اسلام میں زکوٰۃ کی اہمیت وفرضیت
🖋️ طالب دعا:محمد محمود اشرف قادری مصباحی
[قادری نگر، سوتیہارامسلم ٹولہ، سیتامڑھی، بہار]
{٢٦/رمضان المبارک ١٤٤٢ھ/۹ مئی ٢٠٢١ء اتوار}
زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم رکن، مہتم بالشان فریضہ اور اعلیٰ قسم کی عبادت ہے۔اس کی عظمت واہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہےکہ خداےوحدہ لاشریک نے قرآن مجید میں بتیس (۳۲)جگہ نمازکےساتھ زکوٰۃ کاذکرفرمایا اور طرح طرح سے اپنےبندوں کواس کی اہمیت کا احساس دلایا۔
چناں چہ اس کی فرضیت کوبیان کرتےہوےارشاد فرمایا: *"اقیمواالصلوٰۃ واٰتواالزکوٰۃ وارکعوامع الرٰکعین"*
*ترجمہ:نمازقائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنےوالوں کےساتھ رکوع کرو۔*
آیت مذکورہ میں نمازکی فرضیت کےساتھ زکوٰۃ کی فرضیت کوبھی اجاگرکیاگیاہے۔
حدیث پاک میں بھی مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نےزکوٰۃ کاشماران پانچ چیزوں میں فرمایاجن پراسلام کی بنیادہے۔چناں چہ بخاری شریف میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا: *"بنی الاسلام علیٰ خمس:شھادۃ ان لاالٰہ الا الله وان محمدًارسول الله واقام الصلاۃ وایتاءالزٰکوۃ والحج وصوم رمضان. "*
*ترجمہ: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ۱۔اس بات کی گواہی دیناکہ الله کے سوا کوئی معبودنہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم الله جل شانہ کےرسول ہیں ۲۔نمازقائم رکھنا ۳۔ زکوٰۃ دینا ٤۔حج کرنا ۵۔ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات کریمہ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بےشماراحادیث کریمہ میں زکوٰۃ اداکرنےکی تاکیدکی گئی ہےاور ساتھ ہی مسلمانوں کی ترغیب وترہیب کے لیے زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے فضائل ومناقب اور اس سےغفلت برتنےوالوں کے لیے دردناک انجام بھی بیان کردیاگیاہے۔لیکن ان تمام آیات کریمہ واحادیث نبویہ کا بیان کرنا یہاں پر مشکل ترین امرہے اوراس کی ضرورت بھی نہیں کہ جو صحیح مسلمان ہوگااس کے لیے ایک ہی آیت وحدیث کافی ہے، اور جومحض نام کا مسلمان ہے ان کےلیے قرآن مجید کی تمام آیتیں اور احادیث مبارکہ کاسارادفتربھی بےسودہے۔لہذا فضائل ومناقب اور غضب وعذاب پرایک ایک آیت کریمہ اورایک ایک حدیث نبوی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔چناں چہ ارشادربانی ہے: *"والذین ھم لزّکوٰۃ فٰعلون"* (پ:۱۸،المؤمنون، آیت:٤)
*ترجمہ:اور فلاح پاتےوہ ہیں جو زکوٰۃ اداکرتےہیں*
*حدیث پاک میں ہے:ابن خزیمہ اپنی صحیح اورطبرانی اوسط اور حاکم مستدرک میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے راوی کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں:جس نےاپنےمال کی زکوٰۃ ادا کردی، بیشک اللہ تعالیٰ نے اس سے شر دورفرمادیا۔*
دردناک عذاب کا بیان قرآن مجید میں اس طرح سے ہے: *"والذین یکنزون الذھب والفضة ولاینفقونھافی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم. یوم یُحمیٰ علیھافی نارجھنم فتُکویٰ بھاجِباھُھم وجُنوبھم وظُھورھم ھذاماکنزتم لانفسکم فذوقواماکنتم تکنزون."* (پ:۱۰،التوبۃ، آیت:٣٤،٣٥)
*ترجمہ:جولوگ سونااورچاندی جمع کرتےہیں اور اسےاللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں انھیں دردناک عذاب کی خوش خبری سنادو، جس دن آتش جہنم میں وہ تپائےجائیں گے اور ان سےان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور ان سے کہاجائے گا یہ وہ ہے جو تم نے اپنے نفس کےلیے جمع کیا تھاتواب جکھوجوجمع کرتےتھے۔*
حدیث پاک میں ہے: صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں: جس کو الله تعالیٰ مال دےاور وہ اس کی زکوٰۃ ادانہ کرےتوقیامت کے دن وہ مال گنجےسانپ کی صورت میں کردیاجائے گا، جس کےسرپردوچتّیاں ہوں گی وہ سانپ اس کے گلےمیں طوق بناکرڈال دیاجائے گا پھراس کی باچھیں پکڑےگااور کہےگا میں تیرامال ہوں، میں تیراخزانہ ہوں۔اس کے بعد آقاعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی {ولایحسبنّ الذین یبخلون}. (صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب اثم مانع الزکوۃ، ج:۱،ص:٤٧٤)
*زکوٰۃ ۲/ھ میں ماہ رمضان کے روزوں سے پہلے فرض ہوئی۔ فقیہ اعظم ہندحضورصدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاوٰی عالمگیری کے حوالہ سے فرماتےہیں:* زکوٰۃ فرض ہے، اس کامنکر کافراورنہ دینےوالافاسق اورقتل کامستحق اور ادا میں تاخیر کرنےوالا سخت گنہ گار ومردودالشہادۃ ہے۔(بہار شریعت، زکوٰۃ کابیان، ج:۱،ح:۵،ص:۸۷٤ مکتبۃ المدینہ)
*اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری قدس سرہ العزیز اس طرح کے عذاب کی ہولناکیوں کاذکر فرمانےکےبعد مسلمانوں کو تنبیہ کرتےہوے فرماتےہیں:* "اےعزیز! کیاخدا و رسول کےفرمان کو یوں ہی ہنسی، ٹھٹھاسمجھتاہے، یاپچاس ہزار برس کی مدت میں یہ جاں کاہ مصیبتیں جھیلنی سہل جانتاہے۔ذرایہیں کی آگ میں ایک آدھ روپیہ گرم کرکے بدن پر رکھ کر دیکھ، پھرکہاں یہ خفیف گرمی،کہاں وہ قبرکی آگ۔کہاں یہ ایک روپیہ، کہاں وہ ساری عمر کا جوڑاہوامال۔کہاں یہ منٹ بھرکی دیر، کہاں وہ ہزاربرس کی آفت۔کہاں یہ ہلکاساچہکا، کہاں وہ ہڈیاں توڑکرپارہونےوالا غضب۔ اللّٰه تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت بخشے۔آمین"۔(فتاوٰی رضویہ، ج:٤،ص:٤٣٥،رضااکیڈمی،ممبئی)
📍 *زکوٰۃ اداکرنےکےنمایاں فوائد:*📍
زکوٰۃ اداکرناتکمیل ایمان کا ذریعہ ہے★ زکوٰۃ دینےسےباقی مال پاک ہوجاتاہے★ زکوٰۃ اداکرنےسےمال میں برکت ہوتی ہے★ زکوٰۃ دینےسےباقی مال ضائع اور بربادہونےسے محفوظ ہوجاتاہے★ زکوٰۃ اداکرنا مسلمانوں کاوصف ہے★زکوٰۃ دینا نمازکی قبولیت کاذریعہ ہے؛ کیوں کہ جوشخص زکوٰۃ نہیں دیتا ہے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی★ زکوٰۃ اداکرنےسے ایمان کی لذت ملتی ہے★ زکوٰۃ دینےسے انسان مال کے شرسےنجات پاجاتاہے اورکامیابیوں سے ہم کنارہوتاہے۔
*زکوٰۃ کی تعریف*:زکوٰۃ شریعت میں الله تعالیٰ کےلیےمال کےایک حصہ کاجوشرع نے مقررکیاہے مسلمان فقیر کو مالک کردیناہے۔
📍 *شرائط وجوب زکوٰۃ درج ذیل ہیں:*📍
(۱)مسلمان ہونا(۲)بالغ ہونا(۳)عاقل ہونا(٤)آزادہونا(۵)مال بقدرنصاب اس کی ملک میں ہونا(٦)پورےطورپراس کامالک وقابض ہونا(۷)نصاب کادَین سے فارغ ہونا(۸)نصاب کاحاجت اصلیہ سے فارغ ہونا(۹)مال نامی ہونا(۱۰)حولان حول یعنی نصاب پر ایک سال کاگزرنا۔ [بہارشریعت، زکوٰۃ کابیان، ج:۱،ح:۵]
📍 *نصاب کی مقدار اور رائج پیمانہ:* 📍
سونےکانصاب بیس مثقال یعنی ساڑھےسات تولہ ہے جو اس وقت رائج پیمانہ کےحساب سے ترانوےگرام اور تین سو بارہ ملی گرام[93.312g]ہے۔ اورچاندی کانصاب دوسودرہم یعنی ساڑھےباون تولہ ہے جواس وقت رائج پیمانہ کے حساب سے چھ سوترپن گرام اور ایک سو چوراسی ملی گرام [653.184g] ہے۔(عظمت زکوٰۃ، ص:٦٢،از:مولاناساجدعلی مصباحی، استادجامعہ اشرفیہ، مبارک پور، ہند)
*مسئلہ:* اگرسوناچاندی الگ الگ قدرنصاب نہیں ہیں لیکن دونوں کی مجموعی قیمت کسی ایک کے برابرہوجاتی ہے تووہ شخص مالک نصاب ہے۔مثلا بیس گرام سوناہےاور دس گرام چاندی ہے تواس میں الگ الگ کوئی قدرنصاب نہیں ہے لیکن دونوں کی مجموعی قیمت اتنی ہوجاتی ہے کہ ساڑھےباون تولہ [653.184g]چاندی خریدی جاسکے؛ لہٰذا وہ مالک نصاب ہے۔(حوالہ سابق، ص:٦٢)
*مسئلہ:* سونا،چاندی کےعلاوہ تجارت کی کوئی چیزہو جس کی قیمت سونےیاچاندی کےنصاب کوپہنچے تواس پربھی زکوٰۃ واجب ہے۔
*مسئلہ:* اگرمال تجارت کی قیمت نصاب کو نہیں پہنچتی ہے مگر اس کے پاس اس کے علاوہ سونا، چاندی بھی ہے تواس کی قیمت سونےیاچاندی کےساتھ مجموعہ کریں، اگرمجموعہ نصاب کوپہنچ جائےتو زکوٰۃ واجب ہے۔(حوالہ سابق، ص:۷۱)
*کرائےپردی جانےوالی چیزوں کی زکوٰۃ:*
دکان، مکان، ٹینٹ یادوسرےسامان جوکرائےپر اٹھانےکےلیےہوں، ان پر زکوٰۃ نہیں ہے، اگرچہ وہ لاکھوں روپےکےہوں۔یوں ہی کرائےپرچلنےوالی گاڑیوں یابسوں پربھی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ ہاں! ان کی آمدنی تنہا یادوسرے مال کےساتھ مل کرنصاب کوپہنچ جائے تو زکوٰۃ کی دیگر شرائط پائےجانےپراس کی زکوٰۃ دینا ہوگی۔(حوالہ سابق، ص:۷۲)
📍 *کتنی زکوٰۃ نکالیں؟*: 📍
کل مال کاچالیسواں حصہ [اڑھائی فیصد/پرسنٹ] زکوٰۃ میں دے۔مثلاً چالیس ہزار[40000] روپے ہیں توایک ہزار[1000] اور ایک لاکھ[100000] روپے ہیں تواڑھائی ہزار[2500] روپے زکوٰۃ میں اداکرے۔(حوالہ سابق، ص:۷۲)
*نوٹ: عوام الناس کوچاہیےکہ وہ اپنےجانےپہچانے یااپنےعلاقےکے کسی اچھےعالم دین سے مکمل اہتمام کے ساتھ زکوٰۃ کی فہرست بنوالیں اور مکمل مال کی زکوٰۃ نکالیں*۔
الله تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت بخشے کہ وہ اپنےمال کی زکوٰۃ نکالے اور غرباوفقرا کاخیال رکھے۔آمین یارب العٰلمین بجاہ حبیبہ الکریم علیہ افضل الصلاة والتسلیم۔
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں