اسماعیل دہلوی کی تکفیر فقہی ‏/ ‏از ‏قلم ‏طارق انور ‏مصباحي ‏

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

اسماعیل دہلوی کی تکفیر فقہی

دیلوی کی تکفیر فقہی سے متعلق مفصل بحث ”البرکات النبویہ“رسالہ دہم میں ہے۔اس رسالہ کے پڑھنے کے بعد بھی کوئی اشکال ہوتو جواب دیا جائے گا،اور بغیر پڑھے جواب طلب نہ کریں۔ممکن ہے کہ آپ کے سوالوں کے جواب اس میں درج ہوں۔

جو حضرات کسی شک میں مبتلا ہیں تو ان کا علاج اس رسالے میں مرقوم نہیں۔ان کو نیک مشورہ دیا جاتا ہے کہ تمام شکوک وشبہات کو ایک جانب کردیں اورہرشب یاہرروز کسی وقت باوضوہوکرتنہائی میں انتہائی ادب وتوقیر کے ساتھ اور مکمل توجہ اور یک سوئی کے ساتھ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں درودوسلام پیش کریں،اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے حق کوواضح فرمادے۔

اسی رب نے اس ہادی اعظم ًﷺکو رہبرورہنما بناکربھیجا تھا، جن پر درود وسلام کا ہم نے مشورہ دیا ہے۔امید ہے کہ خود وہ ہادی عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم دستگیری فرمائیں۔

اگر کوئی اہل اللہ مل جائیں تو ان سے اپنی ہدایت کے لیے دعا کرائیں۔

تمام نعمتوں کی طر ح ہدایت بھی ایک نعمت ہے۔کوئی نعمت کسی کو مل جاتی ہے تو اس کے لیے آسان چیز ہوجاتی ہے اور کسی کونہیں ملتی ہے تو اس کے لیے ایک خواب بن جاتی ہے۔

اسی دنیا میں کوئی دانے دانے کوترستا ہے اورکسی کے پاس اتنی دولت ہے کہ خود اسے معلوم نہیں کہ اس کے پاس کتنی دولت ہے۔اس کے نوکرچاکراسے حساب بتاتے ہیں۔

رمضان المبارک 1240میں اسماعیل دہلوی پر تحقیق الفتویٰ میں کفر کا فتویٰ عائد ہوا تھا۔رمضان 1442آنے کوہے،یعنی کل دوسو دوسال مکمل ہونے والے ہیں،لیکن بدمذہبوں میں سے بہت کم لوگ حق کی جانب واپس آسکے۔ اب حکمت عملی بدلی جائے۔

بتایا جاتا ہے کہ امام رازی کی وفات کے وقت شیطان پہنچا اور وہ سوال پرسوال کرتارہا۔دراصل سوال وجواب سے توفیق ملنا مشکل ہے۔

ہاں،مسئلہ کی وضاحت ہوسکتی ہے، لیکن مسئلہ کی وضاحت الگ ہے اور توفیق وایمان الگ ہے۔

 مستشرقین بھی مذہب اسلام سے متعلق طویل ترین تحقیقات کرتے ہیں۔قرآن مقدس کی تفاسیر اور احادیث طیبہ کی شرحیں رقم کرتے ہیں،لیکن وہ لوگ سب کچھ جان بوجھ کر اورتمام حقائق سے آشنا ہو کر بھی ایمان سے کوسوں دوررہتے ہیں۔ارباب شک واصحاب ریب سے عرض ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کریں اور اسباب اختیار کریں اور سوال وجواب سے منہ موڑ لیں۔

کافر فقہی کوگمراہ کہنا کیسے صحیح؟ 

 کافرفقہی کو متکلمین گمراہ کہتے ہیں۔یہ محض لفظی واصطلاحی فرق ہے۔ حکم شرعی میں کچھ فرق نہیں۔

 کافر فقہی کے لیے فقہا جو احکام ثابت کرتے ہیں،متکلمین ان احکام کوثابت رکھتے ہیں۔ اسی طرح فقہا کی طرف نسبت کرتے ہوئے متکلمین صریح لفظوں میں کہتے ہیں کہ یہ فقہا کے یہاں کافر ہے،یا یہ کافرفقہی ہے۔متکلمین محض اپنی اصطلاح کے اعتبارسے کافرفقہی کوکافر قرار نہیں دیتے۔

اگر جہات محتملہ میں سے کسی جہت میں احتمال بلادلیل ہوتو فقہا حکم کفر جاری کردیتے ہیں،کیوں کہ فقہا احتمال بلادلیل کوقبول نہیں کرتے ہیں،اور متکلمین احتمال بلادلیل کو قبول کرتے ہیں،اس لیے وہ ملزم کو گمراہ کہتے ہیں،کافر نہیں کہتے۔متکلمین اس کے کافر فقہی ہونے کا انکارنہیں کرتے،بلکہ اپنی اصطلاح کے اعتبارسے اسے گمراہ کہتے ہیں۔یہاں محض اصطلاح اورتعبیرکا فرق ہے،ورنہ جوحکم کافرفقہی کاہے،ان تمام کو متکلمین ثابت رکھتے ہیں، اور فقہا بھی کافر فقہی کے لیے وہ احکام ثابت نہیں کرتے جو کافر کلامی کے احکام ہیں۔

فقہا کے یہاں یہ امر مسلم ہے کہ کافر فقہی گرچہ فقہی قوانین کی روشنی میں کافر ہے، لیکن چوں کہ یہاں احتمال بلادلیل ہے، اس لیے وہ متکلمین کے یہاں کافر نہیں،اسی لیے فقہاکافر متفق علیہ یعنی کافر کلامی کے احکام کافر فقہی کے لیے ثابت نہیں کرتے۔فقہا بھی فرق کا لحاظ کرتے ہیں۔کافر فقہی اور کافر کلامی کے بعض احکام مندرجہ ذیل ہیں۔

(1) فقہا ومتکلمین کافرکلامی کے تمام اعمال کو باطل قرار دیتے ہیں،جب کہ کافر فقہی کے اعمال کو نہ متکلمین باطل قرار دیتے ہیں،نہ فقہا،کیوں کہ فقہا کو بھی معلوم ہے کہ اس کا خفیف تعلق اسلام سے باقی ہے۔
 
(2) فقہا ومتکلمین کافرکلامی کے نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں۔اس کی بیوی بائنہ قرار پاتی ہے،جب کہ کافر فقہی کے نکاح کو نہ متکلمین باطل قرار دیتے ہیں،نہ فقہا،کیوں کہ فقہا کو بھی معلوم ہے کہ اس کا خفیف تعلق اسلام سے باقی ہے۔

کافر فقہی کے لیے فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں صرف تجدید نکاح کا حکم ہے،کیوں کہ کفر فقہی کے سبب نکاح میں نقص آجاتا ہے،لیکن نکاح بالکل باطل نہیں ہوتا ہے،کیوں کہ ابھی اسلام سے ایک خفیف تعلق باقی ہے۔ 

کافر فقہی وکافر کلامی کے احکام کے فرق سے یہ واضح ہوگیا کہ فقہا کافر فقہی کو کافر کلامی کے برابر ومساوی قرار نہیں دیتے،بلکہ کافر کلامی سے ایک درجہ کم سمجھتے ہیں۔اسی درجہ والے کومتکلمین گمراہ کہتے ہیں۔ کافر کلامی اس کے بعدوالے درجہ میں ہے۔کفر کلامی،خروج عن الاسلام کا آخری درجہ ہے، جس میں اسلام سے کسی طرح کا کوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔ 

مذکورہ تفصیل سے واضح ہوگیا کہ کافر فقہی سے متعلق متکلمین وفقہا کا اختلاف محض لفظی واصلاحی ہے،یعنی تعبیری اختلاف ہے،ورنہ کافر فقہی کے احکام فقہا ومتکلمین دونوں کو تسلیم ہیں۔متکلمین کافرفقہی کے وہ تمام احکام تسلیم کرتے ہیں جوفقہا بیان کر تے ہیں۔ 

اسماعیل دہلوی کا کفر فقہی
 
اسماعیل دہلوی پر علامہ فضل حق خیرآبادی قدس سرہ العزیز نے کفر فقہی کا فتویٰ دیا تھا۔ امام احمدرضا قادری اس کے کفرفقہی کوتسلیم کرتے ہیں، اور بحکم فقہا اسے کافر مانتے ہیں۔ 
مذہب متکلمین کے اعتبار سے وہ کافر نہیں،اسی لیے امام احمدرضا،اسماعیل دہلوی کو کافر کلامی نہیں کہتے۔ علامہ خیرآبادی نے بھی کفر کلامی کا فتویٰ نہیں دیا تھا۔اس کی تفصیلی بحث ”البرکات النبویۃ فی الاحکام الشرعیہ“رسالہ دہم میں ہے۔

اب ایسی صورت میں علامہ فضل حق خیرآبادی اور امام احمدرضاقادری کے مابین کسی قسم کا اختلاف ہی نہیں۔ یہاں دونوں عالموں کے مابین اختلاف بتانا صحیح نہیں۔

متکلمین ایسے کافر فقہی کوگمراہ کہتے ہیں،پس یہاں فقہا ومتکلمین کا محض لفظی اختلاف ہوتا ہے،حقیقی اختلاف نہیں۔متکلمین صرف کافر کلامی کو کافر کہتے ہیں اور فقہا کافر فقہی اور کافر کلامی دونوں کوکافر کہتے ہیں،لیکن دونوں کا حکم الگ بیان کرتے ہیں اور اس جدا گانہ حکم پر فقہا ومتکلمین کا اتفاق ہے۔

 کافر فقہی کے ایمان اور نکاح میں نقص آجائے گا اور اسے تجدید ایمان وتجدید نکاح کرنا ہوگا۔اس حکم فقہا ومتکلمین دونوں تسلیم کرتے ہیں۔

 کافر کلامی اسلام سے بالکل خارج ہوجائے گا۔ اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔عورت چاہے تو دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے۔ اس حکم کو فقہا ومتکلمین دونوں تسلیم کرتے ہیں۔

صرف کافر فقہی کو کافر کہنے میں اختلاف ہے۔ فقہا اسے کافر فقہی کہتے ہیں اور متکلمین اسے گمراہ کہتے ہیں،نیز متکلمین کافر فقہی کو کافر فقہی قرار دیتے ہیں اور اسے بحکم فقہا کافر کہتے دیتے ہیں۔

متکلمین محض اپنی اصطلا ح کے اعتبارسے اسے کافر نہیں کہتے،نہ ہی وہ متکلمین کی اصطلاح کے مطابق کافر ہے۔ نہ ہی فقہا اس کوکافر کلامی قراردیتے ہیں،بلکہ کافر کلامی سے ایک درجہ نیچے کا کافر سمجھتے ہیں۔

اس فرق کو فقہا بھی تسلیم کرتے ہیں،اسی لیے خود فقہا کافرفقہی کے لیے الگ حکم بیان کرتے ہیں اور کافر کلامی کے لیے الگ حکم بیان کرتے ہیں۔

متکلمین کافر فقہی کو کافرفقہی کہتے ہیں۔امام احمد رضا قادری نے الکوکبۃ الشہابیہ اور سل السیوف الہندیہ میں اسماعیل دہلوی کوکافر فقہی قرار دیا،اوربحکم فقہا کافر قرار دیاہے۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان مسئلہ تکفیر میں مذہب متکلمین پرتھے،اس لیے آپ نے مذہب متکلمین کے اعتبار سے اسماعیل دہلوی کوگمراہ کہا۔

اسماعیل دہلوی کے بارے میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے فرمایا کہ جو دہلوی کی گمرہی میں شک کرے، وہ اسی کی طرح گمراہ ہے۔

”اگر اس کی ضلالت وگمرہی پر آگاہی ہوکر اسے اہل حق جانتا ہوتو خود اسی کی مثل گمراہ وبددین ہے“۔(فتاویٰ رضویہ جلدسوم:ص189-رضا اکیڈمی ممبئ)

علامہ فضل حق خیرآبادی نے اسماعیل دہلوی کے بارے میں فرمایا:
من شک فی کفرہ فقد کفر۔(وہرکہ درکفر او شک آرد،یا تردد دارد،یاایں استخفاف را سہل انگارد،کافر وبے دین ونا مسلمان ولعین است۔تحقیق الفتویٰ)
اس کا بھی یہی مفہوم ہے کہ جو اسماعیل دہلوی کو کافر فقہی نہ مانے،وہ اسی کی طرح کافر فقہی ہے۔اسی مفہوم کو متکلمین اس طرح بیان کریں گے کہ جو دہلوی کو گمراہ نہ مانے،وہ اسی کی طرح گمراہ ہے۔

یہ لفظی اختلاف ہے اورمحض تعبیر کا فرق ہے۔اس مقام پر کفر فقہی اورضلالت دونوں ایک ہی امر ہے۔ محض تعبیر میں فرق ہے۔ البرکات:رسالہ دہم میں تفصیل مرقوم ہے۔

جب کفر کلامی کے وقت کہا جائے:”من شک فی کفرہ فقد کفر“۔تب اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ جو اس کے کفر کلامی میں شک کرے،وہ اسی کی طرح کافر کلامی ہے۔

کفر کلامی میں ”من شک:الخ“کا استعمال عام طورپر ہوتا ہے۔ کفرفقہی قطعی یعنی جب کسی ضروری دینی کا قطعی بالمعنی الاعم انکار ہو،تب اس کا استعمال کبھی کبھی ہوتا ہے،جیسا کہ علامہ خیرآبادی نے اسی قسم کے کفر فقہی قطعی میں ”من شک: الخ“کا استعمال فرمایا۔ کفر فقہی ظنی میں اس کا استعمال وارد نہیں۔کفر فقہی قطعی اور کفر فقہی ظنی اور دیگر اقسام کفر کی تفصیل ”البرکات النبویہ“:رسالہ دوازدہم:باب نہم،فصل دوم میں تفصیل کے ساتھ مرقوم ہے۔

ضلالت وگمرہی میں ایسی اصطلاح رائج نہیں کہ:من شک فی ضلالتہ فقد ضل“۔لیکن حکم یہی ہے کہ جو گمراہ کی گمرہی میں شک کرے،وہ بھی گمراہ ہے، جیسا کہ یہی حکم امام احمدرضا قادری نے اسماعیل دہلوی سے متعلق بیان فرمایا۔

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ:09:جنوری 2021

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے