بہتر ہے کہ ساری رات سویا رہوں
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
حضرتِ سیِّدُنا مُطَرِّف رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
میں رات بھر عبادت کروں اور صُبح خود پسندی میں پڑوں یعنی یہ سمجھوں کہ میں تو بڑا نیک آدَمی ہوں اِس سے بہتر یِہی ہے کہ رات سویا رہوں اور صُبح رات کی عبادت سے محرومی پر افسوس کروں۔
*(اِحیاء عُلوم الدین،کتاب ذم الکبر والعجب،بیان ذم العجب وآفاتہ ، ۳ / ۴۵۲)*
*نیک کاموں کی توفیق ملنا نعمت ہے:*
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الوالی فرماتے ہیں:
نیک کاموں کی توفیق اللہ تَعَالٰی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اور اُس کے عطِیّات میں سے ایک عَطِیَّہ (عَطِیْ۔ یَہ۔ یعنی بخشش) ہے لیکن خود پسندی ہی کی وجہ سے نادان انسان اپنی ذات کی تعریف کرتا اور پاکیزگی ظاہِر کرتاہے اور جب و ہ اپنی رائے ، عمل او ر عَقْل پر اِتراتا ہے تو فائدہ حاصِل کرنے ، مشورہ لینے اور پوچھنے سے باز رہتا اور یوں اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر اعتِماد کرتا ہے۔ (کہ میں بھی تو سمجھ بوجھ رکھتا ہوں ، کیا ضَرورت ہے کہ دوسروں سے مشورہ لوں!)
(احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب،بیان آفۃ العجب ، ۳ / ۴۵۳)
آگے چل کر مزید فرماتے ہیں : عابِد کو اپنی عبادت پر ، عالم کو اپنے علم پر، خوبصورت کو اپنی خوبصورتی اورحُسن وجمال پر اور مالدار کو اپنی مالداری پر اِترانے کاکوئی حق نہیں پہنچتا کیونکہ سب کچھ اللہ تَعَالٰی کے فضل و کرم سے ہے۔ (ایضًا ، ص۴۵۵)
یعنی ذِہانت ، علاج کرنے کی صلاحیّت ، خوش الحانی و خوش بیانی وغیرہ کی نعمت وغیرہ جس کو جو کچھ مِلا اُس میں بندے کا اپنا کوئی کمال ہی نہیں جو دیا جتنا دیا سب اللہ تَعَالٰی نے ہی دیا ہے۔
*خود پسندی کا علاج:*
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الوالی فرماتے ہیں:
صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ( مُتَّقی و پرہیز گار اورصِدق واخلاص کے پیکر ہونے کے باوُجُود خدا کے ڈر کے سبب) تمنّا کیا کرتے تھے کہ کاش! وہ مٹّی ، تنکے اور پرندے ہوتے۔ (تا کہ بُرے خاتمے اور عذابِ قبر وآخِرت سے بے خوف ہوتے)تو جب صَحابہ کی یہ کیفیت تھی توکوئی صاحِبِ بَصیرت ( سمجھدار شخص) کس طرح اپنے عمل پر اِترا سکتا یا ناز کر سکتا ہے اور کس طرح اپنے نَفْس کے مُعامَلے میں بے خوف رہ سکتا ہے! تو یہ (یعنی صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا خوف اور ان کی عاجِزی ذِہن میں رکھنا) خود پسندی کا علاج ہے اور اِس سے اِس کا مادّہ بِالکل جڑ سے اُکھڑ جاتا ہے اور جب یہ( یعنی صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے ڈر نے کا انداز) دل پر غالِب آتا ہے تو سلبِ نعمت (یعنی نعمت چِھن جانے) کا خوف اِسے اِترانے( اور خود کو’’ کچھ‘‘ سمجھنے) سے بچاتا ہے بلکہ جب وہ کافِروں اور فاسِقوں کو دیکھتا ہے کہ کسی غَلَطی کے بِغیر ہی جب ان ( یعنی کافِروں) کو ایمان سے محروم رَہنا پڑا اور اُن (یعنی فاسِقوں) کو اطاعت وفرماں برداری سے ہاتھ دھونا پڑا تو وہ( یعنی صَحابۂ کرام کا خوف یاد رکھنے والا شخص)اپنے حق میںڈرتے ہوئے یہ بات سمجھ لیتا ہے کہ ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّ کی ذات بے نیاز ہے وہ چاہے تو کسی کو کسی جُرم کے بِغیر ہی محروم کر دے اور جسے چاہے کسی وسیلے کے بِغیر ہی عطا کر دے۔ خدائے بے نیاز عَزَّوَجَلَّ اپنی دی ہوئی نعمت بھی واپَس لے سکتا ہے۔ کتنے ہی مومِن (مَعَاذَ اللہ) مُرتَد ہو گئے جبکہ بے شمار پرہیز گار واطاعت گزار فاسِق ہو گئے اور ان کا خاتِمہ اچّھا نہ ہوا۔ اس طرح کی سوچ سے خود پسندی ختم ہو جاتی ہے۔
(احیاء علوم الدین،کتاب ذم الکبر والعجب،بیان علاج العجب ، ۳ / ۴۵۸)
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*طالب دعا⬅️ محمد نوید قادری*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں