🕯مسلمانوں میں صلح کروانے کے فضائل🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 قرآنِ مجید اور اَحادیثِ مبارکہ میں بکثرت مقامات پر مسلمانوں کو آپس میں صلح صفائی رکھنے اور ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا گیا اور اس کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًاؕ-وَ الصُّلْحُ خَیْرٌ‘‘ (النساء:۱۲۸)
ترجمہ: اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ ہوتو ان پر کوئی حرج نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے :’’ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِؕ -قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ‘‘ (انفال:۱)
ترجمہ: اے محبوب! تم سے اموالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ تم فرماؤ، غنیمت کے مالوں کے مالک اللہ اور رسول ہیں تو اللہ سے ڈرتے رہو اور آپس میں صلح صفائی رکھو۔
اور ارشاد فرماتا ہے: ’’لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِؕ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا‘‘ (النساء:۱۱۴)
ترجمہ: اُن کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی مگر ان لوگوں (کے مشوروں ) میں جو صدقے کا یا نیکی کا یا لوگوں میں باہم صلح کرانے کا مشورہ کریں اور جو اللہ کی رضامندی تلاش کرنے کے لئے یہ کام کرتا ہے تو اسے عنقریب ہم بڑا ثواب عطا فرمائیں گے۔
حضرت ِاُمِّ کلثوم بنت عقبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔
*( بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس، ۲ / ۲۱۰، الحدیث: ۲۶۹۲)*
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں روزے، نماز اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہو۔
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیوں نہیں۔
ارشاد فرمایا: ’’آپس میں صلح کروا دینا۔
*( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، ۴ / ۳۶۵، الحدیث: ۴۹۱۹)*
البتہ یاد رہے کہ مسلمانوں میں وہی صلح کروانا جائز ہے جو شریعت کے دائرے میں ہو جبکہ ایسی صلح جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے وہ جائز نہیں ہے۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے مگر وہ صلح (جائز نہیں ) جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔
*(ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی الصلح، ۳ / ۴۲۵، الحدیث: ۳۵۹۴)*
اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو عورت کو تین طلاقیں ہو جانے کے باوجود شوہر اور بیوی سے یہ کہتے ہیں کہ کوئی بات نہیں، تم سے جو غلطی ہوئی اسے اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا اس لئے تم اب آپس میں صلح کر لو، حالانکہ تین طلاقوں کے بعد وہ عورت اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَحکام کے مطابق اپنے شوہر پر حرام ہو چکی ہے اور صرف صلح کر لینے سے یہ حرام حلال نہیں ہو سکتا، تو ان کا یہ صلح کروانا حرام کو حلال کرنے کی کوشش کرنا ہے اور یہ ہر گز جائز نہیں ہے۔ اور ایسی صلح کروانے والے خود بھی گناہگار ہوں گے اور اس صلح کے بعد وہ مرد و عورت شوہر اور بیوی والا جو تعلق قائم کریں گے اس کا گناہ انہیں بھی ہوگا کیونکہ ان کے لئے اب وہ تعلق قائم کرنا حرام ہے اور یہ چونکہ حرام کام میں ان کی مدد کر رہے اور اس کی ترغیب دے رہے ہیں تو اس کے گناہ میں یہ بھی شریک ہیں۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں