ریــا کاری ‏

 ریــا کاری 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
 ہمارا ہر نیک عمل اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے ہونا چاہئے ، نام ونَمُود اور واہ واہ کی خواہش ، شہرت کی تڑپ ہمارے کئے کرائے پر پر پانی پھیر سکتی ہے ، قراٰن کریم پارہ 12سورۂ ھُود کی آیت 15 اور16میں ارشاد ہوتا ہے : مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ(۱۵) اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ ﳲ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۶) (پ۱۲ ، ھود : ۱۶ ، ۱۵)

ترجمۂ کنزالایمان : جو دنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہوہم اس میں ان کا پورا پھل دے دیں گے اور اس میں کمی نہ دیں گے ، یہ ہیں وہ جن کے لیے آخرت میں کچھ نہیں مگر آگ اور اکارت گیا جو کچھ وہاں کرتے تھے اور نابود ہوئے جو ان کے عمل تھے۔

حضرت سیدنا ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ریاکاروں کے حق میں نازل ہوئی۔
(روح البیان ، ۴ / ۱۰۸ ، ھود،تحت الآیۃ : ۱۵)


*اعمال رَد ہوجائیں گے:*
نور کے پیکر ، تمام نبیوں کے سَرْوَر صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشادفرماتے ہیں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ ہدایت نشان ہے : میں شریک سے بے نیاز ہوں جس نے کسی عمل میں کسی کو میرے ساتھ شریک کیا میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دوں گا ، اور جب قیامت کادن آئے گا تو ایک مُہربند صحیفہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میںپیش کیاجائے گا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فرشتوں سے فرمائے گا : اِنہیں قبول کر لو اور اُنہیں چھوڑ دو۔ فرشتے عرض کریں گے : یارب عَزَّوَجَلَّ ! تیری عزت کی قسم! ہم ان میں خیر کے علاوہ کچھ نہیں پاتے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا : تم درست کہتے ہو مگر یہ میرے غیر کے لئے ہیں اور آج میں صرف وہی اعمال قبول کروں گا جو میری رضا کے لئے کئے گئے تھے۔ (کنزالعمال ، ۳ / ۱۸۹ ، حدیث : ۷۴۷۱ ، ۷۴۷۲)


*اس کا عمل برباد ہوگیا:*
حضرتِ سیدناعبد اللّٰہ بن ابی زکریا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے : جس نے اپنے عمل میں ریاکاری کی اس کا سارا عمل برباد ہوگیا۔ 
(مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الزھد، کلام الحسن البصری ، ۸؍۲۶۶ ، رقم : ۱۱۱)


*بروزِ قیامت ندامت کا سامنا:*
رسولِ اکرم ، نورِ مجسَّم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : جب لوگ اپنے اعمال لے کر آئیں گے تو ریاکاروںسے کہا جائے گا : ان کے پاس جاؤجن کے لئے تم ریا کاری کیا کرتے تھے اور ان کے پاس اپنا اجر تلاش کرو۔  
(معجم کبیر ، ۴ / ۲۵۳ ، حدیث : ۴۳۰۱)


*رِیاکاروں کا انجام:*
رسولِ بے مثال ، بی بی آمِنہ کے لال صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عِبْرَت نشان ہے : ’’قِیامَت کے دن سب سے پہلے ایک شہید کا فیصلہ ہو گا جب اُسے لایاجائے گا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا تو وہ اِن نعمتوں کا اِقرار کرے گا پھر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا : تُو نے اِن نعمتوں کے بدلے میں کیا عمل کیا؟ وہ عَرْض کرے گا : میں نے تیری راہ میں جِہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا : تُو جھوٹا ہے تو نے جہاد اس لئے کیاتھا کہ تجھے بہادُر کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا، پھر اس کے بارے میںجہنّم میں جانے کا حکم دے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔

پھر اس شخص کو لایا جائے گا جس نے عِلْم سیکھا ، سکھایا اور قرآن کریم پڑھا ، وہ آئے گا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا تو وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا ، پھر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس سے دریافت فرمائے گا : تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کِیا؟وہ عرض کرے گا : میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیرے لئے قرآنِ کریم پڑھا۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا : تُو جھوٹا ہے تو نے علم اِس لئے سیکھا تاکہ تجھے عالِم کہا جائے اور قرآنِ کریم اس لئے پڑھا تا کہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔ پھر اُسے بھی جہنم میں ڈالنے کا حکم ہو گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا ، پھر ایک مالدار شخص کو لایا جائے گا جسے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے کثرت سے مال عطا فرمایا تھا ، اسے لا کر نعمتیں یاد دلائی جائیںگی وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا : تو نے ان نعمتوں کے بدلے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا : میں نے تیری راہ میں جہاں ضرورت پڑی وہاں خرچ کیا۔ تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرمائے گا : ’تو جھوٹا ہے تو نے ایسا اس لئے کیا تھا تا کہ تجھے سخی کہا جائے اور وہ کہہ لیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں جہنم کا حُکْم ہو گا ، چُنانچِہ اُسے بھی منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (اَلْاَمَان وَالْحَفِیْظ)( مسلم،کتاب الامارۃ،باب من قاتل للریاء....الخ ، ص۱۰۵۵ ، حدیث : ۱۹۰۵)


حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ جیسے اِخلاص والی نیکی جنت ملنے کا ذریعہ ہے ایسے ہی رِیا والی نیکی جہنم اورذِلَّت حاصل ہونے کا سبب ۔ یہاں ریا کار شہید ، عالِم اور سخی ہی کا ذِکْر ہوا ، اس لئے کہ انہوں نے بہترین عمل کئے تھے جب یہ عمل ریا سے برباد ہوگئے تو دیگر اعمال کا کیا پوچھنا! رِیا کے حج و زکوۃ اور نماز کا بھی یہی حال ہے۔ (مِرْاٰۃ المناجیح ، ۱ / ۱۹۱)

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*طالب دعا⬅️ محمد نوید قادری*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے