حضرت ابراہیم بن رسول اللّٰهﷺ

📚     «  مختصــر ســوانح حیــات  »     📚
-----------------------------------------------------------
🕯️حضرت ابراہیم بن رسول اللّٰهﷺ🕯️
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب:
اسمِ گرامی: ابراہیم۔
سلسلۂ نسب اسطرح  ہے: حضرت ابراہیم رضی اللّٰه عنہ بن سید المرسلین خاتم النبین حضرت محمدﷺ بن عبد اللّٰه بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبدِ مناف بن قصی بن کالب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہر بن مالک۔ (رضی اللّٰه عنہم اجمعین) یہ حضورِ اکرمﷺ کی اولاد مبارکہ میں سب سے آخری فرزند ہیں۔

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 27/ذوالقعدہ 8ھ، مطابق 17/مارچ 630ء بروز بدھ، مدینہ منورہ کے قریب مقام ’’عالیہ‘‘ کے اندر حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہا کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے۔ اس لیے مقام عالیہ کا دوسرا نام ''مشربۂ ابراہیم'' بھی ہے۔ ان کی ولادت کی خبر حضورِ اکرمﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللّٰه عنہ نے مقام عالیہ سے مدینہ آ کر بارگاہِ اقدس میں سنائی۔ یہ خو ش خبری سن کر حضورِ اکرمﷺ نے انعام کے طور پر حضرت ابو رافع رضی ﷲ عنہ کو ایک غلام عطا فرمایا۔ اس کے بعد فوراً ہی حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور آپﷺ کو ’’یا ابا ابراہیم‘‘ کہہ کر پکارا۔ حضورﷺ بے حد خوش ہوئے اور ان کے عقیقہ میں دو مینڈھے آپ نے ذبح فرمائے اور ان کے سر کے بال کے وزن کے برابر چاندی خیرات فرمائی اور ان کے بالوں کو دفن کرا دیا اور ’’ابراہیم‘‘ نام رکھا۔
پھر ان کو دودھ پلانے کے لیے حضرت ’’ام سیف‘‘ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہا کے سپرد فرمایا۔ ان کے شوہر حضرت ابو سیف رضی اللّٰه عنہ لوہار کا پیشہ کرتے تھے۔ آپﷺ کو حضرت ابراہیم رضی اللّٰه عنہ سے بہت زیادہ محبت تھی اور کبھی کبھی آپ ان کو دیکھنے کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ 
چنانچہ حضرت انس رضی ﷲ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول ﷲﷺ کے ساتھ حضرت ابوسیف رضی اللّٰه عنہ کے مکان پر گئے تو یہ وہ وقت تھا کہ حضرت ابراہیم جان کنی کے عالم میں تھے۔ یہ منظر دیکھ کر رحمتِ عالمﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس وقت عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰه عنہ نے عرض کیا کہ یارسول ﷲ!ﷺ کیا آپ بھی روتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے عوف کے بیٹے! یہ میرا رونا ایک شفقت کا رونا ہے۔ اس کے بعد پھر دوبارہ جب چشمان مبارک سے آنسو بہنےلگے تو آپ کی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری ہوگئے: ’’اِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَ الْقَلْبَ یَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ اِلاَّ مَا یَرْضٰی رَبُّنَا وَاِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا اِبْرَاہِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ‘‘ 
آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمزدہ ہے مگر ہم وہی بات زبان سے نکالتے ہیں جس سے ہمارا رب خوش ہو جائے اور بلاشبہ اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے بہت زیادہ غمگین ہیں۔    
جس دن حضرت ابراہیم رضی اللّٰه عنہ کا انتقال ہوا اتفاق سے اسی دن سورج گرہن لگا۔ عربوں کے دلوں میں زمانہ جاہلیت کا یہ عقیدہ جما ہوا تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت سے چاند اور سورج میں گرہن لگتا ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے یہ خیال کیا کہ غالباً یہ سورج گرہن حضرت ابراہیم رضی اللّٰه عنہ کی وفات کی وجہ سے ہوا ہے۔

حضورِ اقدسﷺ نے اس موقع پر ایک خطبہ دیا جس میں جاہلیت کے اس عقیدہ کا رد فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ اْلشَّمْسَ وَالْقَمَرَ اٰیَتَانِ مِنْ اٰیٰاتِ اﷲِ لَایَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہٖ فَاِذَا رَاَیْتُمُوْھَا فَادْعُوا اللہَ وَصَلُّوْا حَتّٰی یَنْجَلِیْ‘‘۔ (بخاری جلد 1 ص 145 باب الدعاء فی الکسوف) 
یقیناً چاند اور سورج ﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کے مرنے یا جینے سے ان دونوں میں گرہن نہیں لگتا جب تم لوگ گرہن دیکھو تو دعائیں مانگو اور نماز کسوف پڑھو یہاں تک کہ گرہن ختم ہو جائے۔ حضورﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے فرزند ابراہیم نے دودھ پینے کی مدت پوری نہیں کی اور دنیا سے چلا گیا۔ اس لیے ﷲ تعالیٰ نے اس کے لیے بہشت میں ایک دودھ پلانے والی کو مقرر فرما دیا ہے جو مدت رضاعت بھر اس کو دودھ پلاتی رہے گی۔ (مدارج النبوۃ جلد 2 ص 254)

تاریخِ وصال: جیسا کہ گزر چکا ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللّٰه عنہ کے وصال کے دن عرب میں سورج گرہن لگا۔ جدید ریاضی حساب کے مطابق وہ دن 7/جنوری 632ء کو 8:30 لگا تھا۔ اس حساب سے قمری تاریخ 9/شوال المکرم 10ھ۔ تو بحسابِ شمسی ان کی عمر ایک سال 9 ماہ، 20 دن، اور بحساب قمری ایک سال، 10 ماہ، اور چھ دن ہوتی ہے۔ ( اللّٰه و رسولہ اعلم باالصواب) 
روایت ہے کہ حضورﷺ نے حضرت ابراہیم رضی اللّٰه عنہ کو جنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعون رضی اللّٰه عنہ کی قبر کے پاس دفن فرمایا اور اپنے دستِ مبارک سے ان کی قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کیا۔ (مدارج النبوۃ جلد2 ص 453)

ماخذ و مراجع: سیرتِ مصطفیٰﷺ۔ مدارج النبوت۔ اسد الغابہ۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محـمد یـوسـف رضـا رضـوی امجـدی نائب مدیر "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 9604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے