مشرکین کا پکایا ہوا گوشت
اور وہ گوشت جس کی ذکاۃ شرعی
متحقق نہ ہو، کھانے کا حکم
(مسئلہ) (الف) کیا فرماتےہیں مفتیان شرع متین اس مسٸلہ میں کہ خلیجی ممالک میں دوسرے ممالک سےگوشت پیکینگ آتے ہیں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ گوشت مشینی ذبیحہ ہے یا کس نے ذبح کیا اس پر کیا حکم ہے؟
(ب) یہاں کمپنی میں کھانا بنانے والے ہندو ہیں دوسرا شخص نہیں بنا سکتا اسی کو کھانا پڑتا ہے تو اس کھانے پر کیا حکم ہے؟
(الجواب: الف) یہ گوشت حرام ہے. گوشت میں اصل یہ کہ جانور جب تک زندہ ہے اس کا گوشت حرام ہے، حلت ذبحِ شرعی سے ثابت ہوتی ہے، تو جب ذبح شرعی معلوم ومتحقق نہ ہو تو حکم حرمت ہے.
شرح اشباہ والنظائر میں ہے: لا تحل، حتى يعلم انها ذكاة مسلم لأنها أصلها حرام، وشككنا في الذكاة المبيحة. (غمز عیون البصائر، ١٩٣/١: کھاناحلال نہیں جب تک یقینی علم نہ ہوجائے کہ اس کو مسلمان نے ذبح کیا ہے کیونکہ اصل میں حرام ہے، اور ہمیں مباح بنانے والے ذبح میں شک ہے). والله تعالی اعلم
(الجواب: ب) گوشت کے علاوہ مشرکین کی پکائی گئی وہ چیزیں جن میں نجاست یا حرمت متحقق نہ ہو، کھانا جائز ہے کہ اصل اشیاء میں حلت ہے اور گوشت کا یہ حکم ہے کہ جب تک متحقق نہ ہو ذابح مسلمان تھا یا نہیں؟ مذبح سے کھانے کی میز تک ہر آن مسلمان کی نگرانی میں رہا ہے یا نہیں؟ کھانا جائز نہیں. مشرکین کی کمپنیوں میں پکایا گیا وہی گوشت حلال ہے جو سنی صحیح العقیدہ کے حلال مذبوح کا ہو اور وقت ذبح سے کھانے کے وقت تک کسی آن مسلمان کی نگاہ سے غائب نہ ہوا.
قال الإمام رحمه الله: ان کے یہاں کا گوشت تو ضرور حرام ہے مگر اُس حالت میں کہ مسلمان نے الله عزوجل کے لئے ذبح کیا اور بنانے پکانے لانے کے وقت مسلمانوں کی نگاہ سے غائب نہ ہوا کوئی نہ کوئی مسلمان اُسے دیکھتا رہا تو اُس وقت حلال ہے ورنہ حرام اور باقی اشیا جن میں نجاست یا حرمت متحقق وثابت ہو نجس وحرام ہیں ورنہ طاہر وحلال کہ اصل اشیا میں طہارت وحلت ہے. (فتاوی رضویہ، ٥٦٦/٤)
قال الإمام الأعظمي: جس گوشت کو کفار نے پکایا اور نظر مسلم سے غائب ہوگیا تو اس کا کھانا حرام ہے اگرچہ قرائن سے معلوم ہو کہ یہ گوشت مسلم کا ذبیحہ ہے. (فتاوی امجدیہ، ٢٩٢/٤). والله تعالی اعلم
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں