Header Ads

امام احمد رضا کے فتاویٰ میں فرائض و واجبات کی تاکید

*📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯امام احمد رضا کے فتاویٰ میں فرائض و واجبات کی تاکید🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📬 امام عشق و محبت، حامی سنت، ماحیِ بدعت، قاطعِ کفر و ضلالت، مجدد دین وملت، آیۃ من آیات رب العالمین، معجزۃ من معجزات سید المرسلین، سیدنا سرکار اعلی حضرت ، الشاہ امام احمد رضا خان، قادری، فاضل بریلوی ولادت ۱۰/شوال المکرم ۱۲۷۲ھ، وفات ٢٥/صفر المظفر ١٣٤٠ھ سقی اللہ ثراہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں 

آپ کو اللہ تعالی نے بے شمار علوم وفنون سے نوازا، غیر معمولی کتابیں تصنیف فرمائی، لاینحل مسائل کو بڑے سلیقے سے حل کیا جس پر آپ کے رسائل و تصانیف شاہد عدل ہیں، آپ نے جس عنوان پر بھی خامہ فرسائی کی تو اسے اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک اس کے سارے گوشوں کو نیم روز سے زیادہ واضح نہ فرمادیا،متعدد بیش قیمت حواشی وتعلیقات مرتب فرمائی

آپ کا علمی مقام یہ تھا کہ اگر علم حدیث پر گفتگو فرماتے تو ایسا لگتا جیسے امام بخاری ومسلم کا فیضان براہِ راست آپ پر برس رہا ہو ، اگر اسماء الرجال کی تحقیق کرنے پر آجائیں تو لگے کہ اس فن میں آپ کا کوئی ثانی نہیں اور علامہ ابن حجر عسقلانی و علامہ بدر الدین عینی پیچھے رہ جائیں، اگر علم کلام پر قلم اٹھ جائے تو اعتزال پر کپکپی طاری ہو جائے، منطق کے فرضی قواعد پر قلم چل پڑے تو ارسطو و فارابی بھی میدان چھوڑکر بھاگتے نظر آئیں، جب نجدیت و وہابیت سر اٹھا کر دیکھے تو اس کی ایسی سرکوبی فرمائیں کہ اس کے ایوان باطل میں آخری کیل ٹھوک دیں جس سےلوگوں کے ایمان و اعتقاد کا تحفظ ہو ، اگر کسی فقہی مسئلہ کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھائیں تو اس وقت تک نہ چھوڑیں کہ آپ سے آگے اس مسئلہ کی تحقیق ممکن ہی نہ ہو۔

درج ذیل کئی رسائل آپ کی کاوش فکر کا نتیجہ ہیں:” لمعۃ الضحیٰ فی اعفاء اللحی” جو داڑھی کے مسئلے پر اٹھارہ آیتوں بہتر حدیثوں اور ساٹھ ارشادات علما کا منہ بولتا شاہکار ہے۔ “الحق المجتلی فی حکم المبتلی” جو بیماری کے تعدیہ اور انفیکشن کے بارے میں تحقیق انیق ہے، ” المقامع الحدید علی خد المنطق الجدید”، الجبل الثانوی علی کلیۃ التھانوی،سبحان السبوح عن عیب کذب مقبوح، الکوکبۃ الشھابیۃ فی کفریات ابی الوہابیۃ، العطایا القدیر فی حکم التصویر،اجلی الاعلام بان الفتویٰ، مطلقاً علی قول الامام وغیرہ۔ علاوہ ازیں بے شمار رسائل وجرائد وفتاوی آپ کے علمی لیاقت کے تفوق کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ العطایا النبویہ فی فتاوی الرضویہ ایک بے مثال انسائکلو پیڈیا آپ کی علمی کاوش کا نتیجہ ہے۔

ان سب کے باوجود آپ نے عقائد و نظریات کی اصلاح کے ساتھ ساتھ فرائض و واجبات کی ادائیگی پر بھی زور دیا اور اس کی اپنے فتاوی میں جگہ بجگہ تاکید فرمائی ان شاءاللہ ہم اپنے اس مقالے میں اعلی حضرت کی اپنے فتاوی میں فرائض و واجبات کی تاکید کی کئی مثالیں پیش کرنے کی سعی کریں گے۔
اعلی حضرت نے کئی مسائل کا جواب دیتے ہوئے قوم مسلم کی کاہلی اور غفلت کو دیکھتے ہوئےاسے متنبہ فرمایا اور اس قوم کو بیدار کرنے کی سعی پیہم کی، ایسے مسائل کی تعداد بے شمار ہے ان میں سے بعض کو ہم ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔

نبی سے محبت ہی اصل ایمان اور کام یابی کا راز ہے

اشر ف علی تھانوی نے اپنی کتاب “حفظ الایمان ” میں جب نبی کی شان میں یہ اہانت آمیز الفاظ رقم کیے:”کہ پھر یہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے بعض غیب مراد ہے یا کل غیب، اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور ہی کی کیا تخصیص ہے؟ایسا علم غیب تو زید،عمرو،ہر صبی ومجنون بلکہ جمیع حیوانات وبہائم کے لیے بھی حاصل ہے

۔” تو اعلی حضرت فاضل بریلوی نے اس کے جواب میں ” تمہید ایمان بآیاتِ قرآن”تصنیف فرمائیجسے فتاوی رضویہ میں شامل کیا گیاہےاور اس میں اس پر حکم کفر لگایا اور سختی سے ایسے لوگوں سے ترک موالات پر زور دیا، فرمایا:کہ”جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ ایسے شخص سے دوستی نہیں رکھے گا بلکہ تاکید فرمائی کہ اے مسلمان! اپنے نبی سے سچی محبت کر ،کہ یہی مدار ایمان ہے اور اس پر اللہ تعالی بے شمار انعامات سے نوازتا ہے اور اگر نبی سے سچی محبت نہیں تو اس پر بے شمار عذاب نازل فرماتاہے۔
لہذا آپ نبی سے ایمان و محبت ضروری ہونے پر تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

“اے مسلمان! اےمسلمان! اے امتی سید الانس والجانصلی اللہ تعالی علیہ وسلمخدارا، ذرا انصاف کر، وہ سات بہتر ہیں جو ان لوگوں سے یک لختہ علاقہ ترک کردینے پر ملتے ہیں:کہ دل میں ایمان جم جاۓ، اللہ مددگار ہو، جنت مقام ہو، اللہ والوں میں شمار ہو، مرادیں ملیں، خدا تجھ سے راضی ہو۔ یا یہ سات بھلے ہیں جو ان لوگوں سے تعلق لگا دینے پر پڑیں گے:ظالم، گمراہ، کافر، جہنمی ہو ، آخرت میں خوار ہو، خدا کو ایذا دے، خدا دونوں جہان میں لعنت کرے۔
ہیھات، ہیھات، کون کہ سکتا ہے کہ یہ سات اچھے ہیں؟ کون کہ سکتاہے کہ وہ سات چھوڑنے کے ہیں، مگر جان برادر! خالی یہ کہ دینا تو کام نہیں دیتا، وہاں تو امتحان کی ٹھری ہے ابھی آیت سن چکے، “الم أحسب الناس”کیا اس بھلاوے میں ہوکہ بس زبان سے کہ کر چھوٹ جاؤگےامتحان نہ ہوگا ۔ ہاں یہی امتحان کا وقت ہے! دیکھو! یہ اللہ واحد قہار کی طرف سے تمھاری جانچ ہے۔ دیکھو! وہ فرما رہاہے کہ تمھارے رشتے، علاقے قیامت میں کام نہ آئیں گے، مجھ سے توڑکر کس سے جوڑتے ہو۔

دیکھو! وہ فرما رہاہے:کہ میں غافل نہیں، میں بے خبر نہیں، تمھارے اعمال دیکھ رہا ہوں، تمھارے اقوال سن رہا ہوں، تمھارے دلوں کی حالت سے خبردار ہوں، دیکھو! بے پروائی نہ کرو، پراے پیچھے اپنی عاقبت نہ بگاڑو، اللہ و رسول کے مقابل ضد سے کام نہ لو، دیکھو! وہ تمھیں سخت عذاب سے ڈراتا ہے، اس کے عذاب سے کہیں پناہ نہیں، دیکھو! وہ تمھیں اپنی رحمت کی طرف بلاتا ہے، بے اس کی رحمت کے کہیں نباہ نہیں، دیکھو! اور گناہ تو نرے گناہ ہوتے ہیں، جن پر عذاب کا استحقاق ہو، مگر ایمان نہیں جاتا عذاب ہو کہ خواہ رب کی رحمت،حبیب کی شفاعت سے بے عذاب ہی چھٹکارا ہوجاۓ گا یا ہوسکتا ہے، مگر یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا مقام ہے، ان کی عظمت، ان کی محبت مدار ایمان ہے، قرآن مجید کی آیتیں سن چکے کہ جو اس معاملہ میں کمی کرے اس پر دونوں جہان میں خدا کی لعنت ہے، دیکھو! جب ایمان گیا اصلا ابد الآباد تک کبھی، کسی طرح عذاب شدید سے رہائی نہ ہوگی، گستاخی کرنے والے، جن کا تم یہاں کچھ پاس لحاظ کرو وہاں اپنی بھگت رہے ہوں گے، تمھیں بچانے نہ آئیں گے، اور آئیں تو کیا کرسکتے ہیں؟۔

پھر ایسوں کا لحاظ کرکے اپنی جان ہمیشہ غضب جبار و عذاب نار میں پھنسا دینا کیا عقل کی بات ہے؟ لللہ لللہ ذرا دیر کو اللہ ورسول کے سوا سب ایں وآں سے نظر اٹھا کر آنکھیں بند کرو اور گردن جھکا کر اپنے آپ کو اللہ واحد قہار کے سامنے حاضر سمجھو اور نرے خالص سچے دل کےساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم عظمت، بلند عزت، رفیع وجاہت جو ان کے رب نے انھیں بخشی، اور ان کی تعظیم، ان کی توقیر پر ایمان واسلام کی بنا رکھی اسے دل میں جماکر انصاف وایمان سے کہو، کہ جس نے کہا: شیطان کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعت علم کی کونسی نص قطعی ہے۔ اس نے محمد رسول اللہ کی شان میں گستاخی نہ کی؟ کیا اس نے ابلیس لعین کے علم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم پر نہ بڑھایا؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت علم سے کافر ہوکر شیطان کی وسعت علم پر ایمان نہ لایا؟
(فتاوی رضویہ، ج:٣٠، ص:٣١٥،٣١٦)

گاے کی قربانی اسلامی شعار ہے، اورمسلمان اس کے مٹانے کے درپہ ہیں:
قربانی مسلمانوں کا محض ایک تیوہار ہی نہیں بلکہ اسلامی شعار بھی ہے جس کا باقی رکھنا اور اس کی بقا کی سعی کرنا مسلمانوں پر لازم ہے خصوصاً جب غیر مسلم اس کے روکنے کی کوشش کریں۔ لیکن اکثر یہ دیکھا گیاکہ کچھ لوگ اس موقع پر یہ باتیں کرتے ہیں: کہ”جب حکومت نے اس پر ممانعت عائد کررکھی ہے تو گاے کی قربانی کرنا کیا ضروری ہے؟ بلکہ اگر کوئی ایسے حالات میں کرلے تو اس پر زجر و توبیخ کی بوچھار کرتے ہوئے یہ دلائل پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ قربانی کے جانور اللہ تعالی نے اور بھی رکھے ہیں۔ جیسے :بکرا، بھینس، اونٹ، بھیڑ وغیرہ تو گاے کے ہی پیچھے پڑنا کیا ضروری ہے؟” حالاں کہ یہ سب وساوس خناس ہیں۔ بلکہ اگر کفار و مشرکین گاے کی قربانی سے روکیں تو گاے ہی قربان کرنا واجب ہے اور نہ کرنے والا اسلام کا سخت دشمن اور شیطان کا بھائی ہے۔ اس سلسلے میں اعلی حضرت کی ایک چشم کشا تحریر بشکل فتوی من وعن ملاحظہ ہو اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم کس قدر تباہی کے دہانے پر ہیں، اور جس شعار اسلام کا ابقاءواجرا ہم پر لازم و واجب تھا ہم اسی کے ختم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں بلکہ اس کے مٹانے کی دوسروں کو بھی تلقین کرتے ہیں۔ اعلی حضرت فرماتے ہیں:
“گاے کی قربانی بیشک شعار اسلام ہے، قال اللہ تعالی:”والبدن جعلناھا لکم من شعائر اللہ۔” اللہ تعالی نے فرمایا:”ہم نے اونٹ اور گاے کی قربانی کو تمھارے لیے دینِ الہی کی نشانیوں سے کیا۔
خود مولوی عبد الباری محلی فرنگی کو اس کا اقرار ہے۔ رسالہ قربانی ص:٢١ پر لکھتے ہیں: “والبدن جعلناھا لکم من شعائر اللہ”سے گاے کی قربانی ثابت ہوتی ہے۔ خصوصاً اس معدن مشرکین ہندوستان میں کہ یہاں اس کا ابقاء و اجرا بلاشبہ اعظم مہمات اسلام سے ہے، مکتوبات شیخ مجدد میں ہے:
“ذبح بقر در ہندوستان از اعظم شعائر اسلام است۔ ہندوستان میں گاے کا ذبح کرنا اسلام کے سب سے بڑے شعائر میں سے ہے۔”
یہاں اس کا باقی رکھنا واجب ہے۔ جس کی تحقیق ہمارے رسالہ “انفس الفکر فی قربان البقر ” میں ہے۔
علماے لکھنؤ نے بھی اسے تسلیم کیا ہے، مولوی عبد الحی صاحب کے فتاوی میں ہے:
گاے ذبح کرنا طریقہ قدیمہ ہے۔ زمان آں حضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم و جملہ سلف صالحین تمام بلاد و امصار میں، اور اس پر اجماع و اتفاق ہے تمام اہل اسلام کا، ایسے امر شرعی ماثور قدیم سے اگر ہنود بنظر تعصب مذہبی منع کریں تو مسلمانوں کو اس سے باز رہنا نہ درست ہے۔ بلکہ ہرگاہ ہنود ایک امر شرعی قدیم کے ابطال میں کوشش کریں، اہل اسلام پر واجب ہے کہ اس کے ابقاء و اجرا میں سعی کریں اور اگر ہنود کے کہنے سے اس فعل کو چھوڑیں تو گناہگار ہوں گے۔”
آخر میں لب لباب بیان کرتے ہوئے خوب شدومد کے ساتھ اس کیے ابقا کے لیے تاکیدا فرماتے ہیں:۔

” تو جو لوگ خوشنودیی مشرکین کے لیے اس شعار اسلام کو مٹانے چاہتے اور مسلمانوں کو اس کے چھوڑ نے پر زور دیتے ہیں سخت فاسق، مفسد، آمر بالحرام، بدخواہ اسلام، مسلمانوں کے رہزن مشرکین کے گرگے، شیطان کے بھائی، ابلیس کے کارندے، حق کے دشمن ہیں، منافقوں کے وارث ہیں۔
ان کے دام میں پھنس کر قربانی چھوڑ نے والا اللہ عزوجل کا مخالف اور ابلیس لعین کا فرماں بردار ہے، تارک واجب اور و مرتکب حرام ، مستحق نار وغضب جبار ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج:١٤، ص:١٦٦، ١٦٧، ١٦٨)

سنت کی ادائیگی کی خاطر فرض و واجب کو نہیں چھوڑا جاسکتا:

اعلی حضرت فاضل بریلوی کی بارگاہ میں چار سوالوں پر مشتمل ایک استفتا آیا جن میں ایک سوال یہ تھا کہ تہجد کا عادی ایک شخص ایسا قیلولہ کرتاہے کہ اس کی جماعت ظہر فوت ہو جاتی ہے۔ جائز ہے یا نہ؟ اس کا جواب اشر فعلی تھانوی اور قاسم علی مرادابادی دے چکے تھے

لیکن دونوں کے فتووں میں تخالف تھا ، اشرف علی تھانوی نے ایسا جواب دیا کہ جس سے تہجد کی اہمیت کم معلوم ہوتی اور قاسم علی مرادابادی نے اس طرح جواب دیا کہ جس سے جماعت کی اہمیت گھٹتی تھی اس کے بعد اعلی حضرت نے ان چاروں سوالوں کے جواب تحریر فرماۓ جس میں احقاق حق اور ابطال باطل کا کردارنبھایا اور اس کا نام “القلادۃ المرصعۃ فی نحو الاجوبۃ الاربعۃ” رکھا۔ جس میں اعلی حضرت نے سائل کی صحیح سے سرزنش اور زجر و توبیخ کی اور فرمایا کہ ایسا قیلولہ ہی کیوں کرتاہے جو ترک جماعت کا موجب ہو،ایسا سوال کرنا شیطانی وسوسہ ہے، تہجد کے فراق میں جماعت چھوڑنا غلط ہے لیکن ترک تہجد کی مشاورت بھی نہیں کی جاسکتی، درحقیقت دونوں میں کوئی تضاد اور تخالف نہیں، بلکہ غفلت کا نتیجہ ہے، ایسے وقت سویا ہی کیوں جاتاہے؟ یا اتنا زیادہ کھانا ہی کیوں کھایا جاتاہے؟ اوریہ تاکید فرمائی کہ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ نہ تہجد فوت ہو ، نہ جماعت چھوٹے۔ فرماتے ہیں:۔
(اے اعرابی! مجھے ڈر ہے کہ تو کعبہ کو نہیں پہونچے گا کیوں کہ جس راستے پر تو چل رہا ہے وہ ترکستان کو جاتاہے)
یا ہذا! سنت ادا کیا چاہتا ہے تو بر وجہ سنت ادا کر، یہ کیا سنت لیجیے اور واجب فوت کیجیے، ذرا بگوش ہوش سن اگرچہ حق تلخ گزرے، وسوسہ ڈالنے والے نے تجھے یہ جھوٹا بہانا سکھایا کہ اسے مفتیان زمانہ پر پیش کرے، جس کا خیال ترغیبات تہجد کی طرف جاۓ تجھے تفویت جماعت کی اجازت دے، جس کی نظر تاکیدات جماعت پر جاۓ تجھے ترک تہجد کی مشورت دے ۔ کہ “من ابتلی ببلیتین اختار اھونھما ” (دو بلاؤں میں مبتلا شخص ان دو میں سے آسان کو اختیار کرے ) بہرحال مفتیوں سے ایک نہ ایک کی دستاویز نقد ہے۔ مگر حاشا خدامِ فقہ وحدیث نہ تجھے تفویت واجب کا فتوی دیں گے، نہ عادیِ تہجد کو تہجد کی ہدایت کرکے ارشاد حضورسید الاسیاد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم:”یا عبد اللہ! “لاتکن مثل فلان کان یقوم اللیل فترک قیام اللیل” رواہ الشیخ عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص، یعنی اے عبد اللہ! فلاں شخص کی طرح نہ ہو جو رات کو قیام کرتا تھا مگر اب اس نے ترک کردیا۔(اسے بخاری ومسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کیاہے) کا خلاف کریں گے۔
یہ اس لیے کہ وہ بتوفیقہ حقیقتِ امر سے آگاہ ہیں، ان کے یہاں عقلِ سلیم و نظرِ قدیم دو عادل گواہ شہادت دے چکے ہیں کہ تہجد وجماعت میں تعارض نہیں، ان میں سے کوئی دوسرے کی تفویت کا داعی نہیں۔ بلکہ یہ ہواے نفسِ شریر و سوے طرزِ تدبیر سے ناشی۔ یا ھذا! اگر تو وقتِ جماعت جاگتا ہوتا اور بطلب آرام پڑا رہتا ہے جب تو صراحۃً آثم وتارکِ واجب ہے اور اس عذرِ باطل میں مبطل و کاذب۔ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: “الجفاء کل الجفاء والکفر والنفاق من سمع منادی اللہ ینادی الی الصلوات فلا یجیبہ” یعنی ظلم پورا ظلم اورکفر اور نفاق ہے کہ آدمی اللہ کے منادی کو نماز کی طرف بلاتا سنے اور حاضر نہ ہو۔ اور اگر ایسا نہیں تو اپنی حالت جانچ کہ یہ فتنۂ خواب کیوں کر جاگا اور یہ فسادِ عجاب کہاں سے پیدا ہو اس کی تدبیر کر۔ کیا تو قیلولہ ایسے تنگ وقت کرتاہے کہ وقتِ جماعت قریب ہوتاہے؟ ناچار ہوشیار نہیں ہونے پاتا، یوں ہے تو اولِ وقت خواب کر، اولیاے کرام قدسنا اللہ تعالی باسرارھم نے قیلولہ کے لیے خالی وقت رکھا جس میں نماز وتلاوت نہیں یعنی ضحوۂ کبری سے نصف النہار تک، وہ فرماتے ہیں:کہ چاشت وغیرہ سے فارغ ہوکر خواب خوب ہے کہ اس سے تہجد میں مدد ملتی ہے اور ٹھیک دوپہر ہونے سے کچھ پہلے جاگنا چاہیےکہ پیش از زوال وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر وقتِ زوال کہ ابتداے ظہر ہے ذکر و تلاوت میں مشغول ہو۔
ظاہر ہے کہ جو پیش از زوال بیدار ہولیا اس سے فوت جماعت کے کوئی معنی ہی نہیں، کیا اس وقت سونے میں تجھ کو عذر ہے، اچھا ٹھیک دوپہر کو سو مگر نہ اتنا کہ وقتِ جماعت آجاۓ، ایک ساعت قلیلہ قیلولہ بس ہے۔ اگر طولِ خواب سے خوف کرتا ہے تکیہ نہ کر، بچھونا نہ بچھا کہ بے تکیہ وبے بستر سونا بھی مسنون ہے، سوتے وقت دل کو خیالِ جماعت سے خوب متعلق رکھ کہ فکر کی نیند غافل نہیں ہوتی، کھانا حتی الامکان علی الصباح کھا کہ وقتِ نوم تک بخاراتِ طعام فرو ہولیں اور طولِ منام کے باعث نہ ہوں ،سب سے بہترین علاج تقلیلِ غذا ہے، پیٹ بھر کر قیامِ لیل کا شوق رکھنا بانجھ سے بچہ مانگنا ہے، جو بہت کھاۓ گا بہت پیے گا، جو بہت پیے گا بہت سوۓ گا اور جو بہت سوۓ گا آپ ہی یہ خیرات و برکات کھوۓ گا۔
(فتاویٰ رضویہ، ج:٧،ص:٨٧، ٨٨، ٨٩)

زکات کی ادائیگی کے بغیر نفلی صدقات و خیرات کی قبولیت کی امید مفقود:
غیر معمولی مقامات پر امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کی فرائض و واجبات پر تاکیدات ملتی ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلہ زکات کا ہے آپ کی خدمت میں ایک سوال موصول ہوا جس کا ماحصل یہ تھا کہ کوئی شخص غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں پر صرف کرے، مسجدیں تعمیر کراۓ تو کیا یہ اس کے لیے کچھ نفع بخش ہوگا؟ اور زکات اس کے ذمہ سے ساقط ہوجاۓ گی اس کے جواب میں اعلی حضرت نے جو فرمایا وہ سنہرے حرفوں سے لکھنے کے قابل ہے، آپ نے اس میں نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ فرض کی ادائیگی کی تاکید فرمائی اور زکات ادا کیے بغیر نفلی صدقات و خیرات کرنے والے کے لیےکوئی ثمرہ نہ ملنے کو کئی مثالوں سے واضح فرمایا۔ آپ بھی پڑھیے اور اپنے ایمان کو جلا بخشیے۔
اے عزیز!ایک بےعقل گنوار کو دیکھ کہ تخم گندم اگر پاس نہیں ہوتا بہزار دقت قرض دام سے حاصل کرتا ہے اور اسے زمین میں ڈال دیتا ہے۔ اس وقت تو وہ اپنے ہاتھوں سے خاک میں ملادیا مگر امید لگی رہتی ہے کہ خدا چاہے تو یہ کھونا بہت کچھ پانا ہوجاۓ گا، تجھے اس گنوار کے برابر بھی عقل نہیں، یا جس قدر ظاہری اسباب پر بھروسہ ہے اپنے مالک جل وعلا کے ارشاد پر اتنا اطمنان بھی نہیں کہ اپنا بڑھانے اور ایک ایک دانہ ایک ایک ڈھیر بنانے کو زکات کا بیج نہیں ڈالتا۔ وہ فرماتاہے: زکات دو تمھارا مال بڑھے گا اگر دل میں اس فرمان پر یقین نہیں تب تو کھلا کفر ہے۔ ورنہ تجھ سے بڑھ کر احمق کون؟ کہ اپنے یقینی نفع دین و دنیا کی ایسی بھاری تجارت چھوڑ کر دونوں جہانوں کا زیاں مول لیتاہے۔
غرض زکات نہ دینے کی جانکاہ آفتیں وہ نہیں جن کی تاب آسکے، نہ دینے والے کو ہزار سال ان سخت عذابوں میں گرفتاری کی امید رکھنا چاہیے کہ ضعیف البنیان انسان کی کیا جان اگر پہاڑوں پر ڈالی جائیں سرمہ ہوکر خاک میں مل جائیں، پھر ان سے بڑھ کر احمق کون؟ کہ اپنا مال جھوٹے سچے نام کی خیرات میں صرف کرے اور اللہ عزوجل کا فرض اور اس بادشاہ قہار کا بھاری قرض گردن پر رہنے دے، شیطان کا بڑا دھوکہ ہے۔ کہ آدمی کو نیکی کے پردے میں ہلاک کرتاہے، نادان سمجھتا ہے نیک کام کررہاہوں اور نہ جانا کہ کہ نفل بےفرض نرے دھوکے کی ٹٹی ہے، اس کے قبول کی امید تو مفقود اور اس کے ترک کا عذاب گردن پر موجود۔ اے عزیز! فرض خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گویا تحفہ ونزرانہ۔ فرض نہ دیجیے اور بالائی بیکار تحفے بھیجیے وہ قابل قبول ہوں گے،خصوصاً اس شہنشاہ غنی کی بارگاہ میں جو تمام جہان و جہانیاں سے بےنیاز ہے؟ یوں یقین نہ آۓ تو دنیا کے چھوٹے حاکموں کو ہی آزمالے، کوئی زمین دار مال گزاری تو بند کرلے اور تحفے میں ڈالیاں بھیجا کرے، دیکھو تو سرکاری مجرم ٹھہرتاہے یا اس کی ڈالیاں کچھ بہبود کا پھل لاتی ہیں!۔

حضور پرنور سیدنا غوث اعظم، مولاے اکرم حضرت شیخ محی الملۃ والدین ابو محمد عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی کتابِ مستطاب “فتوح الغیب” شریف میں کیا کیا جگرشگاف مثالیں ایسے شخص کے لیے ارشاد فرمائی ہیں، فرماتے ہیں:۔

جو فرض چھوڑ کر نفل بجالاۓ اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے کسی شخص کو بادشاہ اپنی خدمت کے لیے بلاۓ یہ وہاں تو حاضر نہ ہو اور اس کے غلام کی خدمتگاری میں موجود رہے۔

پھر حضرت امیر المومنین، مولی المسلمین، سیدنا مولی علی مرتضی_ کرم اللہ تعالی وجہہ_ سے اس کی مثال نقل فرمائی، کہ جناب ارشاد فرماتے ہیں: ایسے شخص کا حال اس عورت کی طرح ہے جسے حمل رہا جب بچہ ہونے کے دن قریب آے اسقاط ہوگیا، اب وہ حاملہ ہے نہ بچہ والی۔ یعنی جب پورے دنوں پر اسقاط ہوتو محنت تو پوری اٹھائی اور نتیجہ خاک نہیں۔
کہ اگر بچہ ہوتا تو ثمرہ خود موجود تھا، حمل رہتا تو امید لگی تھی، اب نہ حمل نہ بچہ، نہ امید نہ ثمرہ، اور تکلیف وہی جھیلنی پڑی جو بچہ والی کو ہوتی۔ ایسے ہی اس نفلی خیرات دینے والے کے پاس روپیہ تو اٹھا مگر جب کہ فرض چھوڑا یہ نفل بھی قبول نہ ہوا تو خرچ کا خرچ ہوا اور قبول کچھ بھی نہی۔ (فتاویٰ رضویہ، ج: ١٠، ص:١٨٣)
کسی معظم دینی کی وجہ سے نماز میں تاخیر نہیں کی جاسکتی
اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے ہر وقت، ہر موڑ بلکہ بوقت وصال بھی فرائض و واجبات کی تاکید فرمائی، آپ کے وصال شریف سے قبل کے حالات “الملفوظ” میں درج کیے گیے ہیں ان میں سے ہم موضوع کے مطابق تھوڑا سا عبارت کا ٹکڑا نقل کرتے ہیں۔

جس میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ تادم مرگ آپ نے کیسے فرائض و واجبات کی تاکید فرمائی۔ بیان کیا جاتاہے:۔
“شب پنج شنبہ میں اہل بیت نے چاہا کہ جاگیں، شاید کوئی ضرورت ہو، منع فرمایا، جب انھوں نے زیادہ اصرار کیا تو ارشاد فرمایا:”ان شاءاللہ یہ وہ رات نہیں جو تمہارا خیال ہے تم سب سو رہو، وصال کے روز ارشاد فرمایا نماز جمعہ میں تاخیر نہ کرنا

قضا نمازیں جلد ادا کی جائیں موت کا کوئی بھروسا نہیں:

بعض حاضرین نے اعلی حضرت سے پوچھا کہ قضا نمازوں کی ادائیگی گا طریقہ کیا ہے؟ تو اعلی حضرت فاضل بریلوی نے نہ صرف جواب دیا بلکہ اس کی ادائیگی پر بھی زور دیا اور تخفیف کا طریقہ بھی ارشاد فرمایا تاکہ بوجھ ہلکہ ہو تو بآسانی ادا ہوسکیں۔ فرماتے ہیں:”قضا نمازیں جلد سے جلد ادا کرنا لازم ہیں، نہ معلوم کس وقت موت آجاۓ، کیا مشکل ہے۔
ایک دن کی بیس رکعت ہوتی ہیں (یعنی فجر کے فرضوں کی دورکعت اور ظہر کی چار، مغرب کی تین، عشاء کی سات رکعت یعنی چار فرض تین وتر) ان نمازوں کو سواے طلوع و غروب وزوال کے (کہ اس وقت سجدہ حرام ہے) ہر وقت ادا کرسکتاہے

اور اختیار ہے کہ پہلے فجر کی سب نمازیں ادا کر لے پھر ظہر پھر عصر پھر مغرب پھر عشاء کی، یا سب نمازیں ساتھ ساتھ ادا کرتا جاۓ اور ان کا ایسا حساب لگاۓ کہ تخمینہ میں باقی نہ رہ جائیں، زیادہ ہوجائیں تو حرج نہیں اور وہ سب بقدر طاقت رفتہ رفتہ جلد ادا کرے کاہلی نہ کرے، جب تک فرض ذمہ پر باقی رہتا ہے

کوئی نفل قبول نہیں کیا جاتا، نیت ان نمازوں کی اس طرح ہو مثلاً سو بار کی فجر قضا ہے تو ہر بار یوں کہے کہ سب سے پہلے جو فجر مجھ سے قضا ہوئی ، ہر دفعہ یہی کہے یعنی جب ایک ادا ہوئی تو باقیوں میں جو سب سے پہلی ہے

اسی طرح ظہر وغیرہ ہر نماز میں نیت کرے جس پر بہت سی نمازیں قضا ہوں اس کے لیے صورت تخفیف اور جلد ادا ہونے کی یہ ہےکہ خالی رکعتوں میں بجاے “الحمد شریف” کے تین بار “سبحان اللہ” کہے اگر ایک بار بھی کہ لے گا تو فرض ادا ہوجاۓ گا، نیز تسبیحات رکوع و سجود میں صرف ایک ایک بار “سبحان ربی العظیم” اور “سبحان ربی الاعلی” پڑھ لینا کافی ہے تشہد کے بعد دونوں درود شریف کے بجاے “اللھم صل علی سیدنا محمد وآلہ “۔
وتروں میں بجاے دعاے قنوت “رب اغفرلی ” کہنا کافی ہے ۔ طلوع آفتاب کے بیس منٹ بعد اور غروب آفتاب سے بیس منٹ قبل نماز ادا کرسکتاہے اس سے پہلے یا اس کے بعد ناجائز ہے۔ (الملفوظ، حصہ اول، ص: ٦٢)

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*از قلم✍🏻 مفتی محمد ایوب رضوی مصباحی، پرنسپل وناظم تعلیمات دارالعلوم وجامعہ گلشن مصطفی للبنین ونسواں بہادرگنج/ خطیب وامام جامع مسجد عالم پور،سلطان پور، ٹھاکردوارہ، مراداباد۔*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے