حضرت مولانا شاہ عبدالرشید مجددی رحمۃ اللہ علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯حضرت مولانا شاہ عبدالرشید مجددی رحمۃ اللہ علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:* 
*اسم گرامی:* حضرت مولانا عبدالرشید مجددی رحمۃ اللّٰه علیہ۔
*لقب:* جامع شریعت و طریقت۔
*سلسلۂ نسب اس طرح ہے:* حضرت مولانا شاہ عبدالرشید مجددی بن حضرت مولانا شاہ احمد سعید مجددی بن مولانا شاہ ابو سعید مجددی رام پوری بن شاہ صفی القدر بن شاہ عزیز القدر بن شاہ عیسیٰ بن خواجہ سیف الدین بن خواجہ محمد معصوم سرہندی بن امام ربانی حضرت مجدد الفِ ثانی (علیہم الرحمۃ والرضوان)۔
*(تذکرہ کاملان رام پور:219/تذکرہ علمائے اہل سنت:137)*

*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 2/جمادی الاخریٰ1237ھ مطابق ماہ فروری/1822ءکو لکھنؤ میں ہوئی۔ (ایضاً)

*تحصیل ِعلم:* آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک علمی و مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ صغر سنی میں آثار سعادت چہرے سے ہویدا تھے۔ انتہائی ذہین و فطین تھے۔یہی وجہ ہے کہ دس برس کی عمر پوری نہ ہونے پائی تھی کہ حافظ قرآن ہوگئے۔ صرف و نحو مولانا حبیب اللہ ملتانی رحمہ اللّٰه سے، علوم عقلیہ مولانا فیض احمد دہلوی سے، کتب فقہ، تصوف، اور اصول حدیث والد ماجد سے، کتب حدیث مولانا شاہ مخصوص اللہ بن مولانا شاہ رفیع الدین اور مولانا شاہ محمد اسحٰق سے پڑھیں۔
آپ علیہ الرحمہ علوم ظاہریہ و باطنیہ میں وحید العصر تھے۔
*(تذکرہ علمائے اہل سنت:137)*

*بیعت و خلافت:* سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں آپ کے جد امجد امام العرفاء و الفضلاء حضرت شاہ ابوسعید مجددی رحمہ اللّٰه نے27/رمضان المبارک بعد نماز تراویح آپ کو اور اپنے فرزند اوسط شاہ عبدالغنی کو ایک ساتھ بیعت فرمایا۔ پھر جب 1256ھ کو حج کے لئے جانے لگے، تو والد گرامی حضرت شاہ احمد سعید مجددی رحمہ اللّٰه نے بڑی مشکل سے اجازت دی، اور پھر الوداع کےلئے بذاتِ خود شہر کے دروازہ تک رخصت کرنے آئے، اور مجمع عام میں حضرت شاہ غلام دھلوی رحمہ اللّٰه کا عطیہ ٹوپی، قمیص، اور عمامہ پہنا کر خلافت عطا کی۔ 
مکہ مکرمہ میں حضرت عبداللہ سراج مکی رحمہ اللّٰه سے سند حدیث حاصل کی۔ (ایضا:138)

*سیرت و خصائص:* فاضل علوم عقلیہ و نقلیہ، ماہر علوم و حقائقِ باطنیہ، عارف اسرار ربانیہ، وارثِ کامل علوم و معارف مجددیہ حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالرشید مجددی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
جد امجد حضرت شاہ ابو سعید رحمہ اللّٰه آپ سے بہت محبت فرماتے تھے، اور آپ کو اپنے ساتھ سلاتےتھے۔ جس وقت وہ تہجد کی نماز کےلئے اٹھتے تو یہ بھی ساتھ اٹھتے تھے۔ دس سال کی چھوٹی عمر میں کلام اللہ حفظ کر لیا۔ صغر سنی میں ہی حلقۂ ذکر و فکر میں شامل ہوتے، علوم ِظاہری کی تکمیل کے بعد والد گرامی نے مجاہدات و ریاضات میں مشغول کر دیا۔ حج و زیارت سے فارغ ہوکر دہلی آئے اور تو والد بغل گیر ہوکر ملے، اور استقبال کیا۔ 1237ھ میں والد ماجد کے حکم سے نواب سید کلب علی خاں مرحوم کی بیعت کے لیے رام پور گئے، ایک ماہ قیام کر کے دھلی واپس گئے۔1274ھ میں والد ماجد کے ہمراہ ہجرت کی، حضرت شاہ احمد سعید کے انتقال 1277ھ کے بعد مسند ارشاد پر بیٹھ کر ہدایتِ خلق میں مصروف ہوگئے۔ انتقال سے پانچ سال پہلے ہر سال حج کرتے تھے۔ آپ کی بدولت عرب دنیا میں سلسلہ عالیہ کو فروغ حاصل ہوا۔ بہت سے ارادت مند پوری دنیا میں تھے۔ جب عمر شریف پچاس سال ہوئی یعنی سال رحلت تو اس مرتبہ بڑے اہتمام کےساتھ تشریف لےگئے۔ رفقاء اہل قافلہ کو سخت تاکید تھی کہ سوائے ذکر و فکر کے اور کوئی کام نہ کریں۔ اس راہ میں اللہ رسول کےعلاوہ کسی کا ذکر خواہ خوبی ہو یابدی نہ کریں۔ خلاف ورزی کرنے والے پر جرمانہ مقرر کیا گیا۔
*(تذکرہ کاملین رام پور:220)*
 حج کے موقع پر منیٰ میں 12ذی الحجہ کو اپنے بیٹے شاہ محمد معصوم سے فرمایا حج کے بعد ہندوستان جانا، معلوم نہیں دودن بعد کیا ہو، 14ذی الحجہ سے بخار کے ساتھ دردِ سر شروع ہوا جو رفتہ رفتہ شدت پکڑتا گیا، سکرات موت میں باربار مسکراتے تھے۔

*تاریخِ وصال:* 16/ذی الحجہ 1287ھ مطابق 7/مارچ 1871ء کو منگل کے دن عصر اور مغرب کے درمیان انتقال ہوا۔ جنت المعلیٰ مکۃ المکرمہ میں حضرت ام المومنین سیدتنا خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پائیں شریف دفن ہوئے، ہزاروں بندگان خدا کو آپ کی ذات سے فیض پہنچا۔ عرب ممالک میں بکثرت آپ کے مرید اور خلفاء تھے۔

*ماخذ و مراجع:* تذکرہ علمائے اہل سنت۔ تذکرہ کاملان رام پور۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے