تکفیرفقہی:اقسام واحکام
ضمیمہ:قسط دوم
کفر فقہی ظنی اور متکلمین
دلائل سے ظاہر ہے کہ جس کفرفقہی ظنی کے کفرہونے پر تمام مذاہب فقہیہ کے فقہا کا اجماع ہو،اس اجماعی کفر فقہی ظنی کے قائل پر متکلمین بدعت کا حکم نافذکریں گے۔
جس کفرفقہی ظنی میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف ہو،اس میں اختلاف کرنے والے فقہائے کرام اگر ایسے قول کو ناجائزوحرام اورقائل کوفاسق کہتے ہوں تو متکلمین بھی اس قائل کوفاسق قرار دیں گے۔بدعتی یا گمراہ نہیں کہیں گے،کیوں کہ فقہائے کرام کا اس کے کفر ہونے پراجماع نہیں۔ فقہا کا فریق دوم جو کہے،اسی حکم کومتکلمین تسلیم کریں گے۔
کفر فقہی ظنی میں جب تمام مذاہب فقہیہ کے فقہائے کرام کا اجماع ہو،تب متکلمین بدعت وضلالت کا حکم نافذکریں گے،جیسے تقلید شخصی پراہل سنت کا اجماع ہے۔ تقلید شخصی کا منکر بدعتی وگمراہ ہے۔اسی طرح تفضیل شیخین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہماپر اہل سنت کا اجماع ہے۔ اس کے منکر یعنی فرقہ تفضیلیہ پر ضلالت وبدعت کا حکم ہے۔
اجماع فقہا کا منکر بدعتی
جس امر پرحضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اجماع قطعی منصوص (اجماع قولی،غیر سکوتی)ہو، اور وہ تواتر کے ساتھ مروی ہو، تومتکلمین کے یہاں اس کا انکار ضلالت وگمرہی ہے۔ایسا اجماعی امر ضروریات اہل سنت سے ہے۔
جس امر پرحضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اجماع سکوتی ہو،یا فقہائے غیر صحابہ کا جس پر اجماع ہو، اس کا انکار بدعت ہے۔
کفر فقہی ظنی جوتمام فقہاکے یہاں اجماعی ہو، وہ بھی متکلمین کے یہاں بدعت ہوگا، کیوں کہ تمام فقہائے کرام کا اس امر کے کفر ہونے پر اجماع ہے، اور حضرات صحابہ کرام کے اجماع قطعی منصوص کے علاوہ دیگر تمام اجماعی امور کا منکر متکلمین کے یہاں بدعتی ہے،پس فقہائے کرام کے یہاں اجماعی ظنی کفر فقہی کا مرتکب متکلمین کے یہاں بدعتی ہونا چاہئے۔ تادم تحریر کہیں صریح حکم نہیں مل سکا۔اگر کسی کی نظر میں صریح حکم ہوتومطلع فرمائیں۔
واضح رہے کہ فرض اعتقادی پر بھی مجتہدین غیر صحابہ کا اجماع ہوتا ہے،لیکن وہ امر اپنی قطعی بالمعنی الاعم دلیل سے ثابت ہوتا ہے اور ضروریات اہل سنت میں شامل ہوتاہے۔ اس کا حکم وہی ہے جوضروریات اہل سنت کا حکم ہے۔فرض اعتقادی کی فرضیت پر مجتہدین کرام کا اجماع ضرورہوتا ہے،لیکن وہ اجماع مجتہدین سے ثابت نہیں ہوتا ہے،بلکہ اپنی قطعی بالمعنی الاعم دلیل سے ثابت ہوتا ہے۔اجماع مجتہدین سے اس کی قطعیت کی تاکیدہوتی ہے۔
علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:(فان قیل:ہذا یقتضی ان لا یجوزالاجماع عن قطعی اصلًا لوقوعہ لغوًا-قلنا المراد انہ لواشترط کون السند قطعیا لکان الاجماع الذی ہواحد الادلۃ لغوًا بمعنٰی انہ لایثبت حکمًا ولایوجب امرًا مقصودًا فی شیء من الصور-اذ التاکید لیس بمقصود اصلی بخلاف ما اذا لم یشترط-فان السند اذا کان ظنیًّا فہو یفید اثبات الحکم بطریق القطع-واذا کان قطعیا فہویفید التاکید کما فی النصوص المتعاضدۃ علٰی حکم واحد فلایکون لغوًا بین الادلۃ)(التلویح: جلددوم:ص52)
ترجمہ: پس اگر اعتراض کیا جائے کہ یہ قول چاہتا ہے کہ کسی قطعی حکم کے بارے میں بالکل اجماع واقع نہ ہو (ایسی صورت میں) اجماع کے لغو ہو جانے کی وجہ سے؟
ہم جواب دیں گے کہ مراد یہ ہے کہ اگر سند کے قطعی ہو نے کی شرط لگا دی جائے تو اجماع جوادلہ اربعہ میں سے ایک ہے،وہ ضرور لغو ہو کر رہ جائے گا۔ مطلب یہ کہ اجماع کسی حکم کو ثابت نہیں کر سکے گا، اور کسی صورت میں کسی امر مقصود کا اثبات نہ کرسکے گا،اس لیے کہ تا کید مقصود اصلی نہیں ہے (اور دلیل کے قطعی ہو نے کی شکل میں اجماع صرف قطعیت کی تاکیدکرے گا،کیو ں کہ حکم کا ثبوت پہلے سے موجود ہے)،بر عکس اس کے کہ جب سند کی قطعیت کی شرط نہ لگا ئی جائے،اس لیے کہ سند جب ظنی ہو گی تو اجماع،بطریق یقین حکم کے ثبوت کا افادہ کرے گا،اور جب سند قطعی ہوتو اجماع تاکید کا فائدہ دے گا،جیسا کہ ان نصوص میں ہو تا ہے جو ایک حکم کو تقویت دیتی ہیں،پس (اس طرح)اجماع ادلہ اربعہ کے درمیان ایک لغو دلیل نہ ہو گا۔
توضیح:(واذا کان قطعیا فہویفید التاکید کما فی النصوص المتعاضدۃ علٰی حکم واحد)سے واضح ہے کہ سند اجماع جب قطعی ہوتو اجماع صرف اس کی تقویت وتاکیدکرے گا۔وہ قطعی حکم اجماع سے ثابت نہیں ہوگا۔
اجماع متصل کے انکار کا حکم:
میرسید شریف جرجانی حنفی نے رقم فرمایا:((خرق الاجماع)مطلقًا(لیس بکفر)
بل خرق الاجماع القطعی الذی صارمن ضروریات الدین)
(شرح مواقف:ص727-مطبع نول کشورلکھنو)
توضیح: ایسے قطعی اجماعی امر کا انکارکفر ہے جو اجماعی امر ضروریات دین سے ہو۔ ضروریات دین میں جواجماع ہوتا ہے،اس کو اجماع متصل کہا جاتا ہے۔یہ اجماع شرعی (اجماع مجرد) نہیں ہے۔ اجماع شرعی کا انعقاد عہد رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد ہوتا ہے،جب کہ اجماع متصل عہد رسالت میں منعقد ہوتا ہے۔
اجماع متصل سے مراد یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے صحابہ کرام کی کثیر تعداد نے کوئی حکم شرعی سماعت کیا،جن کی خبر، خبر متواتر ہو جا ئے،پھر دیگر صحابہ کرام کو تواتر کے ساتھ وہ حکم شرعی موصو ل ہو،اور اس حکم پرحضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا اتفاق ہوجائے،کیوں کہ وہ امرحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متواتر ہے، پس اسی اتفاق کا نام اجماع متصل ہے،ایسے امردینی کو اجماعی کہا جاتا ہے اور ایساامردینی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متواتر ہوتا ہے تو اسے امرمتواتر بھی کہا جاتا ہے۔ ایسے تمام امور ضروریات دین سے ہیں۔
اجماع متصل اور اجماع مجرد کے انکار کا حکم
علامہ میرسید شریف جرجانی نے رقم فرمایا::((ولایکفراحد من اہل القبلۃ الا بما فیہ نفی الصانع القادرالعالم-اوشرک-او انکار النبوۃ-اوانکارما علم مجیۂ علیہ الصلٰوۃ والسلام ضرورۃً-اوانکارالمجمع علیہ کاستحلال المحرمات)التی اجمع علٰی حرمتہا-فان کان ذلک المجمع علیہ مما علم ضرورۃً من الدین فذاک ظاہر داخل فیما تقدم ذکرہ-والا فان کان اجماعًا ظنیًّا فلا کفربمخالتفہ-وان کان قطعیًّا ففیہ خلافٌ(واما ماعداہ فالقائل بہ مبتدع غیرکافر-وللفقہاء فی معاملتہم خلاف-ہو خارج عن فَنِّنَا))(شرح مواقف:ص762-مطبع نول کشورلکھنو)
توضیح:منقولہ بالا اقتباس میں اجماع متصل سے ثابت شدہ امور اور اجماع مجردسے ثابت شدہ اجماعی امورکے انکار کا حکم بیان کیا گیا ہے۔اجماع مجرد اجماع شرعی ہے، یعنی مجتہدین اسلام کا کسی امر پراجماع۔ اجماع مجردکا انعقاد عہد رسالت کے بعدہوگا۔
(والا فان کان اجماعًا ظنیًّا فلا کفربمخالتفہ-وان کان قطعیًّا ففیہ خلافٌ(واما ماعداہ فالقائل بہ مبتدع غیرکافر)کامفہوم یہ ہے کہ اجما ع قطعی یعنی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے اجماع منصوص(اجماع قولی) سے جو امر ثابت ہو،اس کے انکار میں اختلاف ہے۔ فقہائے احناف کے یہاں اس کا انکار کفر ہے، اور متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی ہے۔ایسا امر ضروریات اہل سنت میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ جو اجماع ہے،وہ ظنی اجماع ہے۔ اجماع ظنی سے ثابت ہونے والے امورکا انکار متکلمین کے یہاں بدعت ہے۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے اجماع منصوص کے علاوہ مزیدتین قسم کے اجماع شرعی ہیں۔
(۱)حضرات صحابہ کرام کا اجماع سکوتی (۲)مجتہدین غیر صحابہ کا اس امر پر اجماع جس کے بارے میں عہد ماقبل میں اختلاف نہ ہو۔ (۳) مجتہدین غیر صحابہ کا اس امرپراجماع جس میں ماقبل میں اختلاف ہو۔
اجماع ظنی کے احکام
صحابہ کرام کے اجماع سکوتی اورمجتہدین غیر صحابہ کے اجماع سے ثابت ہونے والے مسائل دراصل ظنی ہیں،لیکن فقہا ئے کرام اپنی اصطلاح میں اجماع سکوتی اورمجتہدین غیر صحابہ کے اجماع سے ثابت شدہ مسائل کو بھی قطعی کہتے ہیں۔یہ قطعی کی تیسری قسم ہے۔
مجتہدین غیر صحابہ کے اجماع کی دوقسمیں ہیں۔اگر اس امرمیں صحابہ کرام سے کوئی اختلاف منقول نہیں،اور مابعد کے زمانے میں اس پر اجماع منعقد ہوگیا تو یہ اجماع خبر مشہور کی طرح ہے۔ اس کے انکار پر فقہائے کرام گمرہی کا حکم نافذکرتے ہیں۔
اگر ماقبل میں اختلاف ہوچکا ہو،پھرکسی عہد میں مجتہدین کا اجماع ہواتو اس کی حیثیت خبر واحدکی طرح ہے۔اس کے انکار کا حکم وہی ہے جوخبرواحد کے انکارکاحکم ہے۔
ملا احمد جیون جون پوری قدس سرہ العزیز نے اجماع کے احکام کوبیان کرتے ہوئے رقم فرمایا:((ثم ہو علی مراتب)ای فی نفسہ مع قطع النظر عن نقلہ لہ مراتب فی القوۃ والضعف والیقین والظن(فالاقوی اجماع الصحابۃ نصا)مثل ان یقولوا جمیعا،اجمعنا علی کذا(فانہ مثل الاٰیۃ والخبرالمتواتر)حتی یکفر جاحدہ ومنہ الاجماع علی خلافۃ ابی بکر(ثم الذی نص البعض وسکت الباقون)من الصحابۃ وہو المسمی بالاجماع السکوتی،ولا یکفر جاحدہ وان کان من الادلۃ القطعیۃ۔
(ثم اجماع من بعدہم)ای بعد الصحابۃ من اہل کل عصر(علی حکم لم یظہر فیہ خلاف من سبقہم)من الصحابۃ فہو بمنزلۃ الخبر المشہوریفید الطمانیۃ دون الیقین(ثم اجماعہم علی قول سبق فیہ مخالف)یعنی اختلفوا اولا علی قولین،ثم اجمع من بعدہم علی قول واحد،فہذا دون الکل فہو بمنزلۃ خبر الواحد یوجب العمل دون العلم،ویکون مقدما علی القیاس کخبر الواحد)(نورالانوارص223-222:طبع ہندی)
توضیح: منقولہ بالا عبارت میں اجماع مجردکی چار قسموں کا ذکر ہے۔حضرات صحابہ کرام کے اجماع منصوص واجماع سکوتی کا ذکر ہے، اور حضرات مجتہدین غیرصحابہ کے دونوں قسم کے اجماع کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ان احکام کا خلاصہ ماقبل میں مرقوم ہے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ: یکم ستمبر2021
٭٭٭٭٭
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں