کرسمس اور ملت اسلامیہ کا اعتقادی و تہذیبی بیانیہ

🎇 کرسمس اور ملت اسلامیہ کا اعتقادی و تہذیبی بیانیہ

✒️ علامہ نثار احمد صاحب مصباحی

کرسمس کی مبارک باد کے بارے میں ایک صاحب نے پوسٹ کی کہ "مسیحی برادری کو حضرت عیسی کی پیدائش کی مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں, جب کہ ان کی ولادت اقدس کے چرچے قرآن کریم میں ہیں."
اس سے قطع نظر کہ موجودہ کرسچن قوم کے یہاں کرسمس کی معنویت کیا ہے؟ اور وہ کیا سمجھ کر 25 دسمبر کو کرسمس مناتے ہیں؟
اور فقہا و مجتہدینِ امت کے نزدیک انھیں اس موقعے پر مبارک باد دینے کا اجمالی اور تفصیلی حکم کیا ہے؟ 
نیز 25 دسمبر کا یومِ ولادتِ مسیح ہونا علماے اسلام کے نزدیک ثابت بھی ہے یا نہیں؟
ہم نے ان تمام پہلوؤں سے وقتی طور پر صَرفِ نظر کرتے ہوئے ان کی پوسٹ پر درج ذیل تبصرہ کیا:
 
عیسائیوں نے دینِ عیسوی بگاڑ دیا. نہ ان کے پاس دین عیسوی ہے اور نہ ہی تعلیماتِ مسیحی.
اس کے بر عکس ان کے اصل دین کے محافظ صرف اہلِ اسلام ہیں.
پھر ان کی ولادت اقدس کی مبارک باد اہل اسلام کو چھوڑ کر موجودہ مسیحیوں کو دینا کہاں کی دانش مندی ہے ؟

سرکار علیہ الصلاۃ والسلام جب مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورا کے دن خوشیاں مناتے دیکھا. وجہ ان سے دریافت فرمائی تو ان لوگوں نے بتایا کہ آج کے دن فرعون اور فرعونیوں کو غرق فرما کر اللہ تعالی نے حضرت موسی اور آپ کے ماننے والوں کو فرعونی مظالم سے محفوظ فرما دیا. اس لیے ہم اس دن خوشی مناتے ہیں.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے انھیں ان کی "عید" کی نہ ہی مبارک باد دی اور نہ ہی کوئی حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ (ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے) ان کے باطل مذہب کی شناعت ظاہر کی اور فرمایا:
*نحن احق بموسی منکم*
ہم موسی علیہ السلام کے تم سے زیادہ حق دار ہیں.
پھر آقا علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا.
اتنا ہی نہیں بلکہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہودی ایک دن روزہ رکھتے ہیں ہم ان کی مخالفت کرتے ہوئے دو دن روزہ رکھیں گے.
یہود و نصاری کے ایسے تہواروں پر ہمارا رویہ کیسا ہو, اس سلسلے میں یہ نبوی طریقہ سارے اہل اسلام کے لیے روشن رہنما اصول ہے.
اس طریقے کو چھوڑنا اور کرسمس پر عیسائیوں کو مبارک باد دینا مذاہبِ اربعہ کی مخالفت کے ساتھ روحِ اسلام کے بھی خلاف ہے.
واللہ الهادی, وهو تعالی أعلم.

نثار احمد مصباحی
۲۵ دسمبر ۲۰۱۶ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے