✍🏻 مبارک علی رضوی
دیو کے بندے, اشرف علی تھانوی کافر و ملعون کو بچانے اور علماۓ حرمین طیبین کے فتوی کو غلط ثابت کرنے کے چکر میں کٸ بار ذلیل ہوۓ ہیں اور ہو رہے ہیں۔
ان کی اسی بے سود کوشش کی ایک کڑی مندرجہ بالا پوسٹ کی شکل میں ہے۔جو ذاکر دیوبندی کی کارستانی ہے۔
اور ان کی مزید ذلت کے لیے ہم یہ تحریر ترتیب دے رہے ہیں۔
ذاکر دیو کی بندی نے "تمہید الایمان" سے ایک حوالہ نقل کیا۔ وھو ھذا
" *تمام کتب فتاوی میں جتنے الفاظ پر حکم کفر کا جزم کیا ہے۔ان سے مراد وہ صورت ہے کہ قاٸل نے ان سے پہلوۓ کفر مراد لیا ہو ورنہ ہرگز کفر نہیں۔* "
پھر اس ذاکر دیو کی بندی نے بسط السنان مصنفہ اشرف تھانوی, سے حوالہ نقل کیا کہ اشرف تھانوی نے اپنی عبارت سے متعلق لکھا:
" اب آخر میں اس جواب کی تتمیم کے لۓ مناسب سمجھتا ہوں کہ حفظ الایمان کی اس عبارت کی مزید توضیح کردوں جس کی بنا پر مجھ پر تہمت لگاٸی گٸ ہے گو کہ وہ خود بھی بالکل واضح ہے اول میں نے دعوی کیا ہے کہ علم غیب جو بلاواسطہ ہو وہ تو خاص ہے حق تعالے کے ساتھ اور جو بواسطہ ہو وہ مخلوق کے لۓ ہوسکتا ہے مگر اس سے مخلوق کو عالم الغیب کہنا جاٸز نہیں۔اور اس دعوی پر دو دلیلیں قاٸم کی ہیں۔وہ عبارت دوسری دلیل کی ہے جو اس لفظ سے شروع ہوٸی ہے پھر یہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پر مطلب یہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جاتا ہے یعنی محض اس بنا پر کہ آپ کو علوم غیبیہ بواسطہ حاصل ہیں آپ کو عالم الغیب کہنا اگر صحیح ہو تو اس سے اگر کل غیر متناہیہ مراد ہوں تو وہ نقلا اور عقلا محال ہے اور اگر بعض علوم مراد ہوں گو وہ ایک ہی چیز کا علم ہو اور گو وہ چیز ادنی ہی درجہ کی ہو تو اس میں حضورﷺ کی کیا تخصیص ہے ایسا علم غیب تو زید عمرو وغیرہ کے لۓ بھی حاصل ہے تو لفظ ایسا کا یہ مطلب نہیں کہ جیسا علم واقع میں حضورﷺ کو حاصل ہے الخ نعوذ باللہ منہا بلکہ مراد اس لفظ ایسا سے وہی ہے جو اوپر مذکور ہے یعنی مطلق بعض علم گو وہ ایک ہی چیز کا ہو گو وہ چیز ادنی ہی درجہ کی ہو کیونکہ اوپر بھی مذکور ہوچکا ہے کہ بعض سے مراد عام ہے اور عبارت آٸندہ بھی اسکی دلیل ہے۔وھو قولہ کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہے جو دوسرے شخص سے مخفی ہے۔پس اگر زید ہر مخفی ادنی چیز کے علم حاصل ہونے کو بھی۔۔۔عالم الغیب کے اطلاق صحیح ہونے کا سبب بتلاتا ہے تو زید کو چاہیے کہ ان سب کو عالم الغیب کہے۔"
اچھا!!! تو سب سے پہلے ہم ان دیوبندیوں کی عقل کو درست کرنے کے لیے سیدی اعلی حضرت کی عبارت اور پھر اس کافر اشرف تھانوی کی عبارت کا جاٸزہ لیتے ہیں۔
1.سیدی اعلی حضرت کی عبارت کی توضیح:
سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ تمہید الایمان ص 101 سے شروع ہوتے ہیں اور 106 تک آٸمہ سلف کے مختلف اقوال اس ضمن میں لاتے ہیں کہ جو ضروریات دین میں سے کسی ایک چیز کا انکار کرے وہ تو اہل قبلہ میں نہیں۔اسکی تکفیر کی جاۓ گی۔یونہی جو آقاﷺ کی ادنی سی بھی توہین کرے سو وہ بھی کافر۔
چلیں پہلے یہ درج ذیل فتوی پڑھیں اسکے بعد تمہید الایمان کی مزید توضیح اس سے متصل اگلی عبارت سے ہی کی جاۓ گی۔ ان شاء اللہ
۔صاحب تفسیر روح البیان علامہ اسماعیل حقی رحمة اللہ علیہ فرماتےہیں:
“تمام علماۓ امت کا اجماع ہے کہ ہمارے نبیﷺ یا کوٸی اور نبی علیہ السلام کی ہر قسم کی تنقیص و تحقیقر و گستاخی کفر ہے اسکا قاٸل اسے جاٸز سمجھ کر گستاخی کرے یا وہی اسکا عقیدہ ہو یا نہ ہو قصدا گستاخی کرے یا بلا قصد, خطا ٕ واقع ہو یا سہوا ہر طرح سے اس پر کفر کا فتوی ہے۔نبوت کی شان میں گستاخی میں لاعلمی و جہالت کا عذر غیر مسموع ہے۔اسی طرح سبقت لسانی(جیسے ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ جی زبان پھسل گٸ تھی) کا عذر بھی قابل قبول نہیں۔
(تفسیر روح البیان تفسیر پارہ نمبر ١٠ ص ٤٧٣-٤٧٤ طبع مکتبہ اویسیہ رضویہ سیرانی روڈ بہاولپور۔۔مترجم شیخ القرآن و الحدیث علامہ محمد فیض احمد اویسی مدظلہ العالی)
سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ رحمة الرحمن فرماتے ہیں:
ہر نبی کی تحقیر مطلق کفر ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد ١٥ ص ٥٨٧ طبع رضا فاونڈیشن لاہور)
تمہید الایمان میں ذاکر دیوبندی کی نقل کردہ عبارت سے آگے یہ عبارت موجود ہے:
" *ضروری تنبیہ:احتمال وہ معتبر ہے جسکی گنجاٸش ہو صریح بات میں تاویل نہیں سنی جاتی۔ورنہ کوٸی بات بھی کفرنہ رہے۔۔۔آگے سیدی اعلی حضرت نے اس قول کو شفا ٕ شریف و شرح نیز فتاوی خلاصہ و فصول عمادیہ جامع الفصولین و فتاوی ہندیہ کی عبارات سے تقویت دی۔* " ایضا ص 115. کتب خانہ امام رضا۔(ذاکر دیوبندی نے دعوت اسلامی کی مطبوعہ کا حوالہ دیا تھا۔)
لہذا ۔۔ جب تھانوی کی عبارت میں کفر واضح ہے۔تو اس بات سے اس کو بچانے کی تدبیر کرنا بے سود ہے۔
اب ہم بسط السنان میں موجود اشرف تھانوی کی اپنی ہی عبارت کی , کی گٸ توضیح سے اسکی عبارت کو واضح کرتے ہیں۔
1.آپ ﷺ کی ذات پر "علم غیب کا حکم" ۔۔۔
2. محض اس بنا پر کہ آپﷺ کو علوم غیبیہ بواسطہ حاصل ہیں۔تو عالم الغیب کہنا اگر صحیح ہے تو اس سے کل غیر متناہیہ مراد ہوں تو عقلا و نقلا محال۔
((اب یہاں اتنی بات تو سمجھ آگٸ کہ بات آقاﷺ پر علم غیب کےحکم کی ہورہی ہے اور عالم الغیب کے اطلاق کی۔۔جیسا کہ بسط السنان میں توضیح کی عبارت میں ہے,جسے میں اوپر نقل کرچکا۔))
3.اگر بعض علوم مراد ہوں گو وہ ایک ہی چیز کا علم ہو اور وہ گو ادنی ہی درجہ کی ہو تو اس میں حضورﷺ کی کیا تخصیص ہے ایسا علم غیب تو زید عمرو(( پھر حفظ الایمان میں اس سے آگے صبی مجنون و جانور کا بھی نام لکھا ہے جو یہاں حذف کیا گیا خیر ! میں بات آگے بڑھاتا ہوں۔۔ناقل))
علم غیب کی تعریف ذرا سن لیں۔پھر بتاٸیں کہ یہ صبی مجنون و جانور کو کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟
علم کیا ہے؟:
امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ علم کی تعریف کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:
"العلم ادراک الشي ٕ بحقیقتہ"
اب یہ بتاٸیں کہ پاگل اور جانور کسی شۓ کی حقیقت کا ادارک کیسے کرینگے؟ یہ تو جہالت ہے اشرف تھانوی کی کہ علم کی نسبت پاگل و جانور کی طرف کی۔
اب حقیقت کے ادراک سے کیا مراد ہے امام موصوف فرماتے ہیں:
"ذالک ضربان:
احدھما: ادراک ذات الشٸ
والثانی: الحکم علی الشی ٕ بوجود شٸ ھو موجودلہ,اٶ نفی شٸ ٕ ھو منفی عنہ"
تو بتاٸیں جناب! کہ پاگل و جانور کسی کی ذات کا ادارک کیسے کرینگے یا وہ اسکی صفت کا اثبات یا انکار کیسے کرینگے؟
آگے امام صاحب علیہ الرحمہ مزید فرماتے ہیں:
"والعلم من وجہ ضربان: نظری و عملی۔
فالنظری: ما إذا علم فقد کمل۔نحو:العلم بموجودات العالم۔
والعملی:مالا یتم الا بان یعمل کالعلم العبادات۔"
علم کی اس تقسیم میں بھی لفظ علم کی نسبت پاگل و جانور کی طرف نہیں کی جاسکتی کہ
نظری تو وہ علم ہے جو معلوم ہونے کے ساتھ مکمل ہو اور عملی وہ جو عمل سے پایہ تکمیل کو پہنچے۔
تو جب پاگل و جانور کے پاس فہم نہیں تو وہ کسی شۓ کا ادراک اسکی صفات اور کسی معلوم شۓ پر عامل کیسے بن سکتے ہیں؟؟
پھر امام موصوف نے علم کی ایک تقسیم یوں بھی کی ہے:
"و من وجہ آخر ضربان: عقلی و سمعی۔"
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اشرف تھانوی کہ جسکی پیداٸش اس وقت ہوٸی جب اسکا باپ قاطع النسل دواٸی کھا چکا تھا, علم کی تعریف سے واقف نہ تھا جو مجنون و جانور کی طرف اسکی نسبت کی؟؟کیسے جاہل بھرے پڑے ہیں دیو بند میں!
اب غیب کی تعریف پڑھیں:
مفردات میں ہی ہے:
" ما لا یقع تحت الحواس و لا تقتضیہ بدایة العقول وانما یعلم بخبر الانبیا ٕ علیھم السلام "
اسی قسم کی تعریف تفسیر انوار التنزیل (تفسیر بیضاوی) میں بھی ہے۔
لیں جی! غیب نہ تو حواس سے معلوم ہوتا ہے نہ عقل سے ۔صرف انبیا ٕ علیھم السلام کے بتانے سے پتہ چلتا ہے۔
اب پاگل و جانور پر علم غیب کا حکم کہاں تک درست ہے یہ بتاٸیں؟
مزید بتا دیتا ہوں کہ غیب دو طرح پر ہے۔ اول وہ جو دلیل سے معلوم ہو دوم جو دلیل سے معلوم نہ ہو۔جیسا کہ تفسیر الکبیر(تفسیر رازی) اور تفسیر روح البیان میں ہے۔
تو بتاٶ دیوبندیوں کہ جانور و پاگل اگر کسی ایسی بات کو جانتے ہیں جو حواس و عقل سے معلوم نہ ہوتی ہو تو دلیل سے جانتے ہیں یا بنا دلیل؟
دلیل سے کیا مراد ہے وہ اوپر نقل ہوچکا(یعنی انبیا ٕ علیھم السلام کے بتانے سے۔اور نبی تو سب خدا کے بتاۓ سے ہی جانتاہے۔)
جب یہ واضح ہوگیاکہ علم غیب کا حکم پاگل و جانور و بچے (کہ بچہ بھی اپنے حواس و عقل سے اشیا ٕ کا ادراک کرتا ہے) پر کیا جانا ہی درست نہیں۔تو انہیں آقاﷺ کے مقابل بطور دلیل لانا کہاں کا انصاف ہے؟
دوم اشرف تھانوی کی توضیح والی عبارت سے یہ علم ہوتا ہے کہ اس نے کسی ایک چیز کے علم خواہ وہ ادنی ہو اس کے جاننے میں , جبکہ اسکا تعلق غیب سے ہو, آقاﷺ اور معاذ اللہ استغفراللہ نقل کفر کفر نہ باشد,بچے پاگل و جانور برابر ہیں۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔
تو جناب! پہلی بات تو یہ کہ علم غیب کا اطلاق مندرجہ بالا پر درست نہیں لہذا انکو آقاﷺ کے مقابل لانا ہی گستاخی ہے۔دوم اگر بالفرض محال بچے پاگل اور جانور کسی غیب کی بات پر اطلاع پا لیں تو سوال ہے کہ کیسے پاجاٸیں گے؟
جواب یہی ہے کہ جیسے گوہ کو علم ہوا کہ آقاﷺ اللہ کے رسول ہیں یا جیسے غار ثور والا اژدھا جانتا تھا یا دیگر جانور۔ان کو اللہ تعالی یا آقاﷺ نے باذن اللہ اس پر اطلاع دی۔تو انہیں یہ بات دلیل سے معلوم ہوٸی جیسے ہمیں جنت و دوزخ کا علم۔
مگر کیا اس میں یہ سب اور آقاﷺ برابر ہیں؟؟؟ یعنی اس ایک چیز کا علم جتنا آقاﷺ کو ہے اتنا ہی باقیوں کو بھی ہے؟
حاشا۔ نہیں!! بلکہ ہمارا علم ان حالتوں میں بھی ناقص کہ نامکمل ہے اور آقاﷺ کا علم کسی ایک چیز میں خواہ وہ ادنی ہی ہو مکمل ہے۔مخلوق کسی ایک شے کے ادراک میں بھی آقاﷺ کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
چلیں اسے ایک مثال سے سمجھ لیں۔
بیج سے پودا بننے تک کا سفر,ایک عام انسان سے زیادہ کسان جانتا ہے۔کسان سے زیادہ ایگریکلچر ساٸنس کا طالب علم جانتا ہے۔طالب علم سے زیادہ استاد جانتا ہے۔اس استاد سے زیادہ ساٸسندان جانتا ہے۔ساٸسندان سے زیادہ نبی جانتا ہے اور نبی سے زیادہ خدا جانتا ہے۔
پس کسی ایک چیز کے علم میں بھی نبی اور دوسرے انسان کے علم میں کوٸی نسبت نہیں اگر ہے تو اتنی کہ جتنی ذرے کو صحرا سے قطرے کو سمندر سے۔
نبی کا علم وسعت صحرا و سمندر سے زیادہ۔کہ یہ خدا کا تعلیم یافتہ ہے۔بس اشرف تھانوی نے پاگل و جانور وبچے پر علم غیب کا حکم کرکے جو اسے آقاﷺ کے علم غیب میں موجود کسی ذات سے متعلق ادنی سی بات کے بھی جتنا / برابر بتانے کی کوشش کی سو کفر کیا۔
اب ایک بات حفظ الایمان کی عبارت سے متعلق اور۔۔۔
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے,اپنی کتاب "المعتمد المستند" میں چند ملعون کفار کی کفریہ عبارات پر علماۓ حرمین زادھما اللہ شرفا سے فتاوی لیے۔یہی کتاب مع فتاوی حسام الحرمین ( حرمین شریفین کی تلوار) سے ملقب ہوٸی۔
اس میں سیدی اعلی حضرت نے اشرف تھانوی کی کفریہ عبارت کو نقل کرنے سے قبل فرمایا:
"اشرف التانوی صنف رسیلة لا تبلغ اربعة اوراق 👈🏻و صرح فیھا👉🏻 بان العلم الذی لرسول اللہﷺ بالمغیات فان مثلہ حاصل لکل صبی و کل مجنون بل لکل حیوان و کل بھیمة۔
پھر "و ھذا الفظہ الملعون" کہہ کر اسکی عبارت نقل کی۔
"ان صح الحکم علی ذات النبی المقدسة بعلم المغیبات کما یقول بہ زید فالمسٸول عنہ انہ ماذا اراد بھذا ابعض الغیوب ام کلھا فان اردا البعض فای خصوصیة فیہ لحضرة الرسالة فان مثل ھذا العلم بالغیب حاصل لزید و عمرو بل لکل صبی و مجنون بل لجمیع الحیوان والبھاٸم و ان اراد الکل بحیث لا یشذ منہ فرد فبطلانہ ثابت نقلا و عقلا۔"
مگر دیوبندی کہ جن کی مثال بھیڑیے جیسی اور عقل گدھے کے عضو تناسل جیسی۔۔۔ انہیں یہ عقیدہ شان رسالت مآبﷺ کے خلاف تو لگ رہا ہے آج۔۔مگر بقول انکے یہ اشرف تھانوی کی کتاب حفظ الایمان میں نہیں بلکہ حسام الحرمین میں ہے۔
تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ:
1.المہند تو بقول تمہارے جواب ہے حسام الحرمین کی, تو اس میں اس پر کچھ کیوں نہ کہا گیا؟
2.تمہارے بڑوں چھوٹوں کو اور خود اشرف تھانوی کو یہ بات حسام الحرمین میں کیوں نظر نہ آٸی؟
3.صرح فیھا کا معنی کیا ہے؟ذرا اسکی ترکیب و صرف تحقیق کریں۔
4.جب اس مضمون سے قبل "صرح فیھا" اور بعد میں "وھذا لفظہ ملعون" کے الفاظ موجود ہیں, تو پھر دیوبندیوں کو شیطان کی گود میں بیٹھ کر ہم پر الزام لگانے کی کیا ضرورت پیش آٸی؟؟؟
اب دیوبندیوں میں ہمت ہے تو جواب دیں۔۔
✍🏻 مبارک علی رضوی
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں