تذکرۂ سلطان العارفین شیخ سید اَحمدکبیر رفاعی-علیہ الرحمہ-

تذکرۂ سلطان العارفین شیخ سید اَحمدکبیر رفاعی-علیہ الرحمہ-

 حضرت سلطان العارفین، برہان الواصلین، الغوث المعظم والقطب المکرم شیخنا ومولانا السید احمد الکبیر الحسینی الموسوی الرفاعی-قدس سرہ كا سالانہ عرس شریف 22 جمادي الاول سلسلہ عالیہ رفاعیہ أم عبيدة (بصرة) منعقد ہوتا ہے، اس لیے حقیقت بین ناظرین کے اِستفادے کے لیے سلطان العارفین، برہان الواصلین، الغوث المعظم والقطب المکرم شیخنا ومولانا السید احمد الکبیر الحسینی الموسوی الرفاعی-قدس سرہ العزیزو اَعاد اللہ علینا من برکاتہ-کا ذکرجمیل بطورِ برکت اختصار کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
مشائخ دہر اور اَولیاے عصرپر آپ کی عظمت وفضیلت درجۂ ثبوت اور پایۂ تحقیق تک پہنچی ہوئی ہے۔ چنانچہ صاحب’’تریاق المحبین نے لکھا ہے کہ شیخ محمد خطیب الحدادی کے روبرو جب حضرت سید احمد کبیر رفاعی اور دوسرے اولیاء اللہ کا ذکر آتا تو آپ حضرت شیخ رفاعی کے فضائل ومناقب میں یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎
لا تقس بارق النجوم بشمس
بینہا و النجوم فرق عظیم
فاحذر أن یقال عینک عمیا
و إلا فمکابر أو لئیم
یعنی ستاروں کی چمک دمک کا سورج سے کیا موازنہ !۔سورج اور ستاروں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، لہٰذا اس سے بچو کہ تمہاری آنکھوں کو اَندھی کہا جائے۔ یاپھر یہ کہ تمہیں متکبر یاکمینہ کہہ کے پکارا جائے۔ مصنف موصوف لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی -قدس سرہ العزیز- کی مجلس میں شیخ رفاعی کا ذکر آیاتوآپ نے فرمایا :
السید احمد الرفاعي حجۃ اللّٰہ علی أولیاۂ الیوم و صاحب ہٰذہ المأدبۃ۔ یعنی شیخ احمد کبیر رفاعی اولیاے کرام پر اللہ تعالیٰ کی حجت، اور آج بھی خوانِ ولایت کے میزبان ہیں۔ پھرمندرجہ ذیل شعر فی البدیہ حضرت شیخ رفاعی کی شان میں اِرشاد فرمایا ؎
ہٰذا الذي سبق القوم الأولی و إذا
رأیتہ قلت ہٰذا آخر الناس
یعنی یہ وہ شخصیت ہیں کہ پہلے دور کے لوگوں کی یادگار معلوم ہوتے ہیں، جب تم انھیں دیکھوگے تو یہ کہنے پر مجبور ہو جاؤگے کہ بس بزرگی انھیں پر ختم ہے، ( اب زمانہ شاید ان کی مثال پیش کرسکے)۔
مصنف مذکورہی نے ’شفاء الاسقام کے حوالے سے لکھا ہے کہ بعض عارفین جمالِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوئے۔ اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سید احمد کبیر الرفاعی کے مراتب وصفات بیان کرتے ہوئے فرمارہے ہیں : سید احمد الرفاعی علم وفضل کا بادشاہ ہے، اس کی ہدایت و رہبری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مخلوق توجہ اور وصول اِلی اللہ سے بہرہ یاب ہو گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ فنا اور فناء الفناباللہ ہے، اور اس کا حال مقال سے بڑھ کر ہے، (یعنی وہ گفتار سے کہیں زیادہ کرداروعمل کا غازی ہے)۔
اس پر قیاس کرتے ہوئے اَندازہ لگائیں کہ اُن کے فضائل و مراتب کتنے بیحدو بے شمار اور روزِ روشن کی مانندآشکار ہیں۔ مگر اس مختصر سے رسالے میں ان سب کو بیان کرنے کی کہاں گنجائش ہے!۔
مفاخرہ تأبی عن الحصر انہا
متی مر منہا مفخر جاء مفخر
سلوا الشمس عنہا أنہا ہي دونہا
و آیاتہ الزہراء من الشمس أظہر
یعنی اس مجموعہ خوباں ہستی کے فضائل ومناقب حدوشمار سے باہر ہیں۔ کیوں کہ ابھی ایک خوبی کا بیان مکمل نہیں ہوپا تھا کہ دوسری سامنے آ جاتی ہے۔ اس کے محامدومفاخر سورج سے پوچھوکیوں کہ وہ خود اپنے آپ کو اس سے کمتر سمجھتا ہے۔اور اس کی درخشندہ عظمت وکرامت اظہر من الشمس ہے۔
نام ونسب
آپ کانام نامی اسم گرامی سید اَحمد محی الدین ہے، اور علو مرتبت کے باعث ’کبیر بھی آپ کے نام کا جز بن گیا۔ کنیت اَبو العباس اور لقب رفاعی ہے۔ اس لقب کا سبب اکثر کتابوں میں یہ تحریر ہے کہ آپ کے جد امجد سید حسن اصغر رفاعۃ الہاشمی المکی ’رفاعہ کے لقب سے مشہور تھے توبس اسی مناسبت سے آپ کا لقب بھی رفاعی پڑ گیا۔ جب کہ صاحب’تحفۃ الاولیائ وغیرہ نے یہ لکھا ہے کہ آپ کو یہ لقب بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے عنایت ہواہے۔ اس کا خلاصہ مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے۔اورعوام میں جو یہ مشہور ہے کہ آپ کے جد مادری حضرت سیدنا رفیع الدین کی نسبت سے آپ کا لقب رفاعی ہواتویہ غیرمعتبر ہے۔
آپ کے والد ماجد کا نسب یوں ہے: سید نور الدین ابو الحسن علی المکی بن سید یحییٰ بن سید ثابت بن سید حازم بن سید احمد بن سید علی بن سید ابوالمکارم الحسن المعروف بہ رفاعہ المکی بن سید مہدی بن سید محمد ابی القاسم بن سید حسن بن سید حسین بن سید موسیٰ الثانی بن الامام سید ابراہیم المرتضیٰ بن الامام موسیٰ الکاظم، اس کے آگے امام حسین رضی اللہ عنہ تک نسب مبارک مشہور ومعروف ہے۔ 
خرقہ خلافت 
خرقہ خلافت ومشیخت آپ کو شیخ علی القاری الواسطی سے عطاہوا۔(سلسلہ زریں کچھ یوں ہے) شیخ علی القاری الواسطی۔۔۔ شیخ الاعظم ابوالفضل محمد بن کامخ۔۔۔ شیخ علی بن علام بن ترکان ۔۔۔ علی البازیاری۔۔۔ علی العجمی۔۔۔ ابوبکر شبلی ۔۔۔ سید الطائفہ شیخ ابوالقاسم جنید بغدادی۔۔۔ سری السقطی۔۔۔ معروف کرخی۔۔۔ داؤد طائی۔۔۔ حبیب عجمی۔۔۔ ابوسعید حسن بصری۔۔۔ حضرت امام المشارق والمغارب سیدنا علی بن ابی طالب۔۔۔ سلطان المرسلین، حبیب رب العالمین، خاتم النبیین، شفیع المذنبین، احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔
’تحفۃ الاولیائ، شفاء السقام، براہین، تریاق المحبین اور عجائب واسطہ وغیرہ میں لکھا ملتا ہے کہ حضرت شیخ رفاعی نے (خلق خدا کی رہبری کے لیے) مکہ معظمہ سے تشریف لا کر جب بصرہ کے قریب اُم عبیدہ کے مقام پر سکونت اختیار کی،اور آپ کے اندربدرجۂ اَتم موجود زہدو ریاضت کا چرچہ دیگرشہروں اور ملکوں تک پہنچگیا۔ (پھر کیا ہوا) یہ خبرہدایت اَثر سن کر اس نعمت عظمیٰ کو غنیمت جانتے ہوئے اکثرعلمائے کرام اور مشائخ عظام نے بہ خلوصِ نیت بیعت کر کے آپ سے ظاہری و باطنی فیوض وبرکات حاصل کیے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آپ کی حیات میں سلسلہ رفاعیہ کے خلفاو منسلکین کی تعداد ایک لاکھ اسی ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ ان میں اکثر مشاہیر کے نام نامی اسم گرامی بھی کتب مذکورہ میں تحریر ہیں۔ 

فقہی مذہب اور آپ کی تصنیفات
آپ مذہباً شافعی اور فقیہ کامل تھے۔ آپ کی تصنیفات وتالیفات بہت ہیں : مثلاً تفسیر میں معانیِ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔تفسیر سورۃ القدر۔ حدیث میں الروایۃ۔ علم تصوف میں طریق الی اللہ۔۔۔ حالۃ اہل الحقیقۃ مع اللہ۔۔۔ بہجۃ۔ اور فقہ شافعی وغیرہ میں شرح التنبیہ۔۔۔حَکم۔۔۔ احزاب۔۔۔اور برہان المویدنہایت عمدہ اور معتبر کتابیں ہیں۔ اس طرح آپ کی کل چھ سو باسٹھ (۶۶۲) کتابیں ہیں۔ تاتاری جنگ میں اعرق کی تباہی کے بعد چند کتابیں ہی دستیاب ہیں
راتب رِفاعیہ کی تاریخی حیثیت
طریقہ عالیہ رفاعیہ آپ ہی سے جاری ہے۔آپ نے مریدین ومتعلقین کے لیے ذکراذکار کا ایک خاص طریقہ مقرر کر رھا ہے جسے ’’راتب رفاعیہ کہاجاتا ہے۔امام المورخین قطب مدینہ شیخ عبد اللہ مطری اپنی کتاب ’’انوارِ احمدی میں اس کی حقیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :
ایک روز قطب الاقطاب، سلطان العارفین سیدنا احمد کبیر الرفاعی الحسینی -قدس سرہ و روحہ-اپنے اصحاب ومریدین کو معرفت ومحبت الٰہی کی تعلیم وہدایت دے رہے تھے، ساتھ ہی بعض خلفا کو حکم دے رہے تھے کہ ہر شب جمعہ اور شب دوشنبہ بعد نمازِ عشا آدھی رات تک ذکرجہرونفی واثبات جلی وخفی میں مشغول رہے۔ دل حضورِ باری کی جانب متوجہ رہے، اور جب تک اس حلقہ ذکرمیں رہے وجدو شوق کے ساتھ ذکر الٰہی میں مستغرق رہے۔نیزفرماتے کہ اگر توچاہے تو ہر شب اسے تنہا پڑھ لیا کر تاکہ تیرا باطن چمک اُٹھے۔
مورخ موصوف نے مزید لکھا ہے کہ اس حلقہ مذکورہ میں قصائدواشعار دف کے ساتھ پڑھے جاتے لیکن ذکر کی آوازدَف کی آواز سے بلندرہا کرتی تھی۔نیز ذکر سننے کے بعد وجدو شوق کی حالت میں وہ آلات آہنی(مثلا گرزوشمشیروسیخ وغیرہ) سے اپنے بدن پر ضرب کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ کی عنایت اورآپ کے فیض وبرکت سے(کرنے والے کو)کچھ بھی نقصان نہ پہنچاتے تھے۔شیروگرگ اور سانپ بچھو کو پکڑنا،آگ میں داخل ہونا اور پانی پر چلنا (آج تک) آپ کے توابعین میں جاری ہے-کذافی انوار احمد ی للمطری-
یہ مجلس راتب خاندانِ رفاعیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ جس طرح سماع محدود ہے طریقہ چشتیہ کے ساتھ۔یوں ہی ہر سلسلہ کے پیشواؤں نے اپنے توابعین ومریدین کے لیے ذکر کا ایک خاص طریقہ مقرر کیا ہے جس کی تعمیل صاحب سلسلہ کی اجازت کے بغیرناروا اور بے سود ہے۔(ظاہرہے) اگرصاحب سلسلہ سے اجازت لیے بغیروہ چیز ہٹ دھرمی سے چلادیں تو وہ فیض کہاں سے نصیب ہو گاجوکہ ایک صاحب اجازت کو حاصل ومیسر ہے۔
کسی بزرگ نے کیاخوب فرمایا ہے ؎
ہیچ کس از خود بخود چیزے نہ شد ٭ ہیچ آہن ہم بخود تیزے نہ شد
مولوی از خود نہ شدمولاے روم ٭ تا غلام شمس تبریزی نہ شد
یعنی کوئی شخص ازخود کوئی چیز نہیں بن جاتا۔کسی لوہے کے اندر خود بخود تیزی پیدا نہیں ہو جاتی۔
مولوی اپنی ذاتی قابلیت و لیاقت سے مولائے روم نہیں بن گیا۔ اسے مولاے روم بننے کے لیے پہلے شمس تبریری کی غلامی اختیار کرناپڑی تھی۔
وہ بزرگ مزید فرماتے ہیں ؎
علم باطن ہم چو زبدوعلم ظاہر ہمچو شیر
کے شود بے شیر زبدوکے شود بے پیرپیر
یعنی علم باطن کی مثال مکھن کی سی ہے اور اس کے مقابلے میں علم ظاہر دودھ کی مانند ہے۔ جس طرح بغیردودھ کے مکھن وجود میں نہیں آسکتا اسی طرح کوئی شخص بغیر کسی کے سے وابستہ ہوئے (کامل ) پیر نہیں بن سکتا۔
(عربی کامشہور مقولہ ہے) مَنْ خَدِمَ خُدِمَ۔ یعنی جو دوسروں کی خدمت کیا کرتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ لوگ خود اس کے خدمت گزاربن جاتے ہیں۔ 
بیعت و اِجازت کے اَحوال و کیفیات مشائخ عظام کی کتابوں مثلاً ’القول الجمیل وغیرہ میں خلاصہ وار تحریرہیں، اس مختصر رسالہ میں اس کوبیان کرنے کی گنجائش نہیں۔ 
اِزدواج و اَولاد
تاریخ ونسب سے متعلق کتابوں میں مذکورہے کہ آپ نے کئی ایک شادیاں کیں اور ان سے بہت سے بچے پیداہوئے۔(بتایاجاتا ہے کہ)آپ کے بارہ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، جن میں سے چار صاحبزادوں کے ذریعہ آپ کا نسب جاری ہو کر مختلف ملکوں میں پھیلا، جب کہ آپ کے آٹھ بیٹے اولاد کی دولت سے محروم رہے۔ 
فرزند اکبرسید صالح رفاعی اپنے والدبزرگوار کی موجودگی ہی میں دنیا سے چلے گئے اور سیدی یحییٰ البخاری کے قبے میں مدفون ہیں۔ ان کے بیٹے سیدمحمد شمس الدین جانشین ہوئے جن کی نسل واسط، بصرہ، اور سبیلیات وغیرہ میں پھیلی ہوئی ہے۔
دوسرے فرزند سید محمد معدنِ اسرار اللہ الرفاعی والد گرامی کے پردہ فرماجانے کے بعد تخت سجادگی و تولیت پر متمکن ہوئے۔ آپ کی قبرسعید مصر میں زیارت گاہِ عالم ہے۔آپ کی اولاد مصروشام، سبیلیات ومدینہ منورہ،عجم و استنبول اور ہندستان کے شہر بمبئی وسورت وغیرہ میں موجود ہے۔
تیسرے فرزند سید ابراہیم النقیب ہیں جن کے بیٹے سید احمد صیاد سے آپ کا نسب حویزہ، بوشہر،اوربندرریک وغیرہ میں معروف ومشہور ہے۔ چوتھے فرزند سید علی سکران تھے جن کے بیٹے سید شمسان رفاعی سے آپ کی نسلیں عراق وماوراء النہر،اور ہندوقندھاروغیرہ میں بکھری ہوئیہیں۔ بقیہ آٹھ فرزندوں کے اسماے گرامی یہ ہیں : سید اسماعیل المجذوب۔۔۔ سید یوسف۔۔۔ سید عبد الفتاح۔۔۔ سید ابوالمحامد حسن۔۔۔ سید حسین۔۔۔ سید موسیٰ۔۔۔ سید محمود۔۔۔ اور سید عبد المحسن-نفعنا اللہ بارواحہم-جو لاولد رہے - دوصاحبزادیوں میں سے پہلی کا نام خدیجہ تھاجن کو زینب بھی کہتے ہیں۔ اور دوسری فاطمہ تھیں - علیہم الرحمۃ والرضوان-۔ ’تریاق، سفینہ احمدی، انسابِ طالبیہ، الدرۃ المضیئۃ، روضۃ الانساب، خلاصۃ الانساب اور بحر الانساب وغیرہ میں یوں ہی ہے۔آپ کی اولادیں اعراق کے علاوہ (ویسے تو دنیا کا کوئی حصہ آپکی اولاد سے خالی نہیں ہے) بلاد الشام - مصر - لیبیا - مراقش - فلسطین - سعودی عرب - کویت - میں زیادہ تعداد میں ہیں، بر صغیر میں اولادوں سے زیادہ مریدین کی کثرت ہے
کرامات وتصرفات
حضرت شیخ سید احمد کبیر رفاعی -قدس سرہ-کی کرامات و تصرفات بے شمار ہیں اور مشہور ومعروف بھی۔ سیرت و تاریخ کی معتبرکتابوں مثلاً تاریخ امام یافعی، تاریخ تریاق، سواد العینین امام رافعی، الانتضاح فی ذکر الصلاح،تریاق المحبین،اور نزہۃ المجالس وغیرہ میں ان کی تفصیلات موجودہیں۔ یہاں بغرضِ اختصار بس دو ایک کراماتِ خیر آیات تحریر کی جاتی ہیں۔ 
حضرت عمرو ابی الفرج الفاروقی سے منقول ہے کہ ایک روز شہر واسط کے دریاکے کنارے ہم میں سے اکثر لوگ قطب المعظم سیدنا احمد کبیرالرفاعی کے ہمراہ موجود تھے کہ اچانک آپ نے نعرہ لگاتے ہوئے فرمایا کہ مجھے یوں الہام ہواہے کہ اے احمد! اپنے جد اَمجدحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے جا، وہاں تیرے لیے ایک سعادت بھری نعمت و اَمانت رکھی ہوئی ہے جومصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم تجھے عطا فرمائیں گے، لہٰذا اب میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے آمادہ ہوں، تم لوگوں کا کیا اِرادہ ہے؟۔اس وقت سید عبد الرزاق الحسینی نے فوراً کھڑے ہو کر فی البدیہ یہ شعرموزوں کر کے عرض کیا ؎
مر کل امر فانا لا نخالفہ ٭ وحد حدا فانا عندہ نقف
یعنی جو کچھ اِرشادِ عالی ہوہم کبھی اس کی مخالفت نہیں کرسکتے بلکہ اس کی تعمیل کے لیے ہمہ وقت ہم بسروچشم حاضر ہیں۔  
الغرض آپ وہاں سے لوگوں کے ساتھ اُم عبیدہ تشریف لائے اور اسبابِ سفر تیار کر کے عازم حجاز ہو گئے۔مصنف کی شہادت کے مطابق یہ واقعہ ۵۵۵؁ھ کا ہے۔ آپ کے حج بیت اللہ کے اِرادے کو دیکھ کر لوگوں کی ایک بڑی جماعت آپ کی معیت میں سوئے حجاز روانہ ہو گئی۔حج کے جملہ ارکان ومناسک ادا کرنے کے بعد آپ زیارتِ نبوی کے لیے روانہ ہوئے۔ اور برہنہ پیادہ پاچلتے ہوئے روضہ اقدس تک پہنچے۔اس وقت کوئی نوہزار(۹۰۰۰)سے زیادہ لوگ (آپ کے ساتھ) موجود تھے۔
حضرت شیخ احمد کبیر رفاعی نمازِعصر کے بعد حرم نبوی میں داخل ہوئے۔سارے زائرین حرم اقدس اوراس کے اطراف وجوانب میں جمع تھے۔شیخ رفاعی نے قبر انور کے قریب ہو کر نہایت ادب واِنکسارسے تحفہ سلام پیش کیا: السلام علیک یا جدی فوراً انعام واِکرام کے طور پر آپ کو جواب ملا: و علیک السلام یا ولدی، جسے حاضرین نے اپنے کانوں سے سنا۔ سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ و السلام کی طرف سے اس درجہ شفقت ورحمت ہونے کے باعث فرطِ ذوق وشوق میں سیداحمد کبیر رفاعی پروجدوکپکپی کی کیفیت طاری ہو گئی، کھڑے رہنے کا یارا نہ رہا۔تھوڑی دیر بعد قبر شریف سے نزدیک ہو کر نہایت عجزو فروتنی سے یہ رباعی پیش کی ؎
في حالۃ البعد روحي کنت أرسلہا
تقبل الأرض عني و ہي نائبتي
و ہٰذہ دولۃ الاشباح قد حضرت
فامد یمینک کی تحظی بہا شفتي
یعنی (اے اللہ کے رسول) ہجروفراق اور دوری ومہجوری کے عالم میں اپنی روح کو اپنانائب بنا کر(آپ کی بارگاہ میں سلام پیش کرنے کے لیے) بھیج دیا کرتا تھا،جو میری طرف سے خاکِ حرم چومنے کی سعادت حاصل کرتی تھی۔ اور آج قسمت نے یاوری کی اور یہ ہیچ مداں خود حاضر بارگاہِ عالی ہو گیا ہے، تواپنا دایاں ہاتھ (قبرانورسے باہر)نکالیں تاکہ میرے ہونٹ بھی انھیں بوسہ دینے کی عزت وسعادت پالیں۔ 
سبحان اللہ!شیخ رفاعی پر رسول خیر الانام علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کیابارشِ نوازش وکرم ہے کہ ابھی رباعی مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ قبرمبارک شق ہوئی اورمعجزانہ طور پر آپ کا دست مبارک چمکتے سورج کی ماننداس سے باہرنکلا،حضرت شیخ رفاعی نے فوراً اس کے بوسے لیے، جس کی برکت سے آپ فوائد ظاہری اور کمالاتِ باطنی کا مجموعہ بن گئے۔جس وقت یہ واقعہ رونماہوا، اس وقت وہاں بہت سے اَصحاب فضل وکمال موجود تھے لیکن صاحب تریاق المحبین کی شہادت کے مطابق وہاں پر موجود اولیاے کرام اور مشائخ عظام کے اسماے گرامی یہ ہیں :شیخ عقیل المنجی، شیخ حیاۃ بن قیس الحرانی، شیخ عدی بن مسافر، شیخ عبد القادر الجیلانی، شیخ احمد الزعفرانی، اور شیخ سید عبد الرزاق الحسینی۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اولیاے کاملین اور مشائخین صالحین وہاں موجود تھے-شرف المحتم، التنویر، اور نزہۃ المجالس وغیرہ میں ایساہی ہے-۔
اصحابِ کرامت مآب اور اَرباب ولایت انتساب سے مروی ہے کہ ایک روز حضرت سیدنا پیرپیراں میر میراں محی الدین شیخ عبد القادر الجیلانی- رحمہ اللہ تعالیٰ- نے اپنے خادم خاص کو سلطان العارفین شیخ احمد الکبیر الرفاعی کی بارگاہ میں بھیجا اور زبانی کہلوادیا کہ شیخ سے جا کرپوچھو :
ما العشق؟۔
یعنی عشق کیاچیزہے؟۔
حضرت سید احمد کبیر رفاعی نے خادم سے جب ما العشق سنا توایک آہِ جگر دوز سینۂ پرسوزسے نکالی اور فرمایا :
 العشق نار یحرق ما سوی اللّٰہ تعالیٰ۔ 
یعنی عشق اس آگ کو کہتے ہیں جو اللہ جل مجدہ کے سواہرچیز کو جلا کر راکھ کر دے۔
چنانچہ آپ کی اُس آہِ جانکاہ کی تاثیر سے پہلے تو وہ درخت جل کر خاک ہو گیا جس کے زیرسایہ آپ تشریف فرماتھے،اور پھروہ خاکستر پانی بن کر آپ کے بیٹھنے کی جگہ پہنچ کر برف کی مانند جم گیا۔
خادم خاص نے یہ حال پرملال دیکھنے کے بعد حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کی بارگاہ میں لرزاں وترساں حاضر ہو کر بادیدۂ نم ساری کیفیت بیان کر دی۔آپ نے فرمایا:تم اسی مقام پر واپس جاؤ، اور جس جگہ حضرت سید احمد کبیررفاعی کا جسم مبارک محبت الٰہی کی گرمی سے جل کر پہلے خاکستراور پھر فیوضاتِ ربانی سے پانی ہو گیا تھا، اس جگہ کو عطروگلاب وغیرہ عطریات سے معطرکر دو اور اس پانی کے ارد گرد بخور جلاؤدیکھنا ان کا جسم مبارک پھر عالم عنصری میں رجوع کرے گا۔
چنانچہ اس خادم نے حسب اِرشاد تعمیل کی۔ ابھی ایک ساعت بھی نہ گزری تھی کہ حضرت سید احمد کبیر الرفاعی نے مقام فنا فی الفنا’’موتوا قبل أن تموتواسے پھر رجوع کیا، اور وہ پانی قدرتِ الٰہی سے جسم کی صورت اختیار کرگیا، اور سید احمد کبیر الرفاعی-قدس سرہ- کلمہ پڑھتے ہوئے اُٹھ بیٹھے ؎
قادرا قدرت تو داری ہرچہ خواہی آں کنی
مردہ را جانے تو بخشی زندہ رابے جاں کنی
یعنی اللہ جل مجدہ کی توفیق قدرت سے آپ بھی قدرت رکھتے ہیں اور جو چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے۔جس مردے کوچاہیں زندگی بخش دیں اور جس زندہ کو چاہیں بے جان کر دیں۔ 
جس وقت یہ خبرفرحت اَثر حضرت سیدنا شیخ عبد القادری الجیلانی -رحمہ اللہ تعالیٰ- کوپہنچی توآپ نے فرمایا:جواولیا فنادرفنا کے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر اس عالم عنصری میں رجوع کرناممکن نہیں ہوتا۔ہاں دوولی ایسے ہوئے ہیں جو عالم عنصری میں لوٹ آتے ہیں۔ ایک تو یہی سید احمد کبیر الرفاعی ہیں اور دوسرے اگلے زمانے کے ایک بزرگ ہوئے ہیں کہ ان کا بھی یہی حال تھا ؎
شہ سوارانے کہ دیدند حسن یار ٭ یافتند دریاے حسنش بے کنار
جملہ گشتند غرق بحر حسن دوست ٭ نے خبر از بحر دارندنے کنار
یعنی کچھ ایسے شہ سوار بھی ہیں جو حسن یار کو تکنے میں لگے ہوئے ہیں، اور انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دریاے حسن کا کوئی کنارہ نہیں ہے۔
پھر کیا ہوا کہ سارے کے سارے اسی حسن دوست کے سمندر میں غرق ہو کر رہ گئے۔ پھر نہ انھیں سمندرکا ہوش رہا اور نہ کنارے کی خبر رہی۔
-کذا فی گلدستہ کرامات وغیرہ-واللہ اعلم۔

ولادت و وفات
آپ کی ولادت با سعادت جمعرات کے دن یکم رجب المرجب۵۱۲ھ؁ میں ہوئی۔آپ نے چھیاسٹھ سال کی عمرپائی۔ جمعرات ہی کے دن بوقت عصر-اکثر مورخین کے بقول-۲۲/جمادی الاول ۵۷۸؁ھ کوام عبیدہ کے مقام پر آپ کا اِنتقال ہوا، اور وہیں آپ کا روضۂ مبارک زیارت گاہِ خلائق ہے۔
رضي اللّٰہ عنہ و نفعنا اللّٰہ بہ في الدنیا و الآخرۃ و بجمیع عباد اللّٰہ الصالحین آمین و ما توفیقي إلا باللّٰہ، حسبي اللّٰہ و نعم الوکیل نعم المولیٰ و نعم النصیر۔
1306 ھجری میں لکھی گئ
                         
 *كتاب "نور التحقیقات الملقب بہ تحفہ رفاعیہ" سے ماخوذ مصنف کا نام :-حضرت شیخ مفتی مولانا سید ابوالحسن شاہ جہاں عرف سید نور الدین سیف اللہ رفاعی علیہ الرحمہ سجادہ نشین خانقاہ رفاعیہ ،بڑودہ ، گجرات اور اضافہ جناب پروفیسر مولانا ابو رِفقہ محمد افروز قادری -عفی عنہ- پروفیسر اسلاميات: دلاص یونیورسٹی، کیپ ٹاؤن، ساؤتھ افریقہ*

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے