مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
مسلط کردہ مشکلات اور ڈیفنس کی صورتیں
بھارت میں مسلسل قوم مسلم کو ورغلانے کی کوشش کی جا رہی ہے,تاکہ وہ سڑکوں پر اتریں اور دشمنان اسلام کا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کے واسطے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے,ان کو قید وبند میں ڈالا جائے۔گرفتار کر کے ان کو مار پیٹ کیا جائے,ان کے گھروں کو مسمار کیا جائے,فرقہ وارانہ فساد پھیلانے کی کوشش کی جائے۔
سال 2019-2029 میں سی اے اے مخالف مظاہروں میں بھی مسلمانوں نے ملک بھر میں گرم جوشی دکھائی تھی اور مسلمانوں کی تباہی وبربادی اور قتل وغارت گری بھی بہت ہوئی تھی۔یہ دیکھ کر دشمنوں کا کلیجہ خوب ٹھنڈا ہوا تھا,لہذا مسلمانوں کو سڑکوں پر اتارنے کی کوشش مسلسل جاری رہے گی۔
اندازہ یہی ہے کہ اسلام مخالف حرکات کو مزید تیز کیا جائے گا اور مجرمین کی پشت پناہی کی جائے گی۔مسلمانوں کے مظاہروں کے جواب میں مظاہرے بھی ہوں گے,جیسا کہ سی اے اے مخالف مظاہروں کے وقت ہوا تھا۔
بہت سے معاملات عہد ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں اور دفاع کی صورتیں بھی اپنائی جاتی رہی ہیں۔مذہب اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی سازش طویل مدت سے جاری ہے۔مستشرقین کی جماعت اسی واسطے تیار کی گئی تھی کہ مذہب اسلام پر نکتہ چینی کی جائے۔اسلام پر اعتراضات کے لئے مواد تلاش کیا جائے۔دین اسلام میں خامیاں دکھلائی جائیں۔بہت سے مستشرقین تخریب کاری کی بجائے دامن اسلام سے وابستہ ہو گئے۔
آزادی سے قبل سال 1920 سے پنڈت دیانند سرسوتی اور اس کا چیلا پنڈت شردھانند نے مذہب اسلام میں خود ساختہ عیوب دکھا کر مسلمانوں کو ہندو بنانا شروع کیا۔شردھانند نے 1923میں تحریک شدھی قائم کی۔مختلف علاقوں میں بہت سے مسلمانوں کو ہندو بنا دیا تھا۔جماعت رضائے مصطفے(بریلی شریف)نے بروقت کاروائی کی۔علمائے کرام کے قافلے متأثرہ علاقوں میں گشت لگانے لگے۔جا بجا لوگوں کو جمع کر کے اجلاس کئے جاتے۔ہندو بن جانے والے بہت سے لوگ توبہ کرکے داخل اسلام ہوئے۔یہ مشترکہ مجلسیں ہوا کرتی تھیں۔مسلمین,مرتدین اور مشرکین تینوں جماعت کے لوگ ان مجلسوں میں شریک ہوتے اور حقائق سے آشنا ہوتے۔
دیانند سرسوتی نے 1875میں اپنی کتاب"ستیارتھ پرکاش"چھاپی تھی۔اس میں صرف ہندو دھرم کو صحیح مذہب قرار دیا گیا اور اسلام,عیسائیت,اور سکھ دھرم پر اعتراضات کئے گئے تھے۔دیانند سرسوتی نے 10:اپریل 1875 کو آریہ سماج قائم کیا تھا۔1857 میں مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا۔اٹھارہ سال بعد ہی بھارت کے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی اندرونی تحریک شروع کر دی گئی تھی,پھر 1920 سے یہ اعلانیہ طور پر مسلمانوں کو ہندو بنایا جانے لگا۔
تحریک شدھی کو پسپا کرنے کے واسطے علمائے اہل سنت وجماعت نے جو طریق کار اختیار کیا تھا,اسی طریق کار کو اختیار کیا جائے اور موجودہ تحریک منافرت کو شکست وریخت سے دوچار کیا جائے۔تحریک شدھی کی سازشوں کو ناکام بنانے کے واسطے علمائے اہل سنت نے جو کوشش وکاوش اور مشقت وجاں فشانی کی,اس کا تفصیلی ذکر"تاریخ جماعت رضائے مصطفے"میں ہے۔اس کا مطالعہ کیا جائے۔
چند سالوں تک بھارت میں روایتی مظاہرہ اور سڑکوں پر اترنے سے پرہیز کریں۔ماہر وکیلوں,سیاسی لیڈروں اور پولیس افسروں سے حالات حاضرہ پر قابو پانے کی صورتیں دریافت کی جائیں۔بھارت ایک جمہوری ملک ہے۔یہاں دستوری قوانین کی روشنی میں ڈیفنس کیا جا سکتا ہے اور عوامی منافرت کو دور کرنے کے لئے تحریک شدھی کے عہد کا طریق کار اختیار کیا جائے۔جب غیر مسلموں کو اسلام کے حقائق سے آشنا کرنا ہے تو مسلمانوں اور غیر مسلموں کی مشترکہ مجلسیں منعقد کی جائیں۔جن میں غیر مسلم عوام اور اس کے لیڈروں کو خاص طور پر مدعو کیا جائے۔
مشہور مقولہ ہے:(الجنس یمیل الی الجنس)جب ہندو لیڈر اسلام کے حقائق کو قوم ہنود کے سامنے پیش کرے گا تو ہنود کے دلوں میں اس کی بات بہت اثر انداز ہونے کی امید ہو گی۔
ہندی وانگلش زبان میں لکھی ہوئی اسلامی کتابیں دکھا کر غیر مسلم لیڈروں کو مطمئن کیا جائے اور ان کو مواد فراہم کئے جائیں,تاکہ وہ اپنی قوم کو صحیح حقائق سے آشنا کر سکیں۔اسی طرح ہندی وانگلش اور ریاستی زبانوں(بنگلہ,تمل,کنڑ,ملیالم,وغیرہ)میں مختصر لٹریچر شائع کر کے غیر مسلموں تک بلا معاوضہ پہنچایا جائے۔
جوش میں ہوش کھونے سے پرہیز کریں۔دشمن تو یہی چاہتا ہے کہ آپ سڑک پر نکلیں,پھر کچھ الزام عائد کر کے مسلمانوں کو ہلاک کیا جائے۔ان پر مقدمات درج کئے جائیں۔ان کو گرفتار کر کے پولیس اسٹیشنوں میں مارپیٹ کیا جائے۔ان کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کیا جائے۔تحقیقات کے نام پر نوجوانوں کو غائب کر دیا جائے۔آزادی ہند کے بعد سے آج تک کشمیر میں اس قسم کی حرکتیں ہوتی رہی ہیں۔
آپریشن بلیو اسٹار:1984 کے بعد پنجاب میں یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔پنجابی لوگ بھی بڑے مضبوط تھے,ہر محکمہ میں ان کے لوگ تھے,لیکن حکومت کے پاس پولیس فورس,فوج اور سارا نظام ہوتا ہے۔جب اہل حکومت ہی انصاف سے دور بھاگیں تو ڈیفنس کا طریق کار بدلنا ہو گا۔مذہب اسلام نے بے فائدہ اپنی جانیں گنوانے اور اپنے مال واسباب کی تباہی کا حکم نہیں دیا ہے۔ملک کے عظیم مفتیان کرام سے شرعی رہنمائی حاصل کریں۔ایسے مواقع پر دیابنہ,وہابیہ وغیرہ کی تجاویز کو مسترد کیا جائے۔یہ لوگ اپنے وجود کے وقت سے ہی وہ کام کرتے رہے ہیں,جن سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے۔سلطنت عثمانیہ ترکیہ کے سقوط وزوال میں عرب کے وہابیہ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
بھارت میں وہابیہ اور دیابنہ پہلی جنگ آزادی:1857سے ارباب حکومت اور اصحاب قوت کی تابعداری کرتے رہے ہیں اور اندازہ یہی ہے کہ چند سال بعد یہ لوگ"ہندو راشٹر"کے قیام کی بھی تائید ضرور کریں گے,لیکن اس سے پہلے ہی مسلمانوں کی کمر توڑ ڈالنے کی مکمل کوشش ہو گی,تاکہ کوئی مدافعت کرنے والا نہ رہے۔
مسلمانو! آگاہ رہو,سڑکوں پر نہ اترو-پہلے مسلم مظاہرین پر گولیاں نہیں چلتی تھیں۔اب مسلم مظاہرین پر گولیاں چلتی ہیں اور مظاہرین کو دنگائی کہا جاتا ہے۔ان پر سخت مظالم ہوتے ہیں۔حالات زمانہ کے اعتبار سے بعض شرعی احکام میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔اپنی جانوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔
پہلی جنگ آزادی:1857 کے وقت بادشاہ اسلام(سلطان بہادر شاہ ظفر1775-1862)موجود تھے اور فوجی قوتیں آمادۂ پیکار اور مستعد تھیں تو حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی قدس سرہ العزیز نے جہاد کا فتوی صادر فرمایا۔بعد کے زمانوں میں امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز نے بھارتی مسلمانوں کو جہاد کا حکم نہیں دیا,کیوں کہ انڈیا میں کوئی بادشاہ اسلام نہ تھا۔
امام اہل سنت علیہ الرحمۃ والرضوان نے رقم فرمایا:"جہاد سنانی:ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ بہ نصوص قرآن عظیم ہم مسلمانان ہند کو جہاد برپا کرنے کا حکم نہیں اور اس کا واجب بتانے والا مسلمانوں کا بدخواہ مبین۔یہاں کے مسلمانوں کو جہاد کا حکم اور واقعہ کربلا سے لیڈران کا استناد اغوائے مسلمین:بہکانے والے یہاں واقعہ کربلا پیش کرتے ہیں یہ ان کا محض اغواہے ۔اولا اس لڑائی میں ہر گز حضرت امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف سے پہل نہ تھی امام نے خبیث کوفیوں کے وعدہ پر قصد فرمایا تھا جب ان غداروں نے بد عہدی کی قصد رجوع فرمایا اور جب سے شروع جنگ تک اسے بارباراحباب واعداء سب پر اظہار فرمایا"-(فتاوی رضویہ:جلد 14:ص540-جامعہ نظامیہ لاہور)
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:15:جون 2022
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں