سعد و نحس کا اسلامی تصور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر:محمد رجب علی مصباحی ،گڑھوا ،جھارکھنڈ
خادم ازہری دارالافتا ،جوگیہ ،اورنگ آباد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلام ایک صداقتوں اور سچائیوں پر مشتمل پاکیزہ مذہب ہےجو توہمات وخرافات اور تخیلات وتصورات کی دنیا سے بالکل ماوراء ہے۔مذہب اسلام میں بدشگونی، بدگمانی اور اوہام پرستی کی کوئی جگہ نہیں جس کی وجہ سے سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان و اعتقاد میں نقص پیدا ہوجائے اور وہ ایمان جیسی لا زوال نعمت سے محروم ہوکر اخروی خسران میں مبتلا ہوجائیں بلکہ وہ تو اپنے معتقدین اور ماننے والوں کو"توکل علی اللہ"کا درس اور"مرضی مولا از ہمہ اولی"کا سبق دیتا ہے نیز اسی ذات مقدسہ پر یقین کامل اور اعتماد کلی کی تعلیم فراہم کرتا ہےجس کےقبضۂ قدرت میں شر و خیر کی کنجیاں ہیں، وہ ایسے قادر مطلق پر کامل بھروسہ کرنے کی تلقین کرتا ہےجو اپنی مشیت اور ارادے سے ہر کام کو سرانجام دیتا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے:"ان اللہ یفعل ماشاءاللہ" اگر چہ وہ فعل انسانی عقل وخرد سے بالاتر ہو اور فہم انسانی اس کے سمجھنے سے قاصر ہو۔
یوں تو آج مسلمانوں کے افکار ونظریات کےاندر متعدد غلط روایات و رسومات اپنا آشیانہ قائم کیے ہوئے ہیں جن کی ادائیگی ان کے باطل نظریات کے نزدیک واجب کے مانند ہے اور نہ کرنے پر نقصان و زیاں کا پیش خیمہ،انہیں میں سے ایک وبا "سعد"اور "نحس کا ہے جن کا چلن اور رواج اس قدر عام ہوگیا ہے کہ جلسہ کا پروگرام رکھنا ہو یا شادی کی تقریب،ختنۂ مسنونہ ہویا گھر کی سنگ بنیاد ہر موڑ اور ہر نہج پر" سعد ونحس"کو بروئے کار لایاجاتاہے اور اسے کے مطابق تاریخ کی تعیین ہوتی ہے ۔جنتری میں جن ایام کے آگے "سعد"مکتوب ہو اسے مبارک اور پاکیزہ اور جن ایام کے آگے"نحس" مرقوم ہو اسے منحوس اور باعث ضرر سمجھاجاتاہے پھر "سعد" کے دنوں میں تقریب منعقد کی جاتی ہے اور"نحس" کے دنوں کومنحوس سمجھ کر چھوڑ دیاجاتاہے.
لیکن افسوس صد افسوس! کہ ہم اپنے دلوں میں توکل علی اللہ کی قندیل اورمحبت رسول کا چراغ روشن ہونے کے باوجود بھی اس مسئلے میں فرمان خداوندی اور ارشاد نبوی کو فراموش کرکےاوہام باطلہ اور خیالات فاسدہ کی پیروی کی اور شیطانی وسوسوں کا شکار ہوئے۔
کیا ہم نے آج تک یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اس کا اسلامی تصور کیا ہے؟دنیاےاسلام میں اس کا کوئی ثبوت ہے؟اسلامی تعلیمات کی رو سے اس کی سچائی کیا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں کیوں کہ ہمیں اس کے لیے فرصت کہاں؟ ہمیں تو اپنے آبا واجداد کے رسموں کو باقی رکھنا ہے۔ہمیں تو ان کی خوشی پیاری ہے ۔میرے بھائی! یاد رکھیں سعد و نحس کا اسلام میں کوئی حیثیت اور وقعت نہیں نیز مذہب مہذب کا اس سے دور تک کا کوئی رشتہ ہے کیونکہ یہ اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف ہے اور باعث نقص ایمان بھی۔
آئیے ذیل میں چند آیات کریمہ و احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں جن سے ان کی حقانیت خوب آشکارہ ہوجائے گی اور کم خواندہ لوگوں کے لیے باعث رشد وہدایت بھی۔
دنوں کو سعد و نحس ماننا یہ اہل سنت وجماعت کاعقیدہ نہیں بلکہ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ جوبھی نفع ونقصان ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے.
📖 چناں چہ ارشاد ربانی ہے:
"وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ وَإِن يُرِدكَ بِخَيرٍ فَلا رادَّ لِفَضلِهِ یُصِیْبُ بِہِ مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ"(یونس:١٠٧)
"اور اگر تجھے اللہ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا کوئی ٹالنے والا نہیں اس کے سوا، اور اگر تیرا بھلا چاہے تو اس کے فضل کا رد کرنے والا کوئی نہیں"(کنز الایمان)
📕 دوسری جگہ اللہ نے ارشاد فرمایا :
:اِنَّ اللہَ یَفْعَلُ مَایَشَاءُ( الحج: ۱۸) اِنَّ اللہ یَحْکُمُ مَایُرِیْدُ۔(مائدۃ:۱)
بے شک اللہ تعالیٰ جو چاہے کرے
بے اللہ حکم فرماتا ہے جو چاہے(کنز الایمان)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر ساری امت والے اس بات پر اتفاق کر لیں کہ تجھے کچھ فائدہ دینا ہے، تو وہ سب مل کر تجھے کوئی فائدہ نہ دے سکیں گے مگر اتنا ہی جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔ اور اگر وہ سب اس بات پر اتفاق کر لیں کہ تیرا کچھ نقصان کرنا ہے تو وہ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے مگر اتنا ہی جو اللہ نے تیرے خلاف لکھ دیا ہے، قلمیں اٹھا لی گئی ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔"
📗 (سنن ترمذى،ابواب القیامۃ، ج:٢،ص:٧٤،مجلس برکات)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(بیماری کا) کوئی متعدی ہونا نہیں، کوئی بدفالی نہیں، کوئی اُلو نہیں اور نہ کوئی صفر ہے"( صحيح البخارى، كتاب الطب، باب الجذام،ج:٢،ص:٨٥،مجلس برکات)
روئے زمین پرجوبھی مصیبت آتی ہے،خواہ انسان کی جان ومال پرہویاکسی اورچیز پر،ان سب کواللہ تعالیٰ نے پہلے ہی لکھ دیا ہے،اس کاوقت متعین ہے اوروہ ہوکررہے گا. رب تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
📘"مَااَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃِِ فِی الاَرْضِ وَلاَفِی اَنْفُسِکُمْ اِلاَّفِی کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَبْرَاَھَا اِنَّ ذَالِکَ عَلٰی اللہ یَسِیْرٌ. لِکَیْلَاْ تَاْسَوْا عَلٰی مَافَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَااَتَاکُمْ۔(حدید:۲۲،٢٣)
نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں بے شک یہ اللہ کو آسان ہے، اس لیے غم نہ کجاؤ اس پر جو ہاتھ سے جائے اور خوش نہ ہو (کنز الایمان)
دوسری بات یہ کہ جوجیساگمان کرتاہے،اللہ تعالیٰ بھی ویساہی کردیتاہے،حدیث قدسی ہے:
"اِنَّ ظَنَّ خَیْرًافَلَہٗ اِنَّ ظَنَّ شَرًافَلَہٗ"
📖 (کنز العمال،ج:٣،ص:١٣٥،موسسۃ الرسالہ)
اللہ تعالیٰ نے فرمایامیں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جوخیرکاگمان رکھے گااس کے لیے خیرہے جوشر کاگمان رکھے گااس کے لیے شر ہے،اس لیے بندے کوہمیشہ بھلائی اورخیرہی سوچناچاہئے اوراللہ سے خیروسلامتی کی دعا کرنی چاہیے نیز اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا چاہیے. ارشاد ربانی ہے:
📗"لا تقنطوا من رحمۃ اللہ"(الزمر:٥٣)
اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو.
تیسری بات یہ کہ اللہ نے کسی ایام کو برا اور بھلا نہیں بنایا بلکہ یہ ہمارے افکار و نظریات کا ثمرہ ہے کہ جن ایام میں ہمیں کوئی نعمت ملی ہم نے انھیں سعد کہ ڈالا اور جن ایام میں نقصان و ضررہوا انھیں نحس کہ ڈالا،اور یہ شریعت نہیں بلکہ ہمارے اوہام باطلہ ہیں .
خلاصہ یہ کہ سعد و نحس پر عمل کرنا شرعاناجائز و گناہ ہے اوران کا اعتقاد رکھنا کفر ہے.
📕 فتاویٰ رضویہ میں ہے :
"امور غیب پر احکام لگانا، سعد و نحس کے خرخشے اڑانا، زائچہ کی راہ پر چلنا چلانا، اوتاد اربع، طالع رابع،عاشر، سابع پر نظر رکھنا، زائلہ مائلہ کو جانچنا پرکھنا، شرعا ہجر ہے اور اعتقاد کے ساتھ ہو تو قطعاکفر ہے"
( کتاب الصوم، باب روئۃ الھلال،ج:٨،ص:٣٣٢،امام احمد رضا اکیڈمی)
اگر کوئی سنی سعد و نحس کا عامل ہو مگر اعتقاد نہ رکھتا ہو تو گنہگار ہے، مستحق عذاب نار ہے. لیکن اعتقاد رکھتا ہو تو کافر ہے اس پر تجدید ایمان ونکاح اور مرید ہو تو تجدید ارادت ضروری ہے۔
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں