Header Ads

مسلمانوں کی ہلاکت وبربادی کی سازشیں

مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما

مسلمانوں کی ہلاکت وبربادی کی سازشیں 

تحریک آزادی کے عہد میں ہی مسلمانوں کوہلاک وبرباد کرنے کی سازشیں ہوتی رہیں،تاکہ مسلمان فنا کے گھاٹ اتر جائیں،یا بے دست وپا اورمجبورومقہورہوجائیں تو ہمیں بلا شرکت غیرے بھارت میں حکمرانی کا موقع مل جائے۔ہندو لیڈران اسی ساز ش کے مطابق منصوبہ بندی کرتے رہے اور دیابنہ،وہابیہ ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔

(1)اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:
”دشمن اپنے دشمن کے لیے تین باتیں چاہتاہے:

اول:اس کی موت کہ جھگڑا ہی ختم ہو۔

دوم: یہ نہ ہو تو اس کی جلاوطنی کہ اپنے پاس نہ رہے۔

سوم:یہ بھی نہ ہو سکے تو اخیر درجہ اس کی بے پری کہ عاجز بن کررہے۔مخالف نے یہ تینوں درجے ان پر طے کردئیے اور ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔ خیر خواہی سمجھے جاتے ہیں۔

اولاً: جہاد کے اشارے ہوئے۔اس کا کھلا نتیجہ ہندوستان کے مسلمانو ں کا فنا ہونا تھا۔

 ثانیا:جب یہ نہ بنی، ہجرت کا بھرادیاکہ کسی طرح یہ دفع ہو، ملک ہماری کبڈیاں کھیلنے کو رہ جائے۔یہ اپنی جائدادیں کوڑیوں کے مول بیچیں، یایوں ہی چھوڑ جائیں، بہرحال ہمارے ہاتھ آئیں۔ ان کی مساجد ومزارات اولیا ہماری پامالی کو رہ جائیں۔

ثالثا:جب یہ بھی نہ نبھی تو ترک موالات کا جھوٹا حیلہ کرکے ترک معاملت پر ابھارا ہے کہ نوکریاں چھوڑدو،کسی کو نسل، کمیٹی میں داخل نہ ہو، مال گزاری،ٹیکس کچھ نہ دو،خطابات واپس کردو۔ امر اخیر تو صرف اس لیے ہے کہ ظاہری نام کادنیوی اعزاز بھی کسی مسلمان کے لیے نہ رہے اور پہلے تین اس لیے کہ ہر صیغہ وہر محکمہ میں صرف ہنود رہ جائیں۔

 جہاں ہنود کا غلبہ ہوتاہے،حقوق اسلام پر جو گزرتی ہے، ظاہر ہے۔ جب تنہاوہی رہ جائیں گے تو اس وقت کااندازہ کیا ہوسکتاہے۔ مال گزاری وغیرہ نہ دینے پر کیا انگریز چپ بیٹھے رہیں گے؟ ہر گز نہیں۔ قر قیاں ہو ں گی، تعلیقے ہوں گے،جائدادیں نیلام ہوں گی اور ہندوخریدیں گے۔ نتیجہ یہ کہ مسلمان صرف قلی بن کر رہ جائیں۔ یہ تیسرا درجہ ہے۔

 دیکھا تم نے قرآن عظیم کا ارشاد کہ:”وہ تمھاری بدخواہی میں گئی نہ کریں گے“۔ان کی دلی تمنا ہے کہ تم مشقت میں پڑو:والعیاذباللہ تعالیٰ“۔
(فتاویٰ رضویہ:14:ص537-جامعہ نظامیہ لاہور)

 ہندولیڈروں نے مسلمانوں کو جہاد کے لیے بھی ابھارا، ہجرت کی ترغیب بھی دی اور بعض مسلمان ہجرت کرکے افغانستان چلے بھی گئے تھے،پھر واپس آئے۔ہندولیڈر وں کی منصوبہ بندی کے اعتبارسے دیابنہ اور وہابیہ قرآن وحدیث کے معانی اور شرعی احکام میں تحریف کرتے،اور بعض مسلمان ان کے دھوکے میں آجاتے۔عوام مسلمین کا بڑا طبقہ اان کے شر سے محفوظ رہا۔اس وقت سنی مسلمانوں کی تعداد نوے فی صدتھی۔

پہلی جنگ آزادی:1857 کے وقت بادشاہ اسلام(سلطان غازی بہادر شاہ ظفر 1775-1862)موجود تھے، فوجی قوتیں آمادۂ پیکار اور مستعد تھیں،اورمقابلہ کی قوت بھی تھی،پس حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی قدس سرہ العزیز نے جہاد کا فتویٰ صادر فرمایا۔بعد کے زمانوں میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادر ی علیہ الرحمۃ والرضوا ن نے بھارتی مسلمانوں کو جہاد کا حکم نہیں دیا،کیوں کہ انڈیا میں کوئی بادشاہ اسلام نہ تھا۔

(2)امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”جہاد سنانی:ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ بہ نصوص قرآن عظیم ہم مسلمانان ہند کو جہاد برپا کرنے کا حکم نہیں اور اس کا واجب بتانے والا مسلمانوں کا بدخواہ مبین۔یہاں کے مسلمانوں کو جہاد کا حکم اور واقعہ کربلا سے لیڈرا ن کا استناد اغوائے مسلمین:بہکانے والے یہاں واقعہ کربلا پیش کرتے ہیں، یہ ان کا محض اغوا ہے۔اولا ًاس لڑائی میں ہر گز حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے پہل نہ تھی۔امام نے خبیث کوفیوں کے وعدہ پر قصد فرمایا تھا، جب ان غداروں نے بد عہدی کی، قصد رجوع فرمایا اور جب سے شروع جنگ تک اسے بارباراحباب واعدا سب پر اظہار فرمایا“۔
 (فتاوی رضویہ:جلد 14:ص540-جامعہ نظامیہ لاہور)

(3) امام اہل سنت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:”سلطان اسلام جس پر اقامت جہاد فرض ہے،اسے بھی کافروں سے پہل حرام،جب کہ ان کے مقابلہ کے قابل نہ ہو۔

 مجتبیٰ و شرح نقایہ وردالمحتار کی عبارت گزشتہ:
(ھذا اذا غلب علٰی ظنہ انہ یکافیہم والا فلا یباح قتالہم)
(یہ اس وقت ہے جب گمان غالب ہو کہ ان کے مقابلہ کے قابل ہے،ورنہ ان سے لڑنا حلال نہیں۔ ت)کے بعد ہے:(بخلاف الامر بالمعروف)(امر بالمعروف کاحکم اس کے خلاف ہے۔ ت) 

شرح سیر میں اس کی وجہ بیان فرمائی:(ان المسلمین یعتقدون ما یأمربہ فلا بد ان یکون فعلہ مؤثرا فی باطنہم بخلاف الکفار)
امر بالمعروف میں مسلمانوں کو جو حکم دے گا،وہ دل سے اسے حق جانتے ہیں توضرور اپنے دل میں اس کے فعل سے متاثر ہوں گے بخلاف کفار“۔
(فتاویٰ رضویہ:جلد14:ص543-جامعہ نظامیہ لاہور)

اقامت جہادکاحکم بادشاہ اسلام کو ہے۔ہاں،اگر کسی جگہ مسلمانوں پر حملہ ہوتو حملہ آوروں کوروکنے کا ضرورحکم ہے،جیسے کوئی کسی کو قتل کرنے آئے تووہ قاتل کوقتل کرسکتا ہے۔

(4)امام اہل سنت قدس سرہ العزیزنے رقم فرمایا:”اس مضمون کی اور آیات،نیز وہ عبارات ہدایہ وغیرہا قریب آنے والیاں کہ جہاد میں پہل واجب ہے، ان کا تعلق سلاطین اسلام و عساکر اسلام اصحاب خزائن واسلحہ واستطاعت سے ہے،نہ کہ ان کے غیر سے۔
قال اللّٰہ تعالٰی:(لایکلف اللّٰہ نفسًا الا وسعہا)

اللہ تعالیٰ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا،مگر اس کی طاقت بھر۔ 
وقال تعالٰی:(لایکلف اللّٰہ نفسا الا ما اٰتٰھا)

اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا،مگر اتنے کی جس قدر کی استطاعت اسے دی ہے۔
وقال تعالٰی:(لا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ)
 اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

مجتبٰی وجامع الرموز وردالمحتار میں ہے:(یجب علی الامام ان یبعث سریۃ الی دارالحرب کل سنۃ مرۃ اومرتین-وعلی الرعیۃ اعانتہ،الا اذا اخذ الخراج -فان لم یبعث کان کل الاثم علیہ-وھذا اذا غلب علٰی ظنہ انہ یکافیہم والا فلایباح قتالہم)

سلطان اعظم اسلام پر فرض ہے کہ ہر سال ایک یادو بار دارالحرب پر لشکر بھیجے،اور رعیت پر اس کی مدد فرض ہے،اگر ان سے خراج نہ لیا ہو، تو سلطان اگر لشکر نہ بھیجے تو ساراگناہ اسی کے سر ہے۔ یہ سب اس صورت میں ہے کہ اسے غالب گمان ہو کہ طاقت میں کافروں سے کم نہ رہے گا، ورنہ اسے ان سے لڑائی کی پہل ناجائز ہے۔ 

خصوصاً ہندوستان میں جہاں اگر دس مسلمان ایک مشرک کو قتل کریں تو معاذاللہ دسو ں کو پھانسی ہو، ایسی جگہ مسلمانوں پر جہاد فرض بتانے ولا شریعت پر مفتری اور مسلمانوں کا بدخواہ ہے“۔ (فتاویٰ رضویہ:جلد 14:ص447-جامعہ نظامیہ لاہور)

وضاحت:یہ تمام اقتباسات امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے رسالہ:المحجۃ المؤتمنۃ فی آیۃ الممتحنہ“کے ہیں۔درج ذیل رسائل میں گاندھوی ملاؤں کی غلط حرکات کا ذکر ہے۔

(1) انفس الفکرفی قربان البقر(گائے کی قربانی سے متعلق غلط افکاروخیالات کا رد) 

(2)دوام العیش فی الائمۃ من قریش(خلافت اسلامیہ کے شرائط کا بیان)

(3)المحجۃ المؤتمنۃ فی آیۃ الممتحنہ (کفارسے تعلقات اور سلوک کے شرعی احکام)

طارق انور مصباحی 

جاری کردہ;22:جون 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے