وبائی امراض سے متعلق دو قسم کی احادیث و آثار ہیں:
ایک قسم کی احادیث و آثار اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بیماری یا وائرس کا بذات خود لگنا کوئی چیز نہیں؛ اسی وجہ سے حضور نبی اکرم ﷺ اور بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مجذوم کے ساتھ کھایا اور ان کے ساتھ رہے، ملاحظہ فرمائیں:
قال رسول الله - صلَّى الله عليه وسلَّم -: ((لا عدوى ولا طيرة))
قال رسول الله - صلَّى الله عليه وسلَّم -: ((لا عدوى ولا صَفَر ولا هامَة))، فقال أعرابي: يا رسول الله، فما بال الإبِل تكون في الرَّمل كأنَّها الظِّباء، فيجيء البعير الأجرب فيدخل فيها فيجربها كلَّها؟ قال: ((فمَن أعْدى الأوَّلَ؟)
عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذ بيد مجذوم فأدخله معه في القصعة ثم قال كل بسم الله ثقة بالله وتوكلا عليه (سنن أبي داؤد)
رَوى ابن أبي شيبة في "مصنَّفه" أنَّ "سلْمان - رضي الله عنه - كان يعمل بيديه، ثم يَشتري طعامًا، ثم يبعث إلى المجذومين، فيأكلون معه".
عن أمِّ المؤمنين عائشة - رضي الله عنها -: قالت: ((كان لي مولًى به هذا الدَّاء، فكان يأكل في صِحَافي، ويشرب في أقْداحي، وينام على فراشي)).
عن عبدالله بن جعفر قال: "لقد رأيتُ عمر بن الخطاب يُؤتَى بالإناء فيه الماء، فيعطيه مُعَيْقِيبًا، وكان رجلاً قد أسرع فيه ذاك الداء فيشرب منه، ويناوله عُمَر، فيضع فمَه موضِعَ فمه، حتَّى يشرب منه، فعرفت أنَّما يصنع عمر ذلك؛ فرارًا من أن يدْخلَه شيء من العدوى".
روى ابن أبي شيبة في "مصنفه" أنَّ أبا بكر - رضي الله عنه - قَدِم عليه وفْدٌ من ثقيف، فأُتِي بطعام، فدنا القوم وتنحَّى رجل به هذا الدَّاء - يعني الجُذام - فقال له أبو بكر: ادْنُهْ، فدنا، فقال: كُلْ، فأكل وجعل أبو بكر - رضي الله عنه - يضع يده موضع يده.
رَوى ابن أبي شيبة في "مصنَّفه" عن أبي معْشر عن رجل أنَّه رأى ابن عمر - رضي الله عنهما - يأكل مع مجذوم، فجعل يضع يده موضع يد المجذوم.
وروى عبدالرزاق في "مصنفه" قال معمر: وبلغني أنَّ رجلاً أجذم جاء إلى ابن عمر - رضي الله عنهما - فسأله، فقام ابن عمر، فأعطاه درهمًا، فوضعه في يده، وكان رجلٌ قد قال لابن عمر: أنا أعطيه، فأبَى ابنُ عمر أن يناوله الرجل الدرهم.
دوسری قسم کی احادیث اور بعض آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وبائی امراض والوں سے تعامل نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ان سے دوری بنائے رکھنا چاہیے؛ کیوں کہ ان کا قرب اللہ تعالی کے حکم سے اس تعامل کرنے والے کے لئے بھی بیماری کا سبب بن سکتا ہے، احادیث و بعض آثار ملاحظہ فرمائیں:
قال رسول الله - صلى الله عليه وسلَّم -: ((فِرَّ من المجذوم كما تفرُّ من الأسد)) وفي لفظ: ((إذا رأيت المجذوم ففِرَّ منه كما تفر من الأسد))
2- عن عمرو بن الشَّريد عن أبيه قال: كان في وفْد ثقيف رجل مَجذوم، فأرسل إليه النبي - صلَّى الله عليه وسلَّم -: ((إنا قد بايعناك فارجع))
قال رسول الله - صلَّى الله عليه وسلَّم -: ((إن هذا الطاعون رجْزٌ سُلِّط على من كان قبلكم - أو على بني إسرائيل - فإذا كان بأرض فلا تَخْرجوا منها فرارًا منه، وإذا كان بأرض فلا تدخلوها))
قال رسول الله - صلَّى الله عليه وسلَّم -: ((لا يُورد مُمْرِض على مُصِحٍّ))، وفي لفظ البخاري: " لا توردوا الممْرِض على المصح))
قال رسول الله - صلَّى الله عليه وسلَّم -: ((لا تُدِيموا النَّظر إلى المجْذومين))
قال رسول الله - صلَّى الله عليه وسلَّم -: ((لا تحدُّوا النظر إليه)) "يعني: المجذوم".
قال رسول الله - صلَّى الله عليه وسلَّم -: ((اتَّقوا المجذوم كما يُتَّقى الأسد))
عن ابن أبي مُلَيكة: "أنَّ عمر - رضي الله عنه - مر بامرأة مجذومة - وهي تطوف بالبيت - فقال لها: يا أمَة الله، لا تُؤْذِي الناس، لو جلَسْتِ في بيتك لكان خيرًا لك، فجلسَتْ في بيتها، فمرَّ بها رجل بعدَما مات عُمَر، فقال لها: إنَّ الذي نهاك قد مات فاخْرجي، فقالت: والله، ما كنتُ لأطيعه حيًّا، وأعصيه ميتًا"۔
اعلی حضرت مجدد دین و ملت اور بعض دیگر علماے کرام رضی اللہ عنہم نے پہلی قسم کی احادیث کو قوی الاعتقاد اور دوسری قسم کی احادیث کو ضعیف الاعتقاد والوں کے لئے قرار دیا اور بعض دیگر علماے کرام نے پہلی قسم کی احادیث کو حقیقت پر محمول کیا یعنی اللہ تعالی کے ارادہ کے بغیر کوئی بیماری نہیں ہوسکتی اور دوسری قسم کی احادیث کو احتیاط کے باب سے قرار دیا لیکن اگر امعان نظر سے دیکھا جائے تو دونوں اقوال کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں۔
بہر حال ان احادیث و آثار سے واضح ہوگیا کہ وبائی مرض والے کے ساتھ کھایا پیا جاسکتا ہے اور احتیاط برتتے ہوئے اس عمل سے بچا بھی جاسکتا ہے، دونوں ہی طریقہ سنت ہے۔ اب جو پہلی حدیث کے پیش نظر یہ کہے کہ میں وبائی مرض والے کے ساتھ طواف کروں گا یا کھاؤں گا تو اس پر کسی کا اسے بے علم کہنا یا اسے وبائی مرض والے کے پاس بھیجنے کی بات کرنا خود بے علمی اور جذبات سے پر ہونے کی دلیل ہے اور جانے انجانے میں بہت سخت ترین قول کرنا ہے۔ اسی طرح جو دوسری احادیث و آثار پر عمل کرتے ہوئے احتیاط کی ترغیب دلائے، اس کو برا بھلا کہنا سخت ناپسندیدہ ہے، البتہ احتیاط کے نام پر وہم کو دخل دینا اور محض شک و شبہات کی بنیاد پر مسجد بند کرنا، جماعت نہ کرنا یا پھر مصافحہ کرنے سے گریز کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بالخصوص ہندستانی ماحول کے لحاظ سے تو سخت ناپسندیدہ امر ہے؛ لہذا مسجد، جماعت یا جمعہ بند کرنے سے پہلے ہمیں حکومت ہند کے اہل کار سے احتیاطی تدابیر کے تناظر میں جماعت وغیرہ کے لئے پوری کوشش کرنی چاہیے، اگر کامیاب ہوئے فبہا اور نہیں کامیاب ہوئے تو اللہ مالک، ارشاد باری تعالی ہے: لا يكلف الله نفسا إلا وسعها.
نوٹ: بعض حضرات یک طرفہ احادیث پیش کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہی سب کچھ ہے، یہ درست نہیں خاص کر ایک عالم کے لئے تو بالکل غیر مناسب ہے۔
اللہ تعالی کرونا جیسی وبا سے پوری انسانیت کی حفاظت فرمائے اور مسلمانوں کی عزت و آبرو اور ان کے شعائر اسلام کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کے لئے اسے وبال جان بنائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
أبو عاتکہ أزھار أحمد أمجدی أزھری غفرلہ
خادم مرکز تربیت إفتا و خانقاه امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، إنڈیا۔
٢٨/ رجب المرجب ١٤٤١ھ مطابق ٢٤/ مارچ ٢٠٢٠ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں