ایسے تابعینِ عظام کو ملا جو سب ہمیں صحابَۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: 
جو میرے تمام صحابہ (کرام رضوان اللّٰہ تعالٰی علیہم) سے محبت کرے، ان کی مدد کرے اور ان کے لئے اِسْتغفار کرے تو اللہ پاک اُسے قیامت کے دن جنّت میں میرے صحابہ کی مَعِیَّت (یعنی ہمراہی) نصیب فرمائے گا۔
(شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ،ج 2، ص1063، حدیث:2337)

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ ارشـد رضـا خـان رضـوی امجـدی، ممبر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 7620132158*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے