بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر اور ملااحمد جیون کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت

ایک دلچسپ واقعہ اور حیرت انگیز 

بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر اور ملااحمد جیون کی بارگاہ میں نذرانۂ عقیدت
************************************
🌾 *اور محنت و حلال کمائی کی برکت* 🌾

ماضی میں کچھ ایسے نیک خصائل سلاطین و بادشاہان  گزرے ہیں جنہیں علمائے کرام سے بہت محبت و عقیدت رہی ہیں اور  ان کی عزت وتعظیم کرنا وہ خود کے لئے فخر وشان کی بات سمجھتے تھے یہی وجہ تھی کہ ان کی حکومتیں اس زمانہ میں قابل رشک اور ناقابل تسخیر  بنی رہیں ۔ان عظیم شاہان و سلاطین میں سے بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر بھی ہیں ۔شیخ احمد بن ابو سعید عرف ملا احمد جیون  آپ کے استاد تھے۔ 
حضرت ملا جیون علیہ الرحمہ سنہ1047ھ میں امیٹھی میں پیدا ہوئے آپ کا نسب نامہ خلیفہ اول صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ تک  پہنچتا ہے  والد بزرگوار کانام ابو سعید ہے اور آپ کی والدہ شاہ عالمگیر کے داروغۂ مطبخ میر آتش عبد اللہ عرف نواب عزت خان امیٹھوی کی ہمشیرہ محترمہ تھیں آپ کا خاندان علم وتقویٰ کے لحاظ سے مضافات لکھنو میں نہایت مقبول اور مرجع خاص وعام تھا۔ آپ نے مدینہ منورہ میں نورالانوار کی تصنیف فرمائی اس کے علاوہ تفسیرات احمدیہ بھی آپ کی شاہکار تصنیف ہے(۱)۔
            بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر اپنے استاد کا بہت احترام کرتے تھے اور استاد بھی اپنے شاگرد پر فخر کرتے تھے جب اورنگ زیب ہندوستان کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے غلام کے ذریعہ استاد کو پیغام بھیجا کہ وہ کسی دن دہلی تشریف لائیں اور خدمت کا موقع دیں اتفاق سے وہ رمضان کا مہینہ تھا اور مدرسہ کے طالب علموں کی بھی چھٹیاں تھیں چنانچہ انہوں نے دہلی کا رخ کیا استاد اور شاگرد کی ملاقات عصر کی نماز کے بعد دہلی کی جامع مسجد میں ہوئی ۔استاد کو اپنے ساتھ لے کر اورنگ زیب شاہی قلعہ کی طرف چل پڑے ۔  *رمضان کا پورا مہینہ اورنگ زیب اور استاد نے اکٹھے گزارا ۔۔عید کی نماز اکٹھے ادا کرنے کے بعد ملاجیون نے واپسی کا ارادہ ظاہرکیا  بادشاہ نے ایک چونّی نکال کر اپنے استاد کو پیش کی۔ استاد نے بڑی خوشی سے نذرانہ قبول کیا اور گھر کی طرف چل پڑے*۔
اس کے بعد اورنگ زیب دکن کی لڑائیوں میں  اتنے مصروف ہوئے کہ 14 سال تک دہلی آنا نصیب نہ ہوا جب وہ واپس آئے تو وزیر اعظم نے بتایا ۔ملا احمد جیون ایک بہت بڑے زمیندار بن چکے ہیں اگر اجازت ہوتو ان سے لگان وصول کیا جائے یہ سن کر اورنگ زیب حیران رہ گئے کہ ایک غریب استاد کس طرح زمیندار بن سکتا ہے۔ انہوں نے استاد کو ایک خط لکھا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔ملا احمد جیون پہلے کی طرح رمضان شریف کے مہینے میں تشریف لائے اورنگ زیب نے بڑی عزت کے ساتھ انھیں اپنے پاس ٹھرایا۔ ملا احمد کا لباس، بات چیت اور طور طریقے پہلے ہی کی طرح سادہ تھے اس لئے بادشاہ ان سے بڑا زمیندار بننے کے بارے میں پوچھنے کا حوصلہ نہ جٹاپائے ایک دن ملا صاحب خود کہنے لگے " آپ نے جو چونّی دی تھی وہ بڑی بابرکت تھی میں نے اس سے بنولہ (کپاس کی بیج) خرید کر کپاس کی کاست کی ۔خدا نے اس میں اتنی برکت دی کہ چند سالوں میں سیکڑوں سے لاکھوں ہوگئے اورنگ زیب یہ سن کر خوش ہوئے اور مسکرانے لگے اور کہا کہ اگر اجازت ہو تو چونی کی کہانی سناؤں ملا صاحب نے کہا ضرور سنائیں ۔
اورنگ زیب اپنے خادم کو حکم دیا کہ چاندنی چوک کے سیٹھ "اتم چند "کو فلاں تاریخ کے کھاتے کے ساتھ پیش کرو سیٹھ اتم چند ایک معمولی بنیا تھا اسے اورنگ زیب کے سامنے پیش کیاگیا تو وہ ڈر کے مارے کانپ رہاتھا اورنگ زیب نے نرمی سے کہا کہ آگے آجاؤ اور بغیر کسی گھبراہٹ کے کھاتہ کھول کر خرچ کی تفصیل بیان کرو  سیٹھ اتم چند نے اپنا کھاتا کھولا تاریخ وخرچ کی تفصیل بتانے لگا ۔
ملااحمد جیون اور اورنگ زیب خاموشی سے سنتے رہے ایک جگہ آکر سیٹھ رک گیا یہاں خرچ کے طور پر ایک چونی درج تھی لیکن اس کے سامنے لینے والے کانام نہیں تھا اورنگ زیب نے نرمی سے پوچھا کہ ہاں بتاؤ یہ چونی کہاں گئی ؟ 
اتم چند نے کھاتا بند کیا اور کہنے لگا اگر اجازت ہو تو درد بھری داستان عرض کروں ۔
بادشاہ نے کہا اجازت ہے ۔اس نے کہا اے بادشاہ وقت ! ایک رات موسلادھار بارش ہوئی میرا مکان ٹپکنے لگا مکان نیانیا بناتھا تمام کھاتے کی تفصیل بھی اسی مکان میں تھی میں نے بڑی کوشش کی ،لیکن چھت ٹپکتی رہی میں نے باہر جھانکا تو ایک آدمی لالٹین کے سامنےکھڑا نظر آیا میں نے مزدور خیال کرتے ہوئے پوچھا ۔اے بھائی مزدوری کروگے وہ بولا کیوں نہیں ۔وہ کام پرلگ گیا اس نے تقریبا تین چار گھنٹے کام کیا جب مکان ٹپکنا بند ہوگیا تو اس نے اندر آکر تمام سامان درست کیا اتنے میں صبح کی اذان شروع ہوگئی وہ کہنے لگا سیٹھ صاحب آپ کا کام مکمل ہوگیا مجھے اجازت دیجئے ۔میں نے مزدوری دینے کی غرض سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک چونّی نکلی میں نے اس سے کہا کہ اے بھائی ! ابھی میرے پاس یہی چونی ہے یہ لے اور صبح دکان پر آنا تمہیں مزدوری مل جائے گی وہ کہنے لگا یہی چونی کافی ہے میں پھر حاضر نہیں ہوسکتا میں نے اور میری بیوی نے اس کی بہت منتیں کی لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا  دیتے ہوتو یہ چونی دو ورنہ رہنے دو میں نے مجبور ہوکر چونی دے دی اور وہ لے کر چلاگیا اور اس کے بعد سے آج تک وہ نہ مل سکا   آج اس بات کو پندرہ برس بیت گئے میرے دل نے مجھے بہت ملامت کی کہ اسے روپیہ نہ سہی اٹھنی دے دیتا اس کے بعد اتم چند نے بادشاہ سے اجازت چاہی اور چلاگیا  *بادشاہ نے شیخ ملا احمد جیون سے کہا کہ یہ وہی چونی ہے کیونکہ میں اس رات بھیس بدل کرگیا تھا*  *تاکہ رعایا کا حال معلوم کرسکوں* سو وہاں میں نے مزدور کے طور پر کام کیا ملا صاحب خوش ہوکر کہنے لگے  مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ چونی میرے ہونہار شاگرد نے اپنی محنت سے کمائی ہوگی۔ اورنگ زیب نے کہا کہ ہاں واقعی اصل بات یہ ہے کہ میں نے شاہی خزانہ سے اپنے لئے بھی ایک پائی بھی نہیں لی ہفتہ میں دودن ٹوپیاں بناتاہوں اور دودن مزدوری کرتاہوں میں خوش ہوں کہ میری وجہ سے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوئی یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے(۲)
محنت و حلال کی کمائی میں برکت ہے اس میں کسی کو شک نہیں لیکن یہ محنت وحلال کی کمائی کسی کو نذرانہ میں دیا جائے تو وہ بھی نہال ہوجاتا ہے ۔ بادشاہ محی الدین اورنگ عالمگیر(مدت حکومت1658تا1707) ایک انصاف ور ، امین ،شجاع ، عالم، غیر متعصب حاکم اور قابل رشک سلطان گزرے ہیں تاریخ ہند اس پر جتنی ناز کرے کم ہے۔ متعصبین کی کورنگاہی اس عظیم شمعِ ہند کی تابانیوں کو مدہم نہیں کرسکتی ۔آپ علماء نواز اور علماء دوست بھی تھے  جس پر یہ واقعہ شاہد عدل ہے نیز آپ ہر معاملہ کی تحقیقات کرنا اور رعایا کے حالات کا از خود جائزہ لینا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے اور آپ کا عظیم کارنامہ فتاویٰ عالمگیری ہے جو علمائے محققین اور مفتیان کاملین کی مجموئی کاوشوں کا نتیجہ تھا اس کو معرض وجود میں لانا ہے  ۔اللہ رب العزت آپ اور آپ کے استاد علیھما الرحمہ کے مرقد پر  تا قیام قیامت رحمت و انوارکی بارش برسائے  اور جنت الفردوس  کو ٹھکانا بنائے۔ آمین ۔
ماخذ ۔( ۱) آزاد دائرة المعارف ویکیپیڈیا گوگل ، اشرف الانوارشرح نور الانوار ص٦۔
(۲)اورنگ زیب چہار صدی نمبر ۔نئی دنیا کی اہم پیشکش نومبر ۲۰۱۸۔
📝محمد منصور عالم نوری مصباحی ۔ خادم الطلباء دارلعلوم عظمت غریب نواز پوسد مہاراشٹر ۔
(نوٹ ۔۔۔ یہ مضمون تین سال پہلے ترتیب دیا گیا تھا، قدر ترمیم کے ساتھ پیش ہے )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے