کیا مریض روزے کا فدیہ دے سکتا ہے؟

☪️کیا مریض روزے کا فدیہ دے سکتا ہے؟؟☪️


🖊️کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کو بلڈ شوگر اور بلڈپریشر اور گردہ کا کا مرض ہے اور اس کو تین وقت ناشتہ کے پہلے انسولین اور ناشتہ کے بعد بلڈ پریشر اور گردہ کی دوائی کھاتا ہے پھر دو پہر میں کھانا کھانے کے پہلے شوگر کی دوائی کھاتا ہے اور کھانے کے بعد بلڈ پریشر اور گردہ کی دوائی کھاتا ہے پھر رات میں بعد عشاء وہ انسولین لیتا ہے پھر کھانا کھاکر چربی اور گردہ بھر بلڈ پریشر اور نیند کی پھر خون بننے کی اور پیشاب کی دوائیاں کھاتا ہے تو صورت مرض میں کیا اس پر روزہ فرض ہے اس کے پاس تجربہ ہے کہ دوپہر میں کبھی بلڈ پریشر کی دوائی نہیں کھاتا ہے تو بلڈ پریشر بڑھ بھی جاتا ہے اب وہ کیا کریں روزہ رکھے یا فدیہ دیے اور ساتھ میں تین وقت ناشتہ کے بعد اور دوپہر کھانے کے بعد اور رات میں کیڈنی kedny کی دوائی بھی کھاتا ہے یعنی تینوں وقتوں میں شوگر اور بلڈ پریشر اور کیڈنی کی دوائیاں کھاتا ہے ۔وہ پریشان ہے کیا میرے پاس بھی سوال ہے لیکن جواب دینے میں الجھن میں ہوں حالانکہ قرآن شریف میں مریض کو رخصت ہے لیکن یہ سب دائمی مرض ہے صورت مسئولہ کا صحیح دلائل سے جواب دینے کی جلد کوشش کریں تاکہ وہ مریض آس پر عمل کریں مریض کا کہنا ہے کہ اگر مفتی صاحب جواب نہ دیں گے تو میں قیامت میں ان کے دامن کو تھام لونگا صحیح رہنمائی کی جائے بمعرفت 
سلیم الدین ثنائی

🖋️🖋️الجواب بعون الملک الوھاب
بوجہ مرض اسے روزہ چھوڑنے
کی اجازت ہے۔بعد میں اگرصحت کے ایام نصیب ہوتے ہیں تو قضا کرے ورنہ فدیہ کی وصیت کر جائے۔

روزہ کا فدیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ فانی جس کو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں وہ ہر روزہ کے بدلے فدیہ دے۔ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے تاہم بعد قدرت قضا واجب ہے۔ 📗قرآن مجید میں ہے:
والذين يطيقونه فديةطعام مسكين.
"اور جو لوگ روزہ کی سکت نہیں رکھتے وہ ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دیں ۔"
📚ہدایہ میں ہے:
والشيخ الفاني الذي لا يقدر على الصيام يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا كما يطعم في الكفارات
والاصل فيه قوله تعالى"وعلى الذين يطيقونه فديةطعام مسكين"
قيل معناه لا يطيقونه ولو قدر يبطل حكم الفداء لان شرط الحنفية استمرار العجز.
(هدايه ج١ص٢٠٢ مجلس بركات)
📚فتاوی رضویہ میں ہے:
"بعض جاھلوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ روزہ کا فدیہ ہر شخص کے لئے جائز ہے ،جبکہ روزے میں اسے کچھ تکلیف ہو ۔ایسا ہرگز نہیں ،فدیہ صرف شیخ فانی کے لیے رکھا گیا ہے،جو بسب پیرانہ سالی حقیقتاً روزہ کی قدرت نہ رکھتا ہو نہ آئندہ طاقت کی امید کہ عمر جتنی بڑھے گی ضعف بڑھے گا ،اس کے لیے فدیہ کا حکم ہے۔"
(فتاوی رضویہ ج٤ص٦٠٢ رضا دارالاشاعت )
اسی میں ہے:
"شیخ فانی کی عمراسی 80 یا نوے90 سال لکھی ہے اور حقیقتاً بناء حکم اس کی حالت پر ہے ،اگر سو برس کا بوڑھا روزہ پر قادر ہے شیخ فانی نہیں ۔اور اگر وہ ستر برس میں بوجہ ضعف بنیہ بڑھاپے سے ایسا زار و نزار ہو جائے کہ روزہ کی طاقت نہ رہے تو شیخ فانی ہے ۔
غرض شیخ فانی وہ ہے جسے بڑھاپے نے ایسا ضعیف کردیا ہو ہو ۔اور جب اس ضعف کی علت بڑھاپا ہوگا تو اس کے زوال کی امید نہیں، اسے روزہ کے عوض فدیہ کا حکم ہے۔"
(فتاوی رضویہ ج٤ص٦١٣)
اسی میں ہے :
طاقت نہ ہونا ایک تو واقعی ہوتا ہے اور ایک کم ہمتی سے ہوتا ہے کم ہمتی کا کچھ اعتبار نہیں اکثر اوقات شیطان دل میں ڈالتا ہے کہ ہم سے یہ کام ہرگز نہ ہو سکے گا ،اورکریں تو مر جائیں گے ، بیمار پڑ جائیں گے ، پھر جب خدا پر بھروسہ کر کے کیا جاتا ہے تو اللہ تعالی اداکرا دیتا ہے ۔ کچھ بھی نقصان نہیں پہنچتا ،معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیطان کا دھوکہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بات تو یہ ہوئی دوسری یہ کہ ان میں بعضوں کو گرمیوں میں روزہ کی طاقت واقعی نہیں ہوتی مگر جاڑوں میں رکھ سکتے ہیں، یہ بھی کفارہ نہیں دے سکتےبلکہ گرمیوں میں قضا کر کے جاڑوں میں روزے رکھنا ان پر فرض ہے۔
تیسری بات یہ کہ ان میں بعض لگاتار مہینہ بھر کے روزے نہیں رکھ سکتے مگر ایک دو دن بیچ کر کے رکھ سکتے ہیں تو جتنے رکھ سکتے ہیں اتنے رکھنا فرض ہے ۔ جتنےقضا ہوجائیں جاڑوں میں رکھ لیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ کہ جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا مرض ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے انہیں بھی کفارہ دینے کی اجازت نہیں ، بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں اگر قبل شفا موت آ جائے تو اس وقت کفارہ کی وصیت کر دیں۔
غرض یہ ہے کہ کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکے کے نہ جا ڑے میں نہ
 لگا تارنہ متفرق ،اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اس کے جانے کی امید نہ ہو جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اسے ایسا ضعیف کر دیا کہ گنڈے دار روزے متفرق کرکے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو بڑھاپا تو جانے کی چیز نہیں ایسے شخص کو کفارہ (فدیہ )کا حکم ہے"۔
(فتاوی رضویہ کتاب الصوم ج٤ص٤١٢)
📚 ہدایہ میں ہے:
واذا مات المريض والمسافر وهما على حالهما لم يلزمهما القضاء لانهما لم يدركا "عدةمن ايام اخر"
ولو صح المريض و اقام المسافر ثم ماتا لزمهما القضاء بقدر الصحة و الاقامۃ لوجود الادراك بهذا المقدار. وفائدتہ وجوب الوصية بالاطعام.
(هدايه ج١ص٢٠١و٢٠٢)
"جب مریض حالت مرض میں اور مسافر حالت سفر میں مر جائیں تو ان دونوں پر قضا نہیں نہیں کیونکہ ان دونوں نے قضا کے لئے دوسرے ایام کو نہیں پایا اور اگر مریض صحت یاب ہوگیا اور مسافر نے اقامت کر لی اس کے بعد وہ دونوں مرگئے تو ان دونوں پر صحت اور اقامت کی مقدار میں قضا کرنا واجب ہے کیونکہ انہوں نے اس مقدار میں دوسرے ایام پا لیا۔
 اس کا فائدہ یہ ہے کہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی وصیت کر دیں۔"
واللہ تعالی اعلم بالصواب
🖊️🖊️کتبہ
محمد انور نظامی مصباحی
قاضی ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ
جمعۃالمبارکۃ
یکم رمضان المبارک 1444ھ
24مارچ2023


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے