مذہب خامس کا جواز وامکان
قاضی ثناء اللہ عثمانی مظہری (م۵۲۲۱ھ)نے رقم فرمایا:
(ان اہل السنۃ والجماعۃ قد افترقت بعد القرون الثلٰثۃ علٰی اربعۃ مذاہب-ولم یبق فی الفروع مذہب سوی المذاہب الاربعۃ-فقد انعقد الاجماع المرکب علٰی بطلان قول یخالف کلہم)
(التفسیرالمظہری جلد اول:ص518- -داراحیاء التراث العربی بیروت)
ترجمہ:اہل سنت وجماعت تین صدیوں بعد چار مذاہب میں منقسم ہو گئے اور فرعیات میں مذاہب اربعہ کے علاوہ کوئی مذہب باقی نہ رہا،پس اجماع مرکب منعقد ہو گیا اس قول کے بطلان پر جومذاہب اربعہ کے خلاف ہو۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۴۱۱۱ھ- ۶۷۱۱ ھ) نے تحریرفرمایا:
(بعد المأتین ظہر فیہم التمذہب للمجتہدین باعیانہم-وقَلَّ من کان لایعتمد علٰی مذہب مجتہد بعینہ وکان ہذا ہو الواجب فی ٰذلک الزمان) (الانصاف: ص19-استنبول ترکی)
ترجمہ:دو صدی بعد مسلمانوں میں خاص مجتہدین کے مذہب کو اختیا رکرنے کا طریقہ ظاہر ہوا،اور کم ہی کوئی ہوگا جو کسی خاص مجتہد کے مذہب پر عمل نہ کرتا ہو،اور خاص مجتہد کے مذہب کواختیار کرنا اس زمانہ میں واجب تھا۔
صدی سوم کے بعدچار مذاہب فقہیہ پر امت مسلمہ کا اجماع ہوگیا۔ مذہب خامس کا وجود اسی وقت ہوگا،جب کوئی مجتہد مطلق ہو۔مجتہد مطلق کے لیے جدید فقہی اصول وضوابط کی ضرورت ہوگی۔
جدید اصول وضوابط کی تدوین مشکل ہے،کیوں کہ مجتہدین متقدمین نے ان تمام دلائل کا احاطہ کر لیا،جن سے اصول وضوابط کو اخذکیا جا سکتا ہے۔
ہر مجتہد مطلق قرآن وسنت اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے طریق متوارث سے اپنے اجتہاد وقیاس کے لیے اصول وضوابط کو اخذکرتے ہیں۔
سلفیوں میں ہرشخص خود کومجتہدمطلق سمجھتا ہے۔ وہ اپنا اصول فقہ واجتہاد بتائے جو اس نے قرآن وحدیث واقوال صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے اخذ کیا ہو۔ درحقیقت یہ لوگ بلا اصول وقانون احادیث طیبہ پرعمل کرتے ہیں۔ یہ لوگ داؤد ظاہر ی کے مقلد ہیں۔
(1)قاضی حبیب الحق پاکستانی نے امام سیوطی شافعی کے”رسا لۃالتقلید“ کے حوالے سے تحریرفرمایا: (المجتہد المستقل ہوالذی استقل بقواعدہ لنفسہ بناءً علیہا الفقہ خارجًا عن قواعد المذاہب الاربعۃ-وہذا شیء فقد من الدہر-ولو ارادہ انسان،لامتنع علیہ)(مقیاس القیاس:ص13-استنبول)
ترجمہ:مجتہد مطلق وہ ہے جواپنے لئے اپنے مخصوص قواعد کے ساتھ مستقل ہو،اس کی فقہ کی بنیاد ان قواعد پر ہو، اور یہ قواعد مذاہب اربعہ کے قواعد سے جداگانہ ہوں،اور یہ ایسی چیز ہے جوایک زمانے سے مفقود ہے،اور اگر کوئی انسان اس کا ارداہ کرے تو اس پر یہ امر محال ہو جائے گا۔
توضیح: جدید قواعد کے لئے دلائل چاہئے اور متقدمین نے تمام دلائل کا احاطہ کرلیا،نیز مذاہب اربعہ پر اجماع ہوچکا۔یہ چار مذاہب عمل کے لیے کافی ہیں۔
(ولو ارادہ انسان،لامتنع علیہ)سے واضح ہوگیا کہ مذاہب اربعہ کے اصول اجتہاد سے الگ اور اس سے جداگانہ مستقل اصول اجتہاد کی تدوین بہت مشکل ہے۔
(2)امام زرکشی شافعی نے رقم فرمایا:(القائلون بالتقلید اوجبوا التقلید فی ہذہ الاعصار-ومستندہم فیہ انہم استوعبوا الاسالیب الشرعیۃ فلم یبق لمن بعدہم اسلوب متماسک علی السبر-ولہٰذا لما احدثت الظاہریۃ والجدلیۃ بعدہم خلاف اسالیبہم،قطع کل محق انہا بدع ومخارق لا حقائق) (البحر المحیط:جلد ششم:ص291)
ترجمہ:تقلیدکے قائلین نے ان زمانوں میں تقلید کو واجب قرار دیا ہے، اور اس (وجوب تقلید) کے بارے میں ان کی دلیل یہ ہے کہ مجتہدین متقدمین نے شریعت کے تمام طریقوں (اصول اجتہاد) کا احاطہ کر لیا، پس مابعد والوں کے لیے کوئی قابل استناد طریقہ بالکل باقی نہ رہا، اور اسی لیے جب ان مجتہدین متقدمین کے بعد ان کے طریقہ کے بر خلاف ظاہر یہ (داؤد بن علی ظاہری (۲۰۲ھ-۰۷۲ھ) کے متبعین) اور جدلیہ پیدا ہوئے تو ہراہل حق نے یقین کر لیا کہ یہ بدعتیں ہیں اور (خلاف اجماع) جھوٹی باتیں ہیں،نہ کہ (سچی) حقیقتیں۔
(3)امام زرکشی شافعی(794.745ھ) نے رقم فرمایا:(والحق ان العصرخلا عن المجتہد المطلق،لا عن مجتہد فی مذہب احد الائمۃ الاربعۃ-وقد وقع الاتفاق بین المسلمین علٰی ان الحق منحصرفی ہذہ المذاہب- وحینئذ فلا یجوز العمل بغیرہا-فلا یجوزان یقع الاجتہاد الا فیہا)
(البحرالمحیط:جلدششم: ص209)
ترجمہ: حق یہ ہے کہ زمانہ مجتہد مطلق سے خالی ہو گیا،نہ کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کے مذہب کے مجتہد (مجتہدفی المذہب،مجتہد فی المسائل)سے (یعنی مجتہد فی المذہب ومجتہدفی المسائل وغیرہ کا وجود وقتاً فوقتاً ہو تا رہا)،اور مسلمانوں کے درمیان اتفاق ہو چکا ہے کہ حق ان ہی مذاہب میں منحصر ہے،اور اس وقت (حق کے مذاہب اربعہ میں منحصر ہونے کے وقت)ان کے علاوہ مذاہب پر عمل کر نا جائز نہیں ہے، پس جائز نہیں کہ اجتہاد واقع ہو، مگر ان ہی مذاہب اربعہ میں۔
توضیح:حضور اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام کی جلوہ گری کے بعدکسی جدیدنبی یانئے رسول کاوجودمحال ہے۔ اجتہاد مطلق کا دروازہ کھلا ہے، لیکن ائمہ اربعہ کے بعد اس منزل تک کسی کی رسائی نہ ہو سکی۔شریعت کے جن دلائل سے اجتہادکے اصول وقواعد مستنبط ہوسکتے تھے،ائمہ ماقبل نے ان تمام دلائل کا احاطہ کرلیا۔اس طرح مجتہد مطلق کا وجودگرچہ ممکن ہے،لیکن دلائل و قرائن کی روشنی میں مشکل ہے۔ایک طویل مدت سے مجتہدفی المذہب کا وجودبھی مفقود ہے۔
(وحینئذ فلا یجوز العمل بغیرہا-فلا یجوزان یقع الاجتہاد الا فیہا) سے واضح ہے کہ مذاہب اربعہ کے علاوہ کسی مذہب پر عمل جائزنہیں۔اسی طرح مذاہب اربعہ میں جواحکام بیان کیے گئے ہیں۔انہیں پر عمل کرنا ہوگا، کیوں کہ ان احکام پر اجماع بسیط یا اجماع مرکب ہوچکا۔
(4)امام زرکشی نے تحریر فرمایا:(وہذا کلہ یوضح ان الضرورۃ دعت المتأخرین الٰی اتباع المتقدمین لانہم سبقوہم بالبرہان حتّٰی لم یبقوا لہم باقیۃً یَستَبِدُّونَ بہا-وذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء-ولکن الفضل للمتقدم-وظہربہذ ا تعذر اثبات مذہب مستقل بقواعد)
(البحر المحیط:جلدششم:ص291)
ترجمہ: یہ تمام اسباب وضاحت کر رہے ہیں کہ ضرورت متأخرین کے لیے متقدمین کے اتباع کی طرف داعی ہوئی، اس لیے کہ متقدمین دلیل کے ساتھ متأخرین سے مقدم ہو گئے، یہاں تک کہ متأخرین کے لئے باقی رہنے والے امور باقی نہ رکھے کہ متأخرین ان میں مستقل ہو جائیں،اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے،جسے چاہے عطافر ما تا ہے،اور لیکن (اس مقام پر)فضیلت متقدم کے لیے ہے،اور اسی سے مخصوص قواعد کے ساتھ ایک مستقل مذہب کے وجود کا متعذرہونا ظاہر ہو گیا۔
توضیح:(وظہربہذ ا تعذر اثبات مذہب مستقل بقواعد)سے واضح ہوگیا کہ اب کوئی ایسا مستقل فقہی مذہب وجود میں آنا مشکل ہے جس کے مستقل قواعد ہوں۔
منقولہ بالااقتباسات سے معلوم ہوا کہ مذہب خامس کا وجود مشکل ہے۔فقہ واجتہاد کے جدید اصول وضوابط کا اخذ وتدوین بہت مشکل ہے۔
نیز اب کسی جدید مذہب کی ضرورت بھی نہیں۔شریعت اسلامیہ پر عمل کرنے کے لیے یہ چار فقہی مذاہب کافی ہیں۔سلفی مذہب باطل ہے۔عالم عرب میں بعض غیر سلفی علمابھی اجتہاد مطلق کا دعویٰ کرتے ہیں۔یہ غلط دعویٰ ہے۔پہلے وہ اپنے اصول اجتہاد پیش کریں، تاکہ اس پر بحث ہو۔
مذہب خامس کے بطلان کا سبب
ملا احمد جیون جونپور ی نے رقم فرمایا:((والامۃ اذا اختلفوا)فی مسئلۃ فی ای عصرکان(علٰی اقوال کان اجماعًا منہم علٰی ان ما عد اہا باطل) ولا یجوزلمن بعدہم احداث قول اٰخر-کما فی الحامل المتوفی عنہا زوجہا -قیل تعتد بعدۃ الحامل وقیل بابعد الاجلین-ولایجوز ان تعتد بعدۃ الوفاۃ اذا لم تکن ابعد الاجلین۔
(وقیل ہذ ا فی الصحابۃ خاصۃً)ای بطلان القول الثالث فی الصحابۃ فقط فانہم ان اختلفوا علٰی قولین کان اجماعًا علٰی بطلان القول الثالث دون سا ئر الامۃ-ولکن الحق ان بطلان القول الثالث مطلقٌ، یجری فی اختلاف کل عصروہذا یسمّٰی اجماعًا مرکبًا لانہ نشأ من اختلاف قولین وہواقسام-قسم منہا یسمّٰی بعدم القائل بالفصل وقد بینہا صاحب التوضیح بما لایتصورالمزید علیہ-وعندی ان ہذا الاصل ہوالمنشاء لانحصار المذاہب فی الاربعۃ وبطلان الخامس المستحدث)
(نورالا نوار: ص 223-طبع ہندی)
ترجمہ:جب کسی زمانے میں امت مسلمہ کسی مسئلے میں چند قول پر مختلف ہو جائے تو ان کی طرف سے اس بات پر اجماع ہو گیاکہ ان اقوال کے ماسوا باطل ہے،اور ان کے مابعد والے کے لئے ایک دوسرا نیا قول لا نا جائز نہیں ہوگا،جیسا کہ حاملہ کے بارے میں جس کا شوہر وفات پا چکا ہو۔ ایک قول ہے کہ حاملہ کی عدت گزارے گی، اور ایک قول ہے کہ دونوں عدت (حمل اور موت کی عدت)میں سے بعید ترعدت گزارے گی،اور جائز نہیں ہے کہ وہ وفات کی عدت گزارے جب کہ وہ دونوں عدت میں بعید تر نہ ہو۔
اور کہا گیا کہ یہ خاص کر صحابہ کرام کے بارے میں ہے یعنی تیسرے قول کا بطلان صرف صحابہ کرام کے بارے میں ہے (نہ کہ تمام مجتہدین کے بارے میں)،پس اگر صحابہ کرام دوقول پر مختلف ہو جائیں تو تیسرے قول کے بطلان پر اجماع ہو جائے گا۔
لیکن حق یہ ہے کہ تیسرے قول کا باطل ہونا ایک مطلق (حکم)ہے جو ہر زمانے کے اختلاف میں جاری ہو گا،اور اس اجماع کا نام اجماع مرکب رکھا جائے گا،اس لئے کہ یہ دوقول کے مختلف ہو نے سے پیداہوا،اور اس کی چند قسمیں ہیں۔اس کی ایک قسم کا نام رکھا گیا ہے”عد م القا ئل با لفصل“،اور صاحب توضیح صدرالشریعہ نے اسے (تفصیل کے ساتھ)بیان کردیا ہے کہ جس پر زیادتی کا تصور نہیں ہو سکتا۔
اور ہمارے نزدیک یہی قاعدہ (اجماع مرکب کی مخالفت نہ کرنے کا قاعدہ)مذاہب فقہیہ کے چار میں منحصر ہونے اور نئے پانچویں مذہب کے باطل ہونے کا سبب ہے۔
توضیح:باب فقہ کے اجتہادی وظنی مسائل پر اجماع بسیط یا اجماع مرکب ہو چکا۔قطعی مسائل میں اجتہاد کی اجازت نہیں۔اسی طرح جس ظنی مسئلہ پر اجماع بسیط ہو,وہاں بھی اجتہاد کی اجازت نہیں۔
جہاں اجماع مرکب ہو تو مجتہد کو انہی اقوال میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہو گا۔ایسی صورت میں کوئی جدید پانچواں مذہب وجود میں نہیں آ سکتا۔اسی طرح جب اصول فقہ کے شرعی دلائل باقی نہ رہے۔ائمہ مجتہدین نے ان سے اصول اجتہاد وضع فرما لیا تو اب کوئی جدید مستقل اصول فقہ وجود میں نہیں آ سکتا۔
ائمہ اربعہ کے بعدکوئی مجتہدمطلق نہ ہوئے
حضرات ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے بعد کسی مجتہدمطلق کا وجودنہ ہوا۔ بعض علمانے امام محمد بن جریر طبری شافعی (۴۲۲ھ-۰۱۳ھ)کو ، بعض علمانے امام بخاری (۴۹۱ھ-۶۵۲ ھ) کو، اور بعض لوگ داؤد بن علی اصبہانی ظاہری (۲۰۲ھ- ۰۷۲ھ) کو ان مجتہدین میں شمار کر تے ہیں جو ائمہ اربعہ کے بعد ہوئے،لیکن جمہور علمانے حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۴۶۱ھ-۱۴۲ھ)کے بعد کسی کو بھی مجتہد مطلق تسلیم نہیں کیا۔
عہد حاضر میں سلفی لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے اجتہاد مطلق کے دعویدارہیں۔ در اصل یہ لوگ داؤد ظاہر ی اورابن حزم ظاہری کے مقلد ہیں۔یہ دونوں بدمذہب تھے۔
امام شعرانی نے رقم فرمایا:(وقد نقل الجلال السیوطی رحمہ اللّٰہ تعالٰی ان الاجتہاد المطلق علٰی قسمین-غیرمنتسب کما علیہ الائمۃ الاربعۃ و مطلق منتسب کما علیہ اکابر اصحابہم الذین ذکرناہم-قال:ولم یدع الاجتہاد المطلق غیرالمنتسب بعد الائمۃ الاربعۃ الا الامام محمد بن جریرالطبری ولم یسلم لہ ذلک)(میزان الشریعۃ الکبریٰ: جلد اول:ص14)
ترجمہ:امام جلال الدین سیوطی شافعی نے نقل کیا کہ اجتہاد مطلق کی دوقسم ہے:(۱) اجتہاد مطلق غیر منتسب کہ جس طریقے پر ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں،(۲) اور اجتہاد مطلق منتسب کہ جس طریقے پر ائمہ اربعہ کے اکابرین اصحاب ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا۔
امام سیوطی نے فرمایاکہ ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد مطلق غیر منتسب کا دعویٰ صرف امام محمد بن جریر طبری نے کیا اور امام طبری کے لیے اجتہاد مطلق غیر منتسب کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
توضیح:مجتہد فی الشرع کو کبھی مجتہد مطلق،کبھی مجتہد مستقل اور کبھی مجتہد مطلق غیر منتسب کہا جا تا ہے،اور مجتہد فی المذہب کو مجتہد مطلق منتسب کہا جا تا ہے،کیوں کہ گر چہ وہ مسائل فرعیہ کے استنباط میں کامل ہو تے ہیں، لیکن اصول استنباط کسی مجتہدمطلق غیرمنتسب کا ہو تا ہے،اسی لیے وہ مجتہد مطلق منتسب کہلاتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام
اور حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
قرب قیامت حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ظہور ہوگا۔ ان کے ظہور سے قبل ہی اکثر فقہی مذاہب پرعمل موقوف ہوجائے گا،یعنی لوگ ان فقہی مذاہب پرعمل اورتقلید کو ترک کر دیں گے۔ سب سے پہلے حنبلی مذہب پر عمل موقوف ہوگا،پھر شافعی مذہب،پھر مالکی مذہب،پھر حنفی مذہب پر عمل موقوف ہوگا۔
جب فقہی مذاہب ختم ہوجائیں گے،تب ان ائمہ کرام نے جن دلائل کے ذریعہ اصول اجتہاد مدون فر مائے تھے،ان دلائل سے جدید اصول فقہ مدون کیے جا سکتے ہیں۔
اگر تین فقہی مذاہب یعنی حنبلی،شافعی ومالکی ختم ہوجائیں تو ان ائمہ کرام نے جن دلائل شرعیہ سے اصول فقہ اخذ فرمایا تھا، اب ان دلائل سے ماخوذ کوئی اصول فقہ عمل میں نہیں، پس ان دلائل سے جدیداصول فقہ ماخوذومدون ہوسکتے ہیں۔ ابھی چاروں مذاہب فقہیہ پر امت کا عمل جاری ہے،پس ان شرعی دلائل سے ماخوذاصول فقہ ابھی نافذ العمل ہے۔جو اعتراض ابھی ہوتا ہے، مذاہب فقہیہ کے خاتمہ کے بعدوہ اعتراض وارد نہیں ہوگا۔
مذاہب اربعہ میں سے سب سے اخیرمدت تک مذہب حنفی پر عمل ہوتا رہے گا۔ ظہور امام مہدی کے بعد اس پر عمل بھی موقوف ہوجائے گا۔
مذاہب اربعہ میں باب فقہ کے اجتہادی وظنی مسائل میں اختلاف ہے۔قطعی احکام قیامت تک کے لیے ہیں۔ان میں تبدیلی نہیں ہوتی۔
حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ظہور ہوگا،پھر انہیں کے عہد میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کا آسمان سے نزول ہوگا۔حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد مسعود میں مذاہب اربعہ پر عمل کا حکم موقوف ہوجائے گا۔ وہ مجتہد مطلق ہوں گے۔امت مسلمہ ان کے مذہب پر عمل کرے گی۔
حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام اولو العزم مرسلین میں سے ہیں۔ ایک قول ہے کہ وہ اجتہاد فرمائیں گے۔ایک قول ہے کہ شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والثنا کی وحی انہیں کی جائے گی۔امت مسلمہ ان کے قول پر عمل کرے گی۔
(1)امام عبد الوہاب شعرانی شافعی (973-898ھ)نے رقم فرمایا:
(یخرج المہدی علیہ السلام فیبطل فی عصرہ التقید بالعمل بقول من قبلہ من المذاہب کما صرح بہ اہل الکشف ویلہم الحکم بشریعۃ محمدﷺبحکم المطابقۃ بحیث لوکان رسول اللّٰہﷺموجودًا لَاَقَرَّہٗ علٰی جمیع احکامہ کما اشار الیہ فی حدیث ذکرالمہدی بقولہ”یقفؤ اثری لایخطئ“ثم اذا نزل عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام انتقل الحکم الٰی امراٰخر وہوانہ یوحٰی الی السید عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام بشریعۃ محمدﷺعلٰی لسان جبرئیل علیہ الصلٰوۃ والسلام)
(میزان الشریعۃ الکبریٰ:جلد اول:ص49)
ترجمہ:حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظاہرہوں گے،پس ان کے زمانے میں ماقبل فقہی مذاہب میں سے کسی کے قول پرعمل کی تخصیص ختم ہوجائے گی جیسا کہ اہل کشف نے اس کی صراحت کی،اورانہیں حضوراقدس ﷺ کی شریعت کا الہام کیا جائے گا بطریق مطابقت، اس طرح کہ اگر حضوراقدس سید الانبیاءﷺ جلوہ افروز ہوتے توان کے تمام احکام پر انہیں برقرار رکھتے،جیسا کہ آپ ﷺنے ذکرمہدی کی حدیث میں اپنے قول مبارک کے ذریعہ اس کی طرف اشارہ فرمایاکہ ”وہ میرے نقش قدم کی پیروی کریں گے،خطا نہیں کریں گے“ پھرجب حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام نزول فرمائیں گے توحکم دوسرے امرکی طرف منتقل ہوجائے گا،اوروہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کوحضرت جبرئیل امین علیہ السلام کے ذریعہ شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا التحیۃ و الثنا کی وحی کی جائے گی۔
(2)حضرت مجددالف ثانی (۱۷۹ھ-۴۳۰۱ھ)نے رقم فرمایا:
”وبواسطہ ہمیں مناسبت کہ بحضرت روح اللہ دارد، تواندبودآنچہ خواجہ محمدپارسا در فصول ستہ نوشتہ است کہ حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام بعد ازنزول بمذہب ابی حنیفہ عمل خواہدکرد،یعنی اجتہاد حضرت روح اللہ موافق اجتہاد امام اعظم خواہدبود،نہ آنکہ تقلیدایں مذہب خواہدکردعلیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کہ شان اوعلیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام ازاں بلندتراست کہ تقلید علمائے امت فرماید۔
بے شائبہ ء تکلف وتعصب گفتہ می شودکہ نورانیت ایں مذہب حنفی بنظرکشفی دررنگ دریائے عظیم می نماید،وسائرمذاہب دررنگ حیاض وجداول بنظرمی درآیند،وبظاہرہم کہ ملاحظہ نمودہ می آید۔ سواداعظم ازا ہل اسلام متابعان ابی حنیفہ اند علیہم الرضوان“۔(المنتخبات من المکتوبات: ص262:مکتوب55)
ترجمہ:اسی دقت مدارک کی مناسبت کی وجہ سے جوامام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رکھتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ہوجو خواجہ محمد پارسا نے فصول ستہ میں رقم فرمایاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام نزول کے بعدحضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذہب پر عمل کریں گے،یعنی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کا اجتہاد امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اجتہاد کے موافق ہوگا۔
ایسا نہیں ہے کہ وہ اس مذہب حنفی کی تقلید فرمائیں گے،کیوں کہ ان کی شان اس سے بلند ہے کہ وہ علمائے امت کی تقلید فرمائیں۔تکلف اور تعصب کے شائبہ کے بغیر کہا جاتا ہے کہ نظر کشفی میں اس مذہب حنفی کی نورانیت دریائے عظیم کے رنگ میں نظرآتی ہے اور تمام فقہی مذاہب حوض اورنہر کے رنگ میں نظر آتے ہیں،اور بظاہربھی ایسا ہی نظرآتا ہے۔ اہل اسلام کی بڑی جماعت امام اعظم رضی اللہ عنہ کے متبعین میں سے ہے۔
توضیح:حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃو السلام اولوالعزم مرسلین میں سے ہیں۔ایک نبی کسی امتی کی تقلید نہیں کرسکتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنے اجتہاد کے مطابق شریعت محمدیہ پر عمل کریں گے،اوران کا اجتہاد حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اجتہاد کے مماثل وموافق ہوگا، جیسا کہ اہل کشف نے بیان فرمایا،اورامام شعرانی نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بطوروحی شریعت اسلامیہ بتائی جائے گی۔
(3)امام شعرانی نے رقم فرمایا:(ومذہبہ اول المذاہب تدوینًا-واٰخرہا انقراضًا کما قالہ بعض اہل الکشف)(میزان الشریعۃ الکبریٰ:جلد اول ص63)
ترجمہ:حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مذہب تدوین کے اعتبارسے پہلا مذہب ہے،اورختم ہونے کے اعتبارسے سب سے آخری مذہب ہے،جیسا کہ بعض اہل کشف نے فرمایا۔
(4)امام شعرانی نے تحریرفرمایا:(قد تقدم ان اللّٰہ لَمَّا مَنَّ عَلَیَّ بالاطلاع علٰی عین الشریعۃ رأیت المذ اہب کلہا متصلۃ بہاورأ یت مذاہب الائمۃ الاربعۃ تجری جداولہا-ورأیت جمیع المذاہب التی اندرست قد استحالت حجارۃ-ورأیت اطول الائمۃ جدولًا الامام ابا حنیفۃ-ویلیہ الامام مالک ویلیہ الامام الشافعی ویلیہ الامام احمد بن حنبل …………
فَاَوَّلتُ ذلک لطول زمن العمل بمذاہبہم وقصرہ-فکما کان مذہب الامام ابی حنیفۃ اول المذا ہب المدونۃ تدوینًا فکذلک یکون اٰخرہا انقراضًا-وبذلک قال اہل الکشف)(میزان الشریعۃ الکبریٰ: جلد اول: ص29)
ترجمہ:ماقبل میں گزرچکا کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھ پر عین الشریعۃ الکبریٰ پر اطلاع کا احسان فرمایا تو میں نے تمام فقہی مذاہب کو اس سے متصل دیکھا، اورمیں نے حضرات ائمہ اربعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے مذاہب کودیکھا کہ ان کی نہریں بہہ رہی ہیں،اوروہ تمام فقہی مذاہب جوختم ہوگئے،انہیں میں نے دیکھاکہ پتھرحائل ہوچکے ہیں۔
اورمیں نے ائمہ میں سب سے لمبی نہرحضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دیکھی،اوران کے قریب حضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نہر ہے،اورحضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نہرکے قریب حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نہر ہے،اور ان کے قریب حضرت امام احمدبن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نہرہے……
تومیں نے اس کی تاویل ان کے مذاہب کی مدت عمل کے طویل اورقصیر ہونے سے کیا،پس حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مذہب مدون مذاہب میں تدوین کے اعتبارسے پہلا مذہب ہے،اور اسی طرح ختم ہونے کے اعتبارسے سب سے آخری مذہب ہے،اوراہل کشف نے ایسا ہی فرمایا۔
طارق انو ر مصباحی
جاری کردہ:19:ستمبر 2021
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں