✍️: محمد سلیم رضوی۔
7 جولائی 2024ء
مفسر شہیر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ایک عظیم اور معروف عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم عاشق رسول اور مقبول بارگاہ رسول تھے۔۔۔ آپ کے قلم مبارک سے نکلنے والے عشق و محبت سے لبریز الفاظ جو کہ آپ کے پاکیزہ اور بلند افکار و تخیلات کی نمائندگی کرتے ہیں، ان کا حرف حرف آپ کی محبت کی روشن دلیل ہے۔
آپ کے سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ کثرت سے درود و سلام پڑھنا آپ کا معمول تھا حتی کہ اگر آپ کسی سے گفتگو فرمارہے ہوتے تو وقفہ سکوت میں بھی درود پاک پڑھ لیا کرتے۔۔۔ (حیات حکیم الامت صفحہ، مفتی گل حمید نعیمی، نعیمی کتب خانہ، صفحہ 430)
درود و سلام کی کثرت کا یہ عالم ہی آپ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ مضبوط قلبی و روحانی تعلق کی بہت بڑی دلیل ہے۔
ذرا آبِ عشق میں ڈوبے ہوئے یہ کلمات ملاحظہ کریں، خود فرماتے ہیں:
*"اس گنہگار فقیر احمد یار نے اپنی داڑھی سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پائنتی شریف (پاؤں والی جگہ) کی چوکھٹ جھاڑی ہے۔ خدا کرے یہ داڑھی جو اس آستانے کی جھاڑو بنی ہے میری بخشش کا ذریعہ بن جائے۔* (حیات حکیم الامت بحوالہ مراٰۃ جلد ۸ صفحہ ۶۱)
یہاں قدرے توقف کرکے یہ سمجھ لیں کہ دنیاوی محبتیں یک طرفہ ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں لیکن اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی کامل محبت یک طرفہ نہیں ہوتی بلکہ پہلے اُدھر سے کرم ہوتا ہے پھر یہاں محبت اور یاد دل میں جاگزیں ہوتی ہے۔ جیسا کہ اوپر کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عاشق زار تھے اب ذرا سرکار کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اپنے عاشق پر شفقت و عنایات دیکھیے:
*مفتی صاحب مراۃ المناجیح میں ایک مقام پر لکھتے ہیں:
حضور انور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاتھ مبارک موٹے موٹے تھے، گوشت سے بھرے ہوئے، جیسا کہ اس حدیث میں ذکر ہوا مگر نرم بھی تھے، *اس گنہگار نے ایک بار خواب میں اس دست اقدس کو بوسہ دیا بالکل ایسے ہی دیکھے کہ مصافہ ہوا تو کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا* رب تعالی پھر نصیب کرے۔
خدا نے ان کو اپنے حسن کے سانچے میں ڈھالا ہے
وہ آئے اس جہاں میں سب حسینوں سے حسین ہو کر
(حیات حکیم الامت بحوالہ مراۃ شرح مشکاۃ جلد ۸ صفحہ ۶، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ لاہور)
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
"اس گنہگار فقیر نے ایک صبح کو جالی شریف پر ایسے انوار دیکھے جو بیان نہیں ہو سکتے۔ وہ نظارہ اب تک یاد ہے۔ اللہ پھر دکھائے۔
ایں کرم بار دگر کن
(مراۃ، شرح مشکوۃ، جلد ۸، صفحہ ۱۵۰)
*مولانا عبدالنبی کوکب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کہ جب حضرت حکیم الامت نے "امیر معاویہ پر ایک نظر" کتاب لکھی تو اس موقع پر زیارت نبی سے مشرف ہوئے، سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرما رہے تھے کہ تم نے میرے صحابی کی عزت بچانے کی کوشش کی ہے اللہ تمہاری عزت بچائے گا۔*
(حیات حکیم الامت، صفحہ 435)
*ایک دفعہ حضرت حکیم الامت علیہ الرحمہ خشکی کے راستے زیارت حرمین شریفین کے لیے تشریف لے گئے (جس کتاب سے یہ واقعہ نقل کیا جارہا ہے وہاں "تشریف لے گئے" کے الفاظ ہیں نظرِ فقیر میں "حاضر ہوئے" لکھنا زیادہ انسب تھا البتہ کوئی شرعی قباحت اس میں بھی نہیں ہے) اس موقع پر اپ طویل عرصے مدینہ شریف میں ٹھہرے، فرماتے تھے کہ جی چاہتا ہے کہ کوئی صورت نکلے تو یہیں ہمیشہ کی سکونت نصیب ہو جائے مسجد نبوی کے قریب رہنے والے کسی صاحب کو خواب میں حضور علیہ السلام کی زیارت ہوئی اور ان سے فرمایا گیا کہ مفتی صاحب کو کہا جائے وہ گجرات واپس جائیں اور تفسیر لکھیں دوسرے دن یہ خواب اور پیغام حکیم الامت کو بتایا گیا اپ کو بے حد اطمینان ہوا کہ اگر واقعی سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے تو اج سے گجرات ہی میرے لیے مدینہ ہے۔
(حیات حکیم الامت بحوالہ حیات سالک، صفحہ 127 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)
اللہ تعالی حضرت مفتی صاحب کے درجات بلند فرمائے اور ان کے فیوضات سے ہمیں حصہ نصیب فرمائے۔ اٰمین
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں