قرآن پاک کو تجوید سے پڑھنے کی اہمیت

قرآن پاک کو تجوید سے پڑھنے کی اہمیت :

قرآن کریم اللہ عز وجل کا کلام ہے اس کے حقوق میں ایک اہم ترین اور اولین حق یہ ہے کہ صحت الفاظی اور ضروری قواعد تجوید کی رعایت کرتے ہوئے اس کی تلاوت کی جائے۔

قران میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلًا "۔
(المزمل:۴)

(ہم نے اسے ترتیل کے ساتھ نازل کیا ہے)۔
سے واضح ہے اور ترتیل ہی کہ ساتھ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے؛ چنانچہ دوسری جگہ ارشاد ہے:
"وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا"۔ 
اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔
(المزمل:۴)

ترتیل کی تفسیر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق حروف کو تجوید کے ساتھ پڑھنا اور وقفوں کی معرفت ہے تو ترتیل سے قرآن کریم پڑھا جائے گا تب ہی اس کی تلاوت کا حق ادا ہوگا اور ایسی ہی تلاوت پر حسنات اور انعامات خدا وندی کا وعدہ ہے؛ لیکن اگر تلاوت تجوید کی رعایت کے ساتھ نہیں؛بلکہ اس کے خلاف ہے تو اس سے تلاوت کا حق ادا نہیں ہوسکتا،

حدیث میں ہے

"زَیِّنُوالْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ"۔
(ابو داؤد،استحباب الترتیل فی القرأت،حدیث نمبر:۱۲۵۶)
اپنی آواز سے قرآن کو مزین کرو ۔

"حَسِّنُو الْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ فَاِنَّ الصَّوْتَ الْحَسَنَ یَزِیْدُالْقُرْاٰنَ حُسْنًا"۔
(شعب الایمان، 
اچھی آواز سے قرآن کوپڑھو کیونکہ اچھی آواز قرآن کریم کے حسن کو بڑھا دیتی ہے۔

"اِقْرَؤُالْقُرْاٰٰنَ بِلُحُوْنِ الْعَرَبِ وَاَصْوَاتَھَا"۔
(شعب الایمان،حدیث نمبر:۲۵۴۱)
قرآن کریم کو عربی لحن میں پڑھو۔

محقیقین علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ بغیر تجوید قرآن پڑھنے والامستحق ثواب نہیں ہوتا؛ بلکہ گناہ گار ہوتا ہے، علامہ محقق جزری فرماتے ہیں۔
وَالْاَخْذُ بِالتَّجْوِیْدِ لَازِمٌ 
مَنْ لَّمْ یُجَوِّدِ الْقُرْآنَ اٰٰ ثْمٌ
لِاَنَّہُ بِہِ الْاِلٰہُ اَنْزَلاَ وَھٰکَذَا امِنْہُ اِلَیْنَا وَصَلَا
ترجمہ:تجوید کا حاصل کرنا ضروری ولازم ہے۔
جو شخص تجوید سے قرآن نہ پڑھے گناہگار ہے ۔

اس لیے کہ اللہ تعالی نے تجوید ہی کے ساتھ اس کو نازل فرمایا ہے۔
اور اسی طرح اللہ تعالی سے ہم تک پہنچا ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا قول ہے: رب تال للقرآن والقرآن یلعنہ،
(احیاءعلوم الدین،الباب وھی عشرۃ،:۱/۲۸۴)

(مجلۃ المنار،الحکمۃ فی انزال القرآن:۸/۲۵۸)

یعنی بہت سے لوگ قرآن کی تلاوت اس حالت میں کرتے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا جاتا ہے، یہ حدیث عام ہے جو ذیل کے تین جماعتوں کو شامل ہے:

(۱)وہ جو حروف کو غلط پڑھیں
(۲)وہ جو قرآن پر عمل نہ کریں
(۳)وہ جو قرآن کریم کے معنی اور تفسیر میں رد وبدل کریں

حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت ہے کہ وہ خود کسی شخص کو قرآن شریف پڑھارہے تھے اس نے اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآء،کو مد کے بغیر پڑھا تو آپ نے اس کو ٹوکا اور فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس طرح نہیں پڑھایا ہے، 
تو اس نے دریافت کیا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کس طرح پڑھایا ہے 
تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی اور لِلْفُقَرَآءپر مد کیا

غور کرنے کا مقام ہے کہ حرف یا حرکت کے چھوٹنے یا بدلنے پر نہیں صرف مد کے چھوٹنے پر شاگرد کو ٹوکا جارہا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کے مطابق پڑھ کر سنایا جارہا ہے؛ تاکہ وہ حرف کو کھینچ کر پڑھنے میں بھی خلاف سنت کا مرتکب نہ ہو۔ 
اسلئے قرآن کریم کو اسی طرح پڑھاجائے جس طرح وہ نازل ہوا ہے یعنی حروف کو ان کا حق اسی طرح دیا جائے کہ مخارج وصفات اور دیگر قواعد کے اعتبار سے ان کی ادائیگی درست ہو اور بے موقعہ وبے طریقہ وقف نہ کیا جائے۔

ہم عجمی لوگ اپنے انداز گفتگو اور اپنے تلفظ کے مطابق قرآن کو پڑھتے ہیں جیسا کہ ہماری اردو زبان میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کا تلفظ ان کے رسم الخط سے مختلف ہے مثلا ظاہر کو زاہر، مطلب کو متلب، فضل کو فزل، صورت کو سورت، مثال کو مسال بولتے ہیں اور اس کو غلطی شمار نہیں کیاجاتا اور نہ ہی عیب سمجھا جاتا ہے ؛لیکن قرآن کریم میں "ض،ظ" کو "ز ،ط" کو "ت، ص" کو "ث ،ع" کو "ء، ح" کو "ہ" پڑھنا زبردست غلطی ہے ،جس کو علماء نے لحنِ جلی سے تعبیر کیا ہے اس قسم کی غلطیوں سے معنی بدلتے ہیں ۔

لیکن اگر کوئی شخص حتی الوسع کوشش کے باوجود بھی صحیح تلاوت پر قادر نہ ہوسکے تو معذور ہے، اللہ جل شانہ کی شان کریمی سے امید ہے کہ اس کوشش کا بھی اجر ملے گا اور تلاوت کا بھی؛ جہاں تک ہوسکے اچھی آواز اور بہتر انداز سے تلاوت کرنا بے شک مستحب اور مستحسن ہے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ تجوید کے دائرے سے باہر نہ ہو ،

تجوید کے خلاف قرآن مجید پڑھنے کو لحن کہتے ہیں لحن دو قسم کی ہوتی ہے(۱)لحن جلی(۲)لحن خفی
لحن جلی بڑی غلطی کو کہتے ہیں یعنی صفات لازمہ ومخارج وغیرہ میں غلطی کرنا اور یہ پانچ طرح کی ہیں۔
(۱)حرفوں میں تبدیلی کرنا،جیسے اَلْحَمْدُ کی جگہ اَلْھَمْدُ پڑھنا۔
(۲)حرکتوں کے اندر تبدیلی کرنا جیسے اَنْعَمْتَ کی جگہ اَنْعَمْتُ پڑھنا۔
(۳)متحرک کی جگہ ساکن ،جیسے اَنْشَاَھَا کی جگہ اَنْشَاْھَا پڑھنا یا ساکن کی جگہ متحرک مثلا خَلْقًا کی جگہ خَلَقًا پڑھنا۔
(۴)حرفوں کو گھٹا دیناجیسے لَمْ یُوْلَدْ کو لَمْ یُلَدْ یا حر فوں کو بڑھادیناجیسے لَمْ یَلِدْ کی جگہ لَمْ یَلِیْدْ پڑھنا۔
(۵)مشدد حرفوں کو مخفف جیسے اِیَّاکَ کی جگہ اِیَاک پڑھنا یا مخفف کی جگہ مشدد کرکے پڑھنا جیسے اَظْلَمَ کو اَظَّلَمَ وغیرہ۔
لحن جلی کرکے قرآن شریف پڑھنا حرام ہے بسا اوقات اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اس لیے اس سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔

لحن خفی چھوٹی غلطی کو کہتے ہیں ،یعنی صفات محسنہ(وہ صفات جو اچھی سمجھی جاتی ہیں )میں غلطی کرنا اور یہ کئی جگہ ہیں جن میں سے چند مثالیں یہ ہیں۔
(۱)پر کی جگہ باریک پڑھنا جیسے رَبَّکَ میں را کو باریک پڑھنا یا باریک کی جگہ پر پڑھنا جیسے بِاللّٰہِ میں اللہ کے لام کوپُر(موٹا) پڑھنا
(۲)اظہار کی جگہ غنہ کرنا جیسے عذابٌ الیم کے تنوین میں غنہ کرنا یا اخفا کی جگہ اظہار کرنا جیسے یتیماً فاوی کے تنوین میں اظہار کرنا
(۳)مد فرعی کی جگہ مد نہ کرناجیسےوَالسَّمَآءََکو بغیر مد کے پڑھنا
لحن خفی سے قرآن شریف پڑھنا مکروہ ہے، اس لیے اس سے بھی بچنا ضروری ہے ۔ 

مراتب تجوید
تجوید کے ساتھ قرآن شریف پڑھنے کے تین درجے ہیں
(۱)ترتیل:نہایت آہستہ اور کسی قدر اطمینان سے پڑھنا،جیسے جلسوں میں پڑھا جاتا ہے
(۲)تدویر: نہ بہت تیز نہ بہت آہستہ متوسط طریقے سے پڑھنا ،جیسے عموما ًنمازوں میں پڑھا جاتا ہے
(۳)حدر:تیزی کے ساتھ پڑھنا ؛لیکن تجوید کے خلاف نہ ہو جیسے عام طور پر تراویح میں پڑ ھاجائے 

تجوید کا حکم
تجوید کے مطلقاً تمام قواعد کا پڑھنا فرض کفایہ ہے اور قرآن مجید صحیح پڑھنے کے لیے جس قدر قواعد ضروری ہیں کہ اس کے بغیر نماز درست نہیں ہوسکتی ان کا جاننا فرض عین ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے