علم العقائد والکلام اور علم الخیال والتخمین
علم العقائد جو علم الکلام کے لقب سے مشہور ہے۔وہ ایک افضل واشرف علم ہے جس کے اصول وقوانین کی روشنی میں عقائد کی صحت وفساد کا علم ہوتا ہے۔اس علم شریف کے مستحکم اصول وضوابط ہیں,اسی لئے اس کو علم الاصول بھی کہا جاتا ہے۔
عہد حاضر میں بعض لوگ علم الخیال والتخمین کے اصول وقوانین کی روشنی میں اعتقادی مسائل کو حل فرماتے ہیں۔
یعنی ان کے خیال شریف اور ان کے ظن وتخمین میں جو بات آ گئی,وہ اسلامی عقیدہ ہے۔اپنے خیالات عقلیہ کو دلیل اعتقادیات قرار دیتے ہیں۔
من گڑھت خیالی دلائل اور اٹکل پچو سے غیر آسمانی مذاہب کے عقائد ترتیب دیئے گئے تھے۔بعد میں ان اوہام فاسدہ وخیالات باطلہ کو فلسفہ کا نام دیا گیا,مثلا کہا جاتا ہے۔آتش پرست دھرم کا فلسفہ۔بت پرست دھرم کا فلسفہ۔فطرت پرست دھرم کا فلسفہ۔
اسلامی عقائد اللہ ورسول(عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)کے قطعی اور یقینی ارشادات وفرامین کی روشنی میں حل کئے جاتے ہیں۔خیالاتی وفلسفیاتی دلائل اور اوہام وقیاسات سے اسلامی عقائد حل نہیں کئے جاتے۔
فقہی مسائل میں ظنی دلائل بھی قبول کئے جاتے ہیں,لیکن باب فقہیات میں بھی اوہام وخیالات قبول نہیں کئے جاتے,جب کہ اصول عقائد میں ظنی دلائل بھی مقبول نہیں,پھر خیالات فاسدہ واوہام باطلہ سے اسلامی عقائد کیسے حل ہو سکتے ہیں۔
ظن وتخمین سے اعتقادی مسائل حل کرنے والوں کی روک تھام کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ ان کے بیان کردہ خیالاتی دلائل کے ہر جز سے متعلق سوال کیا جائے کہ یہ بات علم عقائد کے کس اصول کی روشنی میں بیان کی گئی ہے۔علم کلام کا ایسا کوئی قانون وضابطہ ہے یا نہیں؟ان شاء اللہ تعالی اس قسم کے سوالات سے خیالاتی متکلمین مبہوت ہو جائیں گے۔
لغزش وخطا الگ چیز ہے۔ہر بشر غیر معصوم سے لغزش ہو سکتی ہے اور ہوتی بھی ہے,لیکن ظن وتخمین اور اٹکل پچو کو اعتقادی مسائل کی دلیل بنا لینا ایمان وعقیدہ کی تباہی وبربادی کے لئے مہلک جراثیم سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
عقلی دلائل وبراہین الگ ہیں اور خیالات باطلہ اور اوہام فاسدہ الگ ہیں۔علم کلام کے اصول وفروع کی صحیح معرفت حاصل کی جائے,اور کلامی اصول وقوانین کی روشنی میں اسلامی عقائد حل کئے جائیں۔
علم فقہ کے دلائل میں سے ایک دلیل قیاس ہے,لیکن وہ قیاس عقلی نہیں ہے,بلکہ قیاس شرعی ہے۔قیاس عقلی سے فقہی مسائل حل نہیں ہو سکتے تو اعتقادی مسائل کیسے حل ہوں گے۔فلاسفہ نے عقلی قیاس کی روشنی میں اپنا فلسفی مذہب ترتیب دیا تھا,لہذا فلسفیانہ عقائد بے شمار اباطیل کا مجموعہ بن گیا۔جب عباسی بادشاہ مامون رشید کے عہد میں یونانی فلسفہ کا ذخیرہ بغداد آیا تو معتزلہ نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور بحر ضلالت اور سمندر ہلاکت میں غوطہ زن ہو گئے۔انجام کار مذہب معتزلہ دنیا سے ناپید ہو گیا۔
معتزلہ میں سے بہت سے لوگ فقہی مسائل میں حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی پیروی کرتے تھے,ان کو حنفزلی کہا جاتا تھا,حالاں کہ وہ ایک گمراہ فرقہ تھا۔جیسے عہد حاضر میں فرقہ دیوبندیہ باب فقہیات میں حنفی مذہب کا مقلد ہے,لیکن وہ ایک مرتد فرقہ ہے۔فقہی مذہب میں یکسانیت کے سبب چند سنی کہلانے والے تعلیم یافتہ لوگ بھی دیوبندیوں سے ہاتھ ملانے کے واسطے بے چین نظر آتے ہیں,لیکن محافظین اسلام کے خوف سے گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
جس طرح فرقہ معتزلہ نیست ونابود ہو گیا,اسی طرح فرقہ دیوبندیہ بھی قصہ پارینہ بن سکتا ہے,پھر بعد کا مورخ لکھے گا کہ فرقہ دیوبندیہ ایک باطل ومرتد فرقہ تھا اور وہ فرقہ فقہی مسائل میں حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا مقلد تھا۔
ہم نے محض فرض وتقدیر کے طور پر ایک بات کہی ہے۔ہاں,اس فرضی بات سے بھی بعض لوگوں کے سینے پر سانپ لوٹے گا ,کیوں کہ عہد حاضر میں علم الخیال والتخمین کے اصول وضوابط کی روشنی میں فرقہ دیوبندیہ کو بہت کم درجے کا گمراہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے,یعنی فرقہ دیوبندیہ مذہب اہل سنت کے قریب ہی ہیں۔اگر چھلانگ لگا لیں تو توبہ ورجوع کے بغیر ہی دائرۂ اہل سنت میں داخل ہو جائیں گے۔
بعض لوگ تو فرقہ دیوبندیہ کے کفریات اور علمائے عرب وعجم کے فتوی سے واقف وآشنا ہو کر بھی علم الخیال والتخمین کی روشنی میں اشخاص اربعہ کو بھی محض خاطی مانتے ہیں,نہ کافر مانتے ہیں,نہ ہی گمراہ,اور علم الخیال والتخمین ہی کے اصول وقوانین کی روشنی میں خود کو سنی بھی مانتے ہیں,حالاں کہ علم العقائد والکلام کی روشنی میں یہ لوگ ہرگز سنی نہیں,بلکہ دائرۂ اسلام سے بھی خارج ہیں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:27:جولائی 2022
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں