دعوت فکر و عمل

___دعوتِ فکر و عمل___

قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے
 پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے

ہمیں یہ تسلیم ہے کہ ہم متحدہ قائد اور قائدانہ صلاحیت کے ساتھ اُن علوم و فنون سے بھی محروم ہیں جن سے وَأَنتُمُ ٱلْأَعْلَوْنَ کا تمغہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ہم ان خوبیوں اور صلاحیتوں سے کیوں محروم ہیں، آئیے ہم اسکو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 موجودہ دور میں ہندی مسلمان تعلیمی و معاشی طور پر سب سے نچلے پائدان پر ہیں۔ قوم مسلم کو پورے طور پر مفلوک الحال، مفلوج، ناتواں اور حاشیے پر ڈھکیل کر اسی طرح اچھوت اور بندھوا غلام بنانے کی کوشش ہورہی ہے جیسا کہ کبھی تین ہزار سالوں تک ہریجنوں اور آدیواسیوں کو اچھوت اور بندھوا مزدور بناکر ایک خاص طبقے نے رکھا تھا۔
اسلامی دہشتگردی، لو جہاد، حجاب، حلال، ہلالہ، تین طلاق، قربانی،مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ اور دھرم سنسد وغیرہ، یہ سب کسی طرح مسلمانوں کو مغلوب ، لاچار، بے بس اور عضو معطل بنانے کے ٹول کٹس ہوسکتے ہیں۔ ابھی کولہاپور میں حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے نام پر فساد ہوا، اتراکھنڈ میں 15/ جون تک مسلمانوں کو دیو بھومی خالی کرنے کا الٹی میٹم ملا، نہ جانے کتنے ہمارے طاقتور نامی گرامی افراد کو نیست و نابود کردیا گیا۔ مسلمانوں کے ساتھ بی جے پی حکومتوں کی بے جا اور یک طرفہ کارروائی اور عدالتوں سے بھی مسلمانوں کو صحیح انصاف نہ ملنا یہ روز مرہ کی روایت بن چکی ہے۔ دھیرے دھیرے دوسرے تمام علاقائی اور قومی سطح کی پارٹیوں کا بھی ہندو اکثریت نواز پارٹیوں میں تبدیل ہو جانا بھی الكفر ملة واحدة کی تصویر پیش کرتا ہے۔ چوں کہ ہر پارٹی کو زیادہ سے زیادہ ووٹ چاہیے اور کوئی بھی پارٹی صرف 15/ فیصد ووٹ کے لیے 85/ فیصد غیر مسلم ووٹرز کو ناراض نہیں کرنا چاہتی ہے، یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے۔ اس کی مثال چھتیس گڑھ کا حالیہ واقعہ ہے، کہ ایک قصبہ میں ہند و مسلمان کے درمیان دنگا ہوا - اس میں ایک ہندو اور دو مسلمان مارے گئے - چھتیس گڑھ کی کانگریسی حکومت نے مارے گئے ہندو کے گھر والوں کو دس لاکھ نقد اور ایک سرکاری نوکری دینے کا وعدہ کیا۔جبکہ مسلمانوں کو معاوضہ اور نوکری اس لیے نہیں دے رہی ہے کہ ایسا کرنے سے اکثریتی ہندو ووٹ بی جے پی کی طرف شفت ہو جائیگی۔
 
داستان غم و الم اور بھی ہیں
یہ صرف ہلکی سے جھلک ہے

ان حالات میں ہم مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟
میرا ناقص مشورہ ہے کہ: 
(۱) ہندوستان کی سبھی مسلم تنظیمیں اور سبھی مسالک کے اکابرین ایک متحدہ ملی پلیٹ فارم پر جمع ہوں۔
(۲) پورے ہندوستان سے نامور اور پرو فیشنل پیشہ ور اور قابل لوگوں کی ایک گیارہ رکنی ٹیم بنائی جائے اور انہیں ضروری اخراجات کے لیے ایک خطیر رقم دے کر درج ذیل امور پر تفصیلی رپورٹ طلب کی جائے؛
___(۱) پچھلے دو سو سال میں مسلمانوں کی زوال کا حقیقی تجزیہ 
___(۲) مسلمانوں کو جہالت اور غریبی سے نکالنے کے لیے قابل عمل تجاویز  
___(۳) ہندوستان میں مسلمانوں کا سیاسی کردار کیسا ہونا چاہیے 
___(۴) پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے سلوک پر حقیقی تجزیہ اور بہتر مستقبل کے لیے لائحہ عمل 
___(۵) ہم اپنے اپنے مسلکی تحفظات کے ساتھ ایک متحدہ ملت کی حیثیت سے برادران وطن کے ساتھ کس طرح ہم آہنگی پیدا کر سکتے ہیں؟ 

( نوٹ ) میرے ان ناقص مشوروں میں صد فیصد حذف و اضافہ کی گنجائش ہے، لیکن یہ فکر ارباب عقل و دانش کے درمیان اس وقت تک بحث کا موضوع بنی رہنی چاہیے جب تک کہ کوئی مستقل حل سامنے نہ آجائے۔

یہ پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے