( ایک مختصر جائزہ )
غامدی صاحب کے کام کا جائزہ یہ ہے کہ:
نمبر 1
غامدی صاحب صرف اشکالات اٹھانا جانتے ہیں ۔۔۔۔
نمبر 2
ان کی فکر میں ٹھراؤ نہیں ہے ، ارتقاء پذیر ہے ۔۔۔۔
نمبر 3
پھر کوئی بھی تحقیق ان کی اپنی نہیں ہے ، زیادہ تر چیزیں انہوں نے اپنے استاد ۔۔۔۔
امین احسن اصلاحی سے مستعار( ادھار) لی ہیں۔
دوسری
شخصیت وحید الدین خان کی ہے۔۔۔
تیسری
روایات کے حوالے سے بیشتر دلائل حبیب الرحمان کاندھلوی سے مستعار لئے ہیں ۔۔۔۔
کافی دلائل من و عن مولانا کی کتاب
" مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت "
سے اٹھائے گئے۔۔۔۔۔
چوتھی
اور سب سے عجیب تر بات ۔۔۔۔
خاص کر نزول مسیح کے موضوع پر غامدی صاحب کے تمام دلائل مرزا غلام احمد ق۔ا۔د۔ی۔ا۔ن۔ی سے مستعار ہیں ۔۔۔۔۔
پانچویں
معجزات میں غامدی صاحب ، سر سید کی تفسیر سے استفادہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔۔
( اگر اسی کو فکری کام کہتے ہیں ۔۔۔۔۔تو کچھ مشکل نہیں ۔۔۔۔۔آپ لکھنا جانتے ہیں تو قدیم و جدید اہل علم کی کتابوں سے مواد لیجئے اور اپنے نام سے پیل دیجئے ۔۔۔۔آپ بھی " مجدد دوراں " اور " فقیہ وقت " بن جائیں گے۔)
نمبر 4
غامدی صاحب کے بہت سے نظریات قرآن و حدیث کے صریح نصوص کے خلاف اور اہلِ سنت و جماعت کے اجماعی و اتفاقی عقائد سے متصادم ہیں۔
( آگے مثالیں موجود ہیں )
نمبر 5
غامدی صاحب تحریک استشراق کا اسلامی نمونہ ہیں۔
اگر کوئی کہتا ہے کہ
غامدی صاحب مسلم امت کے مذھبی فکر کی تشکیل نو کر رہے ہیں۔۔۔۔۔
جس کے اثرات مستقبل میں بہت وسیع و عمیق ہوں گے ۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ:
کسی بھی مفکر کے ماننے والوں کا معیار اور رویہ۔۔۔۔
اس مفکر کی فکری خوبی یا خامی کو واضح کر دیتا ہے ..........
تھوڑا غور کریں تو۔۔۔۔
ایک ایسی جنریشن generation جو اپنی اصل میں دین سے ناواقف ۔۔۔۔
سلف ( بزرگوں) سے دور ۔۔۔۔
اور مغرب سے مرعوب و مرغوب ہے ۔۔۔۔
یہ غامدی صاحب کی کل کمائی ( پیروکار) ہے ۔۔۔۔۔۔
مزید یہ کہ
غامدی صاحب کے کارنامے کم از کم موجودہ حالات میں ۔۔۔۔
عوام میں کبھی بھی پذیرائی نہیں پا سکتے۔۔۔۔۔
اس کام کو جتنا عوامی کیا جائے گا۔۔۔۔
مخالفت اور پروپیگنڈے کی شدت میں اتنا ہی اضافہ ہوگا !!
یہ بات جناب غامدی صاحب پورے شعور کے ساتھ سمجھتے ہیں !!
لیکن
غامدی صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ ۔۔۔۔
نئے اسلام ( مغرب زدہ اسلام) کی ترویج و اشاعت کے لئے ۔۔۔
غامدی صاحب کا یہ (فسادی) کام ریفرنس کے طور پر آنے والی صدیوں میں استعمال ہوگا،
اس وقت تک
ہم عصروں کی فطری اور تاریخی چپقلش بھی دم توڑ چکی ہوگی ،
دوسرا
غامدی صاحب فنا و قدیم ہو کر مقدس بھی ہوچکے ہوں گے ۔۔۔۔
اور متقدمین کی لسٹ کے ممبر بھی بن چکے ہوں گے !
یوں اسلام میں رخنہ اندازی تکمیل کو پہنچے گی ۔۔۔۔
اس گناہ بے لذت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ۔۔۔
غامدی صاحب مستقبل میں عظیم الشان مفکر اور محسن اسلام شمار ہوں گے ۔
اتنا کچھ کافی ہے ۔۔۔۔
یہ معلوم کرنے کیلئے کہ غامدی صاحب کون سی تحقیق فرما رہے ہیں ؟؟!!!
اور ان کی زندگی کی جدو جہد کا مقصود کیا ہے ؟؟!!!
غامدی فکر و تحقیق کے چند شاہکار ملاحظہ کیجئے :
1) عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔ [میزان، علامات قیامت، ص:178،طبع 2014]
2) قیامت کے قریب کوئی مہدی نہیں آئے گا۔
[میزان، علامات قیامت، ص:177،طبع مئی2014]
3) (مرزا غلام احمد ق۔ا۔د۔ی۔ا۔ن۔ی) غلام احمد پرویز سمیت کوئی بھی کافر نہیں، کسی بھی امتی کو کسی کی تکفیر کا حق نہیں ہے۔
[اشراق،اکتوبر2008،ص:67]
4) حدیث سے دین میں کسی عمل یا عقیدے کا اضافہ بالکل نہیں ہوسکتا۔
[میزان، ص:15]
5) سنتوں کی کل تعداد صرف 27 ہے۔ [میزان،ص:14]
6) ڈاڑھی سنت اور دین کا حصہ نہیں ۔ [مقامات، ص:138،طبع نومبر2008]
7) اجماع دین میں بدعت کا اضافہ ہے۔ [اشراق، اکتوبر2011،ص:2]
8) مرتد کی شرعی سزا نبی کریم ﷺ کے زمانے کے ساتھ خاص تھی۔
[اشراق، اگست2008،ص:95]
9) رجم اور شراب نوشی کی سزا شرعی نہیں ہے۔
[برہان،ص:35 تا 146،طبع فروری 2009]
10) اسلام میں ”فساد فی الارض“ اور ”قتل نفس“کے علاوہ کسی بھی جرم کی سزا قتل نہیں ہوسکتی۔
[برہان، ص:146،طبع فروری 2009]
11) قرآن پاک کی صرف ایک قراءت ہے، باقی قراءتیں عجم کا فتنہ ہیں۔[میزان،ص:32،طبع اپریل2002....بحوالہ تحفہ غامدی از مفتی عبدالواحد مدظلہم]
12) فقہاء کی آراء کو اپنے علم و عقل کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔
[سوال وجواب، ہٹس 727، 19جون 2009]
13) ہرآدمی کو اجتہاد کا حق ہے۔
اجتہاد کی اہلیت کی کوئی شرائط متعین نہیں، جو سمجھے کہ اسے " تفقہ فی الدین " حاصل ہے وہ اجتہاد کرسکتا ہے۔
[سوال وجواب،ہٹس 612،تاریخ اشاعت:10 مارچ 2009]
14) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بعد غلبہ دین کی خاطر (اقدامی)جہاد ہمیشہ کے لئے ختم ہے۔
[اشراق، اپریل2011، ص:2]
15) تصوف عالم گیر ضلالت اور اسلام سے متوازن ایک الگ دین ہے۔
[برہان، ص:181، طبع 2009]
16) حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ باغی اور یزید بہت متحمل مزاج اور عادل بادشاہ تھا۔
واقعۂ کربلا سو فیصد افسانہ ہے۔
[بحوالہ غامدیت کیا ہے؟ از مولاناعبدالرحیم چاریاری]
17) مسلم وغیر مسلم اور مرد و عورت کی گواہی میں فرق نہیں ہے۔
[برہان، ص:25 تا 34،طبع فروی 2009]
18) زکاۃ کے نصاب میں ریاست کو تبدیلی کا حق حاصل ہے۔
[اشراق، جون 2008، ص:70]
19) یہود ونصاریٰ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں، اِس کے بغیر بھی اُن کی بخشش ہوجائے گی۔
[ایضاً]
20 ) موسیقی فی نفسہ جائز ہے۔
[اشراق، فروری2008،ص:69]
21) بت پرستی کے لیے بنائی جانے والی تصویر کے علاوہ ہر قسم کی تصویریں جائز ہیں۔
[اشراق،مارچ، 2009، ص:69]
22) بیمہ ( انشورنس ) جائز ہے۔
[اشراق، جون 2010، ص:2]
23) یتیم پوتا ، دادے کی وراثت کا حق دار ہے۔
مرنے والے کی وصیت ایک ثلث (1/3) تک محدود نہیں۔
وارثوں کے حق میں بھی وصیت درست ہے۔
[اشراق، مارچ2008، ص:63 ... مقامات: 140، طبع نومبر2008]
24) سؤر کی نجاست صرف گوشت تک محدود ہے۔
اس کے بال، ہڈیوں، کھال وغیرہ سے دیگر فوائد اٹھانا جائز ہے۔ [اشراق،اکتوبر1998،ص:89....بحوالہ : غامدیت کیا ہے؟]
25) سنت صرف دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا۔
اور یہ قرآن سے مقدم ہے۔
اگر کہیں قرآن کا ٹکراؤ یہود ونصاریٰ کے فکر وعمل سے ہوگا تو قرآن کے بجائے یہود و نصاریٰ کے متواتر عمل کو ترجیح ہوگی ۔[میزان،ص:14،طبع2014]
26) عورت ، مردوں کی امامت کرا سکتی ہے۔[ماہنامہ اشراق، ص 35 تا 46،مئی2005]
27) دوپٹہ ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے، اس کے بارہ میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔۔۔
دوپٹے کو اس لحاظ سے پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے اس کا کوئی جواز نہیں۔[ماہنامہ اشراق، ص 47،شمارہ مئی2002]
28) مسجدِ اقصی پر مسلمانوں کا نہیں ، اس پر صرف یہودیوں کا حق ہے۔
[ اشراق جولائی، 2003اور مئی، جون2004]
29) بغیر نیت، الفاظِ طلاق کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
[اشراق،جون2008،ص:65]
30) سنت صرف افعال کا نام ہے، اس کی ابتدا حضرت محمدﷺ سے نہیں بلکہ ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے۔
(میزان ص 10،65، طبع دوم)
31) سنت صرف 27 اعمال کا نام ہے۔
(میزان ص 10، طبع دوم)
32) حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔
(میزان ص 64 طبع دوم)
33) دین کے مصادر و ماخذ قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیم اور قدیم صحائف ہیں ۔
(میزان ص 48 طبع دوم)
34) دین میں معروف (اچھائی) و منکر (برائی) کا تعین فطرت انسانی کرتی ہے۔
(میزان ص 49)
35) نبیﷺ کی رحلت کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
(ماہنامہ اشراق، دسمبر 2000، ص 55,54)
36) زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے ۔
(قانون عبادات، ص 119)
37) دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا۔
(برہان ص 19,18، طبع چہارم)
38) شادی شدہ اور کنوارے زانی ، دونوں کے لئے ایک ہی سزا 100 کوڑے ہیں۔
(میزان ص 299، 300 طبع دوم)
39) شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے ۔
(برہان ص 138، طبع چہارم)
40) غیر مسلم بھی مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں۔
(میزان ص 171، طبع دوم اپریل 2002)
41) سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے ۔
(ماہنامہ اشراق، اکتوبر 1998ء ص 79)
42) یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں۔
(ماہنامہ اشراق، جنوری 1996ء ص 61)
(یاد رہے کہ یاجوج ماجوج اور دجال قرب قیامت کی نشانیاں ہیں اور یہ دونوں الگ الگ ہیں۔۔۔۔
جبکہ دجال احادیث کی رو سے ایسا شخص ہے جو بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اور اس کی پیشانی پر (ک،ف،ر) لکھا ہوگا جوکہ ہر مومن شخص پڑھ کر اس کو پہچان لے گا۔)
43) عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے (ماہنامہ اشراق، مئی 2005، ص 35تا 46)
44) اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں ہے ۔
(میزان، ص 264، طبع دوم، اپریل 2002)
45) کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا جائز نہیں ۔
(میزان ص 270، طبع دوم اپریل 2002)
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
( دو تین تحریروں کا خلاصہ)
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں