ایک جملے نے دنیا بدل دی

ایک جملے نے دنیا بدل دی

✍️ازقلم:
شیخ الحدیث مفتی محمد حسان عطاری صاحب 

بعض اوقات استاد یا کسی بڑی شخصیت کا فقط ایک جملہ طالب علم کی زندگی ہی بدل ڈالتا ہے۔ اور امت کو اس سے وہ فائدہ پہنچتا ہے جو اس جملے کہنے والے کے تصور میں بھی نہیں ہوتا ۔ صرف ایک بات فرش سے عرش تک پہنچا دیتی ہے۔  

چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
◇ امام شمس الدین ابو عبد الله محمد بن احمد ذہبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ جو اسماء الرجال کے امام کامل ہیں اور اہل استقرائے تام سے تعلق رکھتے ہیں اپنے شیخ امام برزالی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں: 
       *هو الذي حبب إلي طلب الحديث فإنه رأی خطي فقال: خطک يشبه خط المحدثين فأثر قوله في وسمعت منه وتخرجت به في أشياء.*
        یہ وہی ہے جنہوں نے مجھے طلب حدیث کا شوق دلایا، انہوں نے میری لکھائی دیکھ کر فرمایا: تمھاری لکھائی محدثین جیسی ہے، انکا یہ قول میرے دل میں گھر کر گیا اور میں نے ان سے سماع کیا اور ان کے ذریعہ کئی علوم میں مہارت حاصل کی۔ 
(الدرر الکامنة، ٣\٢٣٨ )، (تاريخ الاسلام، ٥٣\٤٥٦)، (فهرس الفهارس والأثبات، ١\٢٢٠)

امام برزالی رحمہ اللہ تعالی نے تو ایک جملہ ارشاد فرمایا، لیکن اس کے بدلے امت کو "تاریخ اسلام"، "سیر اعلام النبلاء"، "تذكرة الحفاظ"، "میزان الاعتدال"، "تذہیب تہذیب الکمال" اور "الکاشف" جیسی بلند پایہ کتب امت کو امام ذہبی کے قلم سے نصیب ہوئیں۔

◇ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی عظیم کتاب "الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول الله صلی الله علیه وسلم وسننه وأیامه" جسے ہم "صحیح بخاری" کے نام سے جانتے ہیں اس کتاب کا محرک بھی امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے استاذ محترم اسحاق بن راھویہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا ایک جملہ بنا۔
     چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنی اس کتاب کے لکھنے کا ایک سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : 
     *میں امام اسحاق بن راہویہ کی بارگاہ میں حاضر تھا کہ آپ نے فرمایا: کاش تم میں سے کوئی ایک ایسی کتاب لکھے جس میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث ہوں ۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ بات میرے دل میں اتر گئی لہذا میں اس کتاب کو جمع کرنے میں لگ گیا۔*
(ملخصا من التوضيح لابن ملقن، ٢\٢٨) ،(تغليق التعليق لابن حجر، ٥\٤١٩)، (تهذيب الأسماء للنووي، ١\٧٤)، (تاريخ ابن عساکر، ٥٢\٧٢)، (البحر الذي ذخر للسيوطي، ٢\٥٢١)

◇ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ تعالی علیہ جن کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں. ابتداء صرف کاروبار میں ہی مشغولیت تھی آپ کو امام اعظم بنانے والی شخصیت بھی آپ کے استاد محترم امام عامر بن شراحبیل الشعبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا ایک جملہ ہی تھا۔  
عقود الجمان ميں ہے:
    *روی أبو محمد الحارثي بسنده عن الإمام أبي حنيفة قال: مررت يوما علی الشعبي وهو جالس فدعاني وقال إلی ما تختلف؟ فقلت أختلف إلی فلان ،قال: لم أعن السوق عنيت الاختلاف إلی العلماء، فقلت: أنا قليل الاختلاف إليهم ، فقال: لا تفعل وعليک بالنظر في العلم ومجالسة العلماء فإني أری فيک يقظة وحرکة، قال: فوقع في قلبي من قوله فترکت الاختلاف أي إلی السوق وأخذت العلم فنفعني الله بقوله.*
     ابو محمد عبد اللہ حارثی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اپنی سند سے امام ابو حنیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ایک دن میں امام شعبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے پاس سے گزرا تو وہ بیٹھے تھے انہوں نے مجھے بلایا اور فرمایا: کہاں آنا جانا رکھتے ہو؟ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا : فلاں کے پاس جاتا ہوں ۔ امام شعبی نے فرمایا: میری مراد بازار نہیں بلکہ علماء کے پاس جانا تھا۔ اس پر میں نے کہا: میں انکے پاس کم ہی جاتا ہوں۔ *انہوں نے فرمایا: ایسا نہ کرو بلکہ تمہیں تو علم وعلماء کی مجالس کی طرف توجہ دینی چاہيے بے شک میں نے تم میں بیدار مغزی وذہانت دیکھی ہے۔*
امام اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں ان کی اس بات نے مجھ پر بہت اثر کیا اور میں نے کاروبار ترک کیا اور علم حاصل کرنے لگا۔ اللہ پاک نے ان کی بات کی وجہ سے مجھے بہت نفع عطا فرمایا ۔ 
(عقود الجمان، ورق 64، مخطوط)

◇ امام حسن بن زیاد رحمۃ اللہ تعالی علیہ فقہ حنفی کے عظیم پیشوا ہیں آپ کے استادوں میں امام زفر اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہما جیسی عظیم ہستیاں شامل ہیں۔
آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: میں علم حاصل کرنے کے لیے پہلے امام زفر رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے پاس جایا کرتا تھا جو مسئلہ مجھ پر دشوار ہوتا میں ان سے اس مسئلے کے متعلق سوال کرتا تو وہ میرے لیے اس مسئلے کی وضاحت کرتے لیکن میں سمجھ نہیں پاتا تھا بالآخر جب میں نے انہیں تھکا دیا تو انہوں نے فرمایا: تیری خرابی ہو نہ تم میں صلاحیت ہے اور نہ ہی تمہیں کوئی نفع ہوتا ہے مجھے نہیں لگتا ہے تم کبھی کامیاب ہو پاؤ گے۔
حسن بن زیاد فرماتے : پھر میں انکے یہاں شکستہ دل و غمگین ہوکر نکل کر ابو یوسف کے پاس آتا تو وہ میرے لیے مسئلہ کی تفصیل کرتے جب میں سمجھ نہیں پاتا تو مجھ سے کہتے: ٹھہر جاؤ، پھر مجھ سے پوچھتے: کیا اس وقت بھی تم ویسے ہی ہو جیسے تم نے شروعات کی تھی؟ میں کہتا: نہیں، کچھ چیزیں سمجھ آئی ہیں اگرچہ اپنی چاہت کے مطابق مکمل سمجھ نہیں پایا ہوں، تو آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے: جو بھی چیز کم ہوتی ہے آخر کار اپنی غایت کو پہنچ ہی جاتی ہے تم صبر کرو مجھے لگتا ہے کہ تم اپنی مراد کو پہنچ ہی جاؤ گے. حسن بن زیاد فرماتے ہیں: کہ مجھے انکے صبر سے حیرت ہوتی۔ 

("حسن التقاضی فی سیرۃ الامام ابی یوسف القاضی"، ص ۵۹)

استاد کے کہے پر عمل کیا تو بالآخر ایک وقت آیا آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ امامت کے درجہ پر پہنچ ہی گئے۔
اس کی اور بھی مثالیں موجود کسی اور تحریر میں بیان کریں گے ان شاء اللہ عزوجل۔
بہرحال حوصلہ افزائی کریں حوصلہ شکنی نہ کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے