"من سب نبیا فاقتلوہ"
مکمل حدیث:
امام طبرانی رحمہ الله عليه نے اپنی سند کے ساتھ *معجم الصغیر للطبرانی* میں یہ حدیث یوں ذکر کی ہے کہ
حدثنا عبيد الله بن محمد العمري القاضي بمدينة طبرية سنة سبع وسبعين ومائتين حدثنا اسماعيل بن أبي أويس ، حدثنا موسی بن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين، عن الحسين بن علي، عن علي
رضي اللہ عنہ قال :
قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم :
من سب الأنبياء قُتل، ومن سب الأصحاب جُلد۔
معجم الصغیر للطبرانی جلد 1 صفحہ نمبر 393
اور اسی طرح اس حدیث کو الفاظِ مختلفہ کے ساتھ امام اجل قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف لطیف *"الشفاء بتعریف حقوق المصطفی"* کے اندر اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ
قال حدثنا الشيخ أبو عبد الله أحمد بن غلبون، عن الشيخ أبي ذر الهروي إجازة، قال : حدثنا أبو الحسن الدارقطني ، وأبو عمر بن حيوة، حدثنا محمد بن نوح،
حدثنا عبد العزيز بن محمد بن الحسن بن زباله، حدثنا عبد الله بن موسی بن جعفر ، عن
علي بن موسى، عن أبيه، عن جده، عن محمد بن علي بن الحسين، عن أبيه، عن الحسين
بن علي، عن أبيه أن رسول الله قال:
*"من سب نبیا فاقتلوه، ومن سب أصحابي فاضربوه"*
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی القسم الرابع، باب الاول، الفصل الثانی صفحہ 171)
اسی طرح اس حدیث کو علامہ عبد الرؤف مناوی نے بھی طبرانی کے حوالے سے فیض القدیر شرح جامع الصغیر میں نقل کیا ہے اور آپ نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے
فیض القدیر جلد 6 صفحہ 190 حدیث نمبر 8735
اور اسی طرح امامِ وہابیہ ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب *"الصارم المسلول علی شاتم الرسول"* میں نقل کیا ہے
امام طبرانی کی سند میں موجود راوی *عبید اللہ بن محمد عمری* پر محدثین نے کلام کیا ہے۔۔
*ابن حجر لسان المیزان* میں اس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
عبیداللہ بن محمد بن عمر بن عبدالعزیز العمری
من شیوخ الطبرانی
رماہ *النسائی* بالکذب
یروی عن طبقہ اسمعیل بن اویس
ومن مناکیرہ عن اسماعیل بن ابی اویس عن مالک عن الزہری عن حمید بن عبد الرحمن عن ابوھریرہ مرفوعا من قامرمضان احتسابا و ایمان غفر لہ ما تقدم من ذنبہ وما تأخر۔۔
تفرد العمری بقولہ. (وما تأخر)
اخرجہ الدار قطنی فی الغرائب عن علی بن محمدالمصری عن عبیداللہ
وقال الدار قطنی لیس بصحیح تفرد بہ العمری و کان ضعیفا
وایضا من مناکیرہ ما تقدم من روایة الطبرانی
*قلت (ابن حجر):*
کلھم ثقات الا العمری
لسان المیزان جلد 5 صفحہ 341
اور *علامہ نور الدین ہیثمی* نے انہیں ضعیف جانا جبکہ *ابن حجر* بھی اسے منکر کہ چکے ہیں۔
اسی طرح اس حدیث کی دوسری سند جسے *قاضی عیاض مالکی رحمت اللہ علیہ* نے شفاء شریف میں ذکر کیا ہے جس میں موجود *ابو ذر الھروی* پر بھی محدثین نے کلام کیا ہے
اور ابن تیمیہ نے اسے نقل کرنے کے بعد لکھا کہ یہ ضعیف ہیں۔
ان کے بارے میں *امام ذہبی سیر اعلام النبلاء* میں لکھتے ہیں کہ
ابو ذر الھروی الحافظ الامام المجودالعلامہ شیخ الحرم ابو ذر عبد بن احمد بن محمد بن عبداللہ المالکی الھروی الخراسانی صاحب التصانیف وراوی الصحیح عن الثلاثة المستملی، والحموی والکشمیھنی۔
اور ان کے بارے میں ابو خاتم الرازی نے کہا کہ
وکان ثقة ضابطا دینا
اور پھر امام ذہبی لکھتے ہیں کہ
قلت (ذہبی) :
وھّاہ الدار قطنی وقوّاہ ابو خاتم الرازی
انکے بارے میں امام ذہبی کا موقف مجھ پر یہی ظاہر ہوا کہ یہ ثقاہت کی طرف مائل ہیں اس لیے کہ انہوں نے احتتام پہ *وھاہ* کو پہلے اور *قواہ* کو بعد میں ذکر کیا ہے اور آثار س احوال میں بھی کوئی ایسی بات ذکر نہیں کی جو انکے ضعف پر دلالت کرے البتہ ان پہ دار قطنی نے جو جرح کی میں اس پہ مطلع نہیں ہو سکا ۔۔
واللہ اعلم
اب اس حدیث کی پہلی سند کا راوی متہم بالکذب ہے اس لیے دوسری سند سے پہلی سند تقویت نہیں پائے گی لہذا یہ حدیث ضعیف ہے
*خلاصہ:*
یہ حدیث سنداً اگرچہ ضعیف ہے مگر اس حدیث کا مفہوم قرآن و حدیث کے دیگر درجنوں دلائل سے ثابت ہے کہ گستاخ کی سزا موت ہے اس کو قتل کیا جائے گا اور اس حدیث کو کئی مصنفین نے بطور شماریات اپنی اپنی کتب میں ذکر کیا ہے لہذا اس حدیث کو باب فضائل میں ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے
تحقیق و تخریج :
قیصرعباس عطاری
2 تبصرے
ما شاء اللہ
جواب دیںحذف کریںآپ کی ویب سائٹ میں اسلامی موضوعات کے حوالے سے بہت زیادہ معلومات موجود ہیں۔
جواب دیںحذف کریںUrdu Islamic Books
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں