مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
شخصیات پر طعن وتشنیع سنگین جرم
علمائے اہل سنت و جماعت کے مابین ظنی امور میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ایسی صورت میں صحیح مسائل کا بیان یا صحیح موقف پر استدلال امر محمود ہے۔شخصیات پر طعن وتشنیع فعل مذموم ہے۔اس سے پرہیز کیا جائے۔علمی اختلاف کو ایک فتنہ نہ بنایا جائے۔
کئی عشروں سے یہ رواج بن چکا ہے کہ لوگ شخصیات کو مطعون کرتے ہیں۔ان کو برا بھلا کہتے ہیں۔کیا یہ از روئے شرع جائز ہے؟کیا اس کو علمی اختلاف کا نام دیا جا سکتا ہے؟
کسی کی عیب جوئی کرنے پر خود اس شخص سے معافی مانگنی ہو گی۔حقوق العباد کا حکم اسی طرح ہے۔
افسوس! کئی عشروں سے یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ظنی اور فقہی امور میں اختلافات اپنے حدود سے باہر ہو جاتے ہیں۔یہ فروغ سنیت کے لئے نقصان دہ ہے۔
پہلے ہم بد مذہبوں کے باہمی اختلافات قوم کے سامنے پیش کرتے تھے اور بد مذہبوں کو الزامی جواب دیتے تھے۔اب ہم خود اس میں مبتلا ہو گئے۔
حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز کے عہد مسعودکا ایک واقعہ مندرجہ ذیل ہے۔
فاضل شہیر حضرت علامہ حنیف خاں رضوی بریلوی صدر المدرسین جامعہ نوریہ رضویہ(بریلی شریف)نے قریبا دس سال قبل مجھے مرکز الثقافۃ السنیہ(کالی کٹ)میں بتایا تھا کہ جب چاند پر انسانوں کے جانے کا چرچا ہوا تو حضرت علامہ غلام جیلانی میرٹھی اور حضرت مفتی شریف الحق علیہما الرحمہ کے مابین علمی و تحقیقی اختلاف ہو گیا کہ چاند پر انسانوں کا جانا ممکن ہے یا نہیں؟
دونوں جانب سے کئی رسائل لکھے گئے۔انجام کار حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ العزیز نے دونوں حضرات کو بریلی شریف بلایا اور فرمایا کہ اب دونوں جانب سے تحریریں بند ہونی چاہئے۔اس کے بعد جواب وجواب الجواب کا سلسلہ بند ہو گیا۔
عہد حاضر میں بھی ایسی کوشش ہونی چاہئے۔فقہی اختلافات کو طول نہ دیا جائے۔ظنی امور میں اختلاف ممکن ہے۔ظنی امور میں عند اللہ کون حق ہے؟ معلوم نہیں۔
ایک عجب ماحول یہ بن گیا ہے کہ اگر کچھ کہا جائے تو احباب اس تجسس میں لگ جاتے ہیں کہ یہ آدمی کس گروپ سے تعلق رکھتا ہے۔یہ کس شخصیت سے منسلک ہے۔
بھائیو! نہ کسی گروپ سے میرا تعلق ہے,نہ میں کسی خاص شخصیت سے منسلک ہوں۔
میں نے جس بے نظیر و بے مثال رسول علیہ التحیۃ والثنا کا کلمہ پڑھا ہے,انہیں سے منسلک ہوں۔وہی میرے ماوی و ملجا ہیں۔ان شاء اللہ تعالی آخرت میں بھی ضرور سہارا دیں گے۔
چوں کہ حضور اقدس تاجدار دوجہاں علیہ الصلوۃ والسلام ہر مشکل میں دستگیری فرماتے ہیں,پس کسی گروپ میں شمولیت کی بالکل ضرورت نہیں۔
سارے جہاں کو چھوڑ کر ترے در کے پاس
بیٹھا ہوں اس طرح کہ اب اٹھا نہیں جاتا
باب اعتقادیات میں امام احمد رضا قادری علیہ الرحمۃ والرضوان کی توضیح و تشریح کو حق مانتا ہوں,کیوں کہ مجدد موصوف نے وہی بیان کیا جو حضور اقدس تاجدار دو جہاں علیہ التحیۃ والثنا کے ارشادات عالیہ کے صحیح مطالب ہیں۔
اپنے احباب کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ امام احمد رضا قادری کی انگلی پکڑ کر دربار اعظم تک پہنچو۔وہی مقصود و مطلوب ہیں۔
ایک کا رکھ عبد واحد بے ریا کے واسطے
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:16:مئی 2021
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں