کتاب منے کی لاش

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
مُنّے کی لاش

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

مُنّے کی لاش

شیطان لاکھ سُستی دلائے یہ رسالہ (18صَفْحات ) مکمّل پڑھ لیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ  آپ کے دل میں غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الاکرم کی محبت مزید بڑھ جائے گی ۔  

دُرود شریف کی فضیلت

       نبیِّ معظَّم، رسولِ محترم، سلطانِ ذِی حشم، سراپا جُود و کرم، حبیبِ مُکرَّم،محبوبِ ربِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا: مسلمان جب تک مجھ پر درود شریف پڑھتا رہتا ہے فِرِشتے اُس پر رَحمتیں بھیجتے رہتے ہیں اب بندے کی مرضی ہے کم پڑھے یا زیادہ۔    
(اِبن ماجہ ج۱ ص۴۹۰ حدیث ۹۰۷دارالمعرفۃ بیروت)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

   خانقاہ میں ایک باپردہ خاتون اپنے منے کی لاش چادر میں لپٹائے ،    سینے سے چمٹائے زارو قِطار رو رہی تھی ۔   اتنے میں ایک ’’مَدَنی مُنّا‘‘ دوڑتا ہوا آتا ہے اور ہمدردانہ لہجے میں اُس خاتون سے رونے کا سبب دریافت کرتاہے ۔    وہ روتے ہوئے کہتی ہے : بیٹا ! میرا شوہر اپنے لخت ِجگر کے دیدار کی حسرت لیے دنیا سے رخصت ہوگیا ہے ، یہ بچہ اُس وقت پیٹ میں تھا اور اب یِہی اپنے باپ کی نِشانی اورمیری زِندَگانی کا سرمایہ تھا، یہ بیمار ہوگیا ،    میں اسے اسی خانقاہ میں دم کروانے لا رہی تھی کہ راستے میں اس نے دم توڑ دیا ہے، میں پھر بھی بڑی اُمّید لے کریہاں حاضِر ہوگئی کہ اِس خانقاہ والے بُزُرْگ کی وِلایت کی ہر طرف دھوم ہے اوران کی نگاہِ کرم سے اب بھی بَہُت کچھ ہوسکتاہے مگر وہ مجھے صبر کی تلقین کر کے اندر تشریف لے جاچکے ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ خاتون پھر رونے لگی۔ ’’مَدَنی مُنّے‘‘  کا دل پگھل گیااور اُس کی رَحمت بھری زَبان پر یہ الفاظ کھیلنے لگے: ’’مُحتَرَمہ!  آپ کا منّا مرا ہوا  نہیں بلکہ زِندہ ہے!   دیکھو تو سہی!   وہ حرکت کر رہا ہے۔  ‘‘ دُکھیاری ماں نے بے تابی کے ساتھ اپنے ’’مُنّے کی لاش ‘‘ پر سے کپڑا اُٹھا کردیکھا تو وہ سچ مُچ زِندہ تھا اورہاتھ پَیر ہِلاکر کھیل رہا تھا۔ اِتنے میں خانقاہ والے بُزُرگ اندر سے واپَس تشریف لائے ۔ بچے کو زندہ دیکھ کر ساری بات سمجھ گئے اورلاٹھی اُٹھا کر یہ کہتے  ہوئے  ’’مَدَنی مُنّے ‘‘  کی طرف لپکے کہ تو نے ابھی سے تقدیرِ خداوندی   کے سَربَستہ راز کھولنے شروع کردئیے ہیں ! مَدَنی مُنّا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اوروہ بُزُرْگ اُس کے پیچھے دوڑنے لگے، ’’مَدَنی مُنّا‘‘ یکایک قبرِستان کی طرف مُڑا اوربُلند آواز سے پکارنے لگا : اے قبروالو! مجھے بچاؤ!  تیزی سے لپکتے ہوئے بُزُرْگ اچانک ٹھٹھک کر رُک گئے کیونکہ قبرِستان سے تین سو مُردے اُٹھ کر اُسی  ’’مَدَنی مُنّے ‘‘ کی ڈھال بن چکے تھے اور وہ  ’’مَدَنی مُنّا‘‘ دُور کھڑا اپنا چاند سا چہرہ چمکاتا مُسکرا رہا تھا۔ اُن بُزُرگ نے بڑی حسرت کے ساتھ ’’مَدَنی مُنّے ‘‘کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:  بیٹا! ہم تیرے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے ، اِس لیے تیری مرضی کے آگے اپنا سرِتسلیم خم کرتے ہیں ۔     
(مُلَخَّص ازالحقائق فی الحدائق ج ۱ص۱۴۲ وغیرہ مکتبۃ  اویسہ رضویہ،بہاولپور پاکستان)  

  میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ جانتے ہیں وہ ’’مَدَنی مُنّا‘‘کون تھا؟ اُس مَدَنی مُنّے کا نام عبدُالقادِر تھا اورآگے چل کر وہ غوثُ الاعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الاکرم کے لقب سے مشہور ہوئے ۔    

کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابنِ ابی القاسم ہے
کیوں نہ قادِر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا        

(حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بَچپَن شریف کی سات کرامات

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمارے غوثُ الاعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الاکرم  مادرزاد ولی تھے ۔    
{۱} آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہابھی اپنی ماں کے پیٹ میں تھے اور ماں کو جب چھینک آتی اور اس پر جب وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہتیں تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پیٹ ہی میں جواباً  یَرْحَمُکِ اللّٰہ کہتے   
(الحقائق فی الحدائق ص۱۳۹)  
{۲} آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ یکُم رَمَضَانُ المبارَک بروز پیرصبحِ صادِق کے وَقت دنیا میں جلوہ گر ہوئے اُس وَقت ہونٹ آہِستہ آہِستہ حَرَکت کر رہے تھے اور اللہ اللہ کی آواز آرہی تھی
(ایضاً)   
{۳} جس دن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت ہوئی اُس دن آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے دِیارِ ولادت جِیلان شریف میں گیارہ سو بچے پیدا  ہوئے وہ سب کے سب لڑکے تھے اور سب ولیُّ اللّٰہ بنے    
(تفریحُ الخاطر ص۱۵)  
{۴} غوثُ الاعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الاکرم نے پیدا ہوتے ہی روزہ رکھ لیا اورجب سُورج غُروب ہوا اُس وَقْت ماں کا دودھ نوش فرمایا۔ سارا  رَمَضَانُ المبارَکآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا یِہی معمول رہا   
(بَہجۃُ الاسرار ص۱۷۲)   
{۵} پانچ برس کی عمر میں جب پہلی بار بِسْمِ اللّٰہ پڑھنے کی رَسم کے لیے کسی بُزُرگ کے پاس بیٹھے تو اَعُوذ اور بِسْمِ اللّٰہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور الٓمّٓ سے لے کر اٹھارہ پارے پڑھ کر سنا دئیے۔  اُن بُزُرگ نے کہا:  بیٹے!   اورپڑھئے۔   فرمایا:  بس مجھے اِتنا ہی یادہے کیوں کہ میری ماں کو بھی اِتنا ہی یاد تھا، جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اُس وَقت وہ پڑھا کرتی تھیں ، میں نے سن کر یاد کرلیا تھا  
(الحقائق فی الحدائق ص۱۴۰)   
{۶} جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہلڑکپن میں کھیلنے کا ارادہ فرماتے ، غیب سے آواز آتی:  اے عبدُالقادِر ! ہم نے تجھے کھیلنے کے واسِطے نہیں پیدا کیا  
(ایضاً)  
{۷} آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہمدرَسے میں تشریف لے جاتے تو آواز آتی: ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ولی کو جگہ دے دو۔  ‘‘  
(بَہجۃُ الاسرار ص۴۸)

نَبوی  مِیْنہ عَلَوی فَصل بَتُولی گلشن
حَسَنی پھول حُسَینی ہے مَہَکنا تیرا      

(حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

کرامت کی تعریف

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بعض اَوقات آدَمی کراماتِ اولیاء کے مُعامَلے میں شیطان کے وَسوَسے میں آکر کرامات کو عقل کے ترازو میں تولنے لگتاہے اوریوں گمراہ ہوجاتاہے ۔ یادرکھئے! کرامت کہتے ہی اُس خِرق عادت بات کوہیں جو عادتاً مُحال یعنی ظاہِری اسباب کے ذَرِیعے اُس کا صُدور ناممکن ہو مگر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی سے ایسی باتیں بسا اوقات صادِر ہوجاتی ہیں ۔  نبی سے قبل اَز اِعلانِ نبُوَّت ایسی چیزیں ظاہِر ہوں توان کو اِرہاص کہتے ہیں اور اِعلانِ نبُوَّت کے بعد صادِر ہوں تو معجزہ کہتے ہیں ۔ عام مؤمنین سے اگر ایسی چیزیں ظاہِر ہوں تو اسے مَعُونت اور ولی سے ظاہِر ہوں تو کرامت کہتے ہیں ۔ نیز کافِر یا فاسِق سے کوئی خِرقِ عادت ظاہِر ہوتو اُسے اِستِدراج (اِس۔  تِد۔  راج) کہتے ہیں ۔    
(مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۱ص۵۶،۵۸ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)

عقل کو تنقید سے فُرصت نہیں
عِشق پر اعمال کی بُنیاد رکھ

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

غوثِ اعظم نے مِرگی کو بھگا دیا

          ایک مرتبہ بارگاہ ِ غوثیَّت مآب میں حاضِر ہوکرایک شخص نے عرض کی:  عالی جاہ ! میری  زوجہ کومِرگی ہوگئی، حُضُور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:   ’’ اِس کے کان میں کہہ دو غوثِ اعظم کا حکم ہے کہ بغداد سے نکل جا۔ ‘‘  چُنانچِہ اُسی وَقْت وہ اچّھی ہوگئی ۔  
(مُلَخَّص ازبَہجۃُ الاسرارلِلشَّطنو فی ص۱۴۰،۱۴۱دارالکتب العلمیۃ بیروت)

مرگی شریر جِنّ ہے

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : (مِرگی) بَہُت خبیث بَلَا ہے اور اسی کو اُمُّ الصِبْیَان کہتے  ہیں ، (بچوں کی ایک بیماری جس سے اعضا میں جھٹکے لگتے ہیں ) اگر بچّوں کو ہو، ورنہ صَرْع (مرگی) ۔  تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ اگر پچیس بَرَس کے اندر اندر ہوگی تو اُمّید ہے کہ جاتی رہے اور اگر پچیس بَرَس کے بعد یا پچیس بَرَس والے کو ہوئی تو اَب نہ جائے گی۔ ہاں کسی ولی کی کرامت یا تعویذ سے جاتی رہے تو یہ اَمر آخَر  (یعنی اور بات) ہے ۔ یہ (یعنی مِرگی ) فی الحقیقت ایک (شریر جِنّ یعنی) شیطان ہے جو انسان کو ستاتا ہے ۔   

بچّوں کومِرگی سے بچانے کا نُسخہ

    بچّہ پیدا ہونے کے بعد جو اَذان میں دیر کی جاتی ہے ،   اِس سے اکثر یہ (یعنی مِرگی کا ) مَرَض ہو جاتا ہے اور اگر بچّہ پیدا ہونے کے بعد پہلا کام یہ کیا جائے کہ نہلا کر اذان و اِقامت بچّے کے کان میں کہہ دی جائے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّعمر بھر  (مِرگی سے)  محفوظی ہے۔ 
(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص۴۱۷  مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)

رضاؔ کے سامنے کی تاب  کِس میں
فلک  وار اِس پِہ ترا ظِل ہے  یا غوث

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                      
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

غوثُ الاعظم کا کُنواں

    ایک بار بغداد ِ مُعلّٰی میں طاعون کی بیماری پھیل گئی اور لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگے۔   لوگوں نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی خدمت میں اِس مصیبت سے نَجات دلانے کی درخواست پیش کی۔ فرمایا: ’’ہمارے مدرَسے کے ارد گرد جو گھاس ہے وہ کھاؤ اور ہمارے مدرَسے کے کُنوئیں کا پانی پیو، جو ایسا کرے گا وہ  اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ  ہر مَرَض سے شِفاپائے گا۔  ‘‘  چُنانچِہ گھاس اورکُنوئیں کے پانی سے شِفا ملنی شروع ہوگئی یہاں تک کہ بغداد شریف سے طاعون ایسا بھاگا کہ پھر کبھی پلٹ کر نہ آیا۔     
(تفریحُ الخاطرفی مناقب الشیخ عبدالقادر  ص۴۳)

    ’’طبقاتِ کبری‘‘میں غوثِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ     کا یہ ارشاد بھی نقل کیا گیا ہے:  ’’جس مسلمان کا میرے مدرَسے سے گزر ہوا قِیامت کے روز اس کے عذاب میں تخفیف ہوگی۔‘‘ 
(اَلطَّبَقاتُ الْکُبریٰ للشعرانی الجزء الاوّل ص۱۷۹دارالفکربیروت) 
اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔   

گناہوں کے اَمراض کی بھی دوا دو
مجھے اب عطا ہو شِفا غوثِ اعظم

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ڈوبی ہوئی بارات

       ایک بار سرکار بغداد حُضُور سیِّدُنا غوثُ الاعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دریا کی طرف تشریف لے گئے، وہاں ایک بُڑھیا کو دیکھا جو زارو قِطار رو رہی تھی ۔ ایک مُرید نے بارگاہِ غوثیّت میں عرض کی :  یامُرشِدی! اِس ضَعیفہ کا اِکلوتا خُوبروبیٹا تھا، بے چاری نے اُس کی شادی رَچائی دُولہا نکاح کر کے دُلہن کو اِسی دریا میں کَشتی کے ذَرِیعے اپنے گھر لارہا تھا کہ کَشتی اُلَٹ گئی اور دُولہا دُلہن سَمیت ساری بارات ڈوب گئی ۔ اس واقِعے کو آج بارہ برس گزرچکے ہیں مگر ماں کا جگر ہے ، بے چاری کا غم جاتا نہیں ہے ، یہ روزانہ یہاں دریا پر آتی اوربارات کو نہ پاکر رودھو کر چلی جاتی ہے ۔ حُضُور غوثُ الاعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو اِس ضَعیفہ (یعنی بڑھیا) پر بڑا تَرس آیا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دئیے ، چند مِنَٹ تک کچھ بھی ظُہُور نہ ہوا، بے تاب ہوکر بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی: یا اللہ عَزَّوَجَلَّ ! اس قَدَر تاخیر کیوں ؟ ارشاد ہوا : ’’ اے میرے پیارے!   یہ تاخیر خلافِ تقدیر وتدبیر نہیں ہے، ہم چاہتے تو ایک حکمِ کُنْ سے تمام زمین وآسمان پیدا کردیتے مگر بَمُقْتضَائے حِکمت چھ دن میں پیدا کئے، بارات کو ڈوبے 12 سال بِیت چکے ہیں ، اب نہ وہ کَشی باقی رہی ہے نہ ہی اس کی کوئی سُواری، تمام انسانوں کا گوشت وغیرہ بھی دریائی جانور کھاچکے ہیں ، ریزے ریزے کو اَجزائے جسم میں اِکٹھّا کروا کر دوبارہ زندَگی کے مَرحَلے میں داخِل کردیا ہے،  اب ان کی آمد کا وقت ہے‘‘ ابھی یہ کلام اِختتام کو بھی نہ پہنچا تھا کہ یکایک وہ کَشتی اپنے تمام تر سازوسامان کے ساتھ مَع دُولہا دُلہن وبراتی سطحِ آ ب پر نُمُودار ہوگئی اور چند ہی لمحوں میں کَنارے آلگی، تمام باراتی سرکارِبغداد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے دُعائیں لے کر خوشی خوشی اپنے گھر پہنچے ۔ اس کرامت کو سن کر بے شمار کفّار نے آکر سیِّدُنا غوثِ ا عظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کے دستِ حق پرست پر اسلام قَبول کیا ۔    
(سلطانُ الاذکار فی مَناقب غوثِ الابرار، لشاہ محمد بن الہمدنی)

نکالا ہے پہلے تو ڈُوبے ہوؤں کو
اور اب ڈوبتوں کو بچا غوثِ اعظم   

(ذوقِ نعت)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!        
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 کیا بندہ مُردہ زندہ کرسکتا ہے؟                 

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بے شک موت وحیات اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اختیار میں ہے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے کسی بندے کو مُردے جِلانے کی طاقت بخشے تو اس کے لیے کوئی مُشکِل بات نہیں ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے کسی اورکو ہم مُردہ زندہ کرنے والا تسلیم کریں تو اس سے ہمارے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا ،  اگرشیطان کی باتوں میں آکر کسی نے اپنے ذِہن میں یہ بٹھا لیا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کسی اور کو مُردہ زندہ کرنے کی طاقت ہی نہیں دی تو اُس کا یہ نظریہ یقینا حکمِ قراٰنی کے خلاف ہے دیکھئے قراٰنِ پاک حضرت سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللّٰہ  عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مریضوں کو شِفا دینے اورمُردے زندہ کرنے کی طاقت کا صاف صاف اِعلان کررہاہے۔ جیساکہ پارہ 3 سُوْرَۃ اٰلِ عِمْرٰن کی آیت نمبر 49 میں حضرت سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ ارشادنقل کیا گیا ہے:

وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-

ترجَمۂ کنزالایمان:  اورمیں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھوں اورسفید داغ والے (یعنی کوڑھی) کو اور میں مردے جِلاتاہوں اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کے حکم سے ۔  

    اُمّید ہے کہ شیطان کا ڈالا ہوا وَسوَسہ جڑ سے کٹ گیا ہوگا ،  کیوں کہ مسلمان کا قراٰنِ پاک پر ایمان ہوتا ہے اور وہ حکمِ قراٰنِ کریم کے خلاف کوئی دلیل تسلیم کرتاہی نہیں ۔   بَہرحال اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے مقبول بندوں کو طرح طرح کے اختیارات سے نوازتا ہے اور بَعطائے خداوندی ان سے ایسی باتیں صادِر ہوتی ہیں جو عقلِ انسانی کی بُلندیوں سے وَراء ُ الوَرا ہوتی ہیں ۔ یقینا اہلُ اللّٰہ کے تَصَرُّفات واختیارات کی بلندی کو دنیا والوں کی پروازِ عقل چھو بھی نہیں سکتی ۔   

*سائنسدان کی نظر*

     دَورِ حاضر کا سب سے بڑا سائنسدان ’’ آئن اسٹائن ‘‘ کہہ گیا ہے: ’’ میں نے ریڈیو دُوربین کے ذَرِیعے ایک ایسا کَہکَشاں تو دیکھ لیا ہے جو زمین سے دوکروڑ نوری سال دُور ہے یعنی روشنی جو فی سیکنڈایک لاکھ چھیاسی ہزارمِیل طے کرتی ہے،  وہاں دو کروڑ سال میں پہنچے گی مگر جہاں تک کائنات کی سرحدیں معلوم کرنے کا تعلُّق ہے اگر میری عمر ایک مِلْیَن یعنی دس لاکھ برس بھی ہوجائے تب بھی دریافت نہیں کرسکتا۔ ‘‘سائنسدان کے برعکس خدائے رحمن عَزَّوَجَلَّ کے ولی حُضُور غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی نظر کی عَظَمت وشان دیکھئے!   آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :   

نَظَرْتُ اِلٰی بِلَادِ اللّٰہِ جَمْعًا
کَخَرْدَلَۃٍ عَلٰی حُکْمِ التِّصَالٖ

  (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے تمام شہر میری نظر میں اس طرح ہیں جیسے ہتھیلی میں رائی کا دانہ )

میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بارگاہِ غوثِیّت مآب میں عرض کرتے ہیں :

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَ ک کا  ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تِرا ذکر ہے اُونچا تیرا         

(حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بد عقیدہ قاتل کی سزا

    اب وِصال شریف کے طویل عرصے کے بعد رَنجیت سنگھ کے دورِحکومت میں ہندوستان میں رُونُما ہونے والا ایک ایمان افروز واقِعہ پڑھیے اور جھومئے :  ایک نام نِہاد مسلمان جو کراماتِ اولیاء کا مُنکِر تھا ، شُومئی قسمت سے ایک شادی شُدہ ہِندوانی کو دل دے بیٹھا۔ ایک بار ہِندو اپنی بیوی کو مَیکے پہنچانے کے لیے گھر سے باہَر نکلا ،  اُدھر اُس بدبخت عاشِق پر شَہوت نے غَلَبہ کیا ۔  چُنانچِہ اُس نے ان کا پیچھا کیا اور ایک سُنسان مقام پر  دونوں کو گھیر لیا، وہ دونوں پیدل تھے اور یہ گھوڑے پرسُوا رتھا، اس نے جھوٹ مُوٹ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے سُواری کی پیشکش کی مگر ہِندو نے انکار کیا،  وہ اصرار کرنے لگا کہ اچّھا عورت ہی کو پیچھے بیٹھنے کی اجازت دے دوکہ یہ بے چاری تھک جائے گی ،  ہِندو کو اس کی نیّت پر شُبہ ہوچلا تھا لہٰذا اُس نے کہا کہ تم ضَمانت دو کہ کسی قسم کی خیانت کئے بِغیر میری بیوی کو منزِل پر پہنچا دو گے ۔   اُس نے کہا کہ یہاں جنگل میں ضامِن کہاں سے لائوں ؟  عورت بول اٹھی:  مسلمان گیارہویں والے بڑے پِیر صاحِب کو بَہُت مانتے ہیں ،    تم انہیں کی ضَمانت دے دو۔   وہ اگرچِہ غوثُ الاعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کے تَصَرُّفات کا قائل نہیں تھا مگر یہ سوچ کر کہ ہاں کہہ دینے میں کیا جاتاہے، اُس نے ہاں کہہ دی۔   جُوں ہی عورت گھوڑے پر سُوارہوئی ،اُس ظالِم نے تلوار سے اس کے شوہرکی گردن اُڑادی اورگھوڑے کو ایڑ لگادی، عورت غم سے نڈھال اور سَہمی ہوئی باربار مڑکر پیچھے دیکھے جارہی تھی۔ اُس نے کہا کہ بار بار پیچھے دیکھنے سے کچھ حاصِل نہیں ہوگا، تمہارا شوہر اب واپَس نہیں آسکتا۔ اُس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا : میں تو بڑے پیر صاحِب کو دیکھ رہی ہوں ۔ اِس پر اُس نے ایک قَہقَہہ لگا کر کہا کہ بڑے پِیر صاحِب کو تو فوت ہوئے کئی سال گزرچکے ہیں ، اب بھلاوہ کہاں سے آسکتے ہیں ! اتنا کہنا تھا کہ اچانک دو بُزُرگ نُمُودار ہوئے ان میں سے ایک نے بڑھ کر تلوار سے اس بدعقیدہ عاشِق کا سر اُڑا دیا پھر عورت کو مَع گھوڑے کے اُس جگہ لائے جہاں وہ ہند و کٹا ہوا پڑا تھا،  دونوں میں سے ایک بُزُرگ نے کٹا ہوا سر دھڑ سے ملا کر کہا:  ’’قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘ یعنی اُٹھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے ۔ وہ ہندو اُسی وَقت زندہ ہوگیا۔   وہ دونوں بُزُرگ غائب ہوگئے ۔ یہ دونوں میاں بیوی مقتول کے گھوڑے پر سُوار ہوکر گھر لوٹ آئے ۔ مقتول کے وارِثوں نے گھوڑا پہچان کر رَنجیت سنگھ کے کورٹ میں دونوں میاں بیوی پر کیس کردیا کہ ہمارا آدَمی غائب ہے اور گھوڑا اِن کے پاس ہے ،    شاید اِن لوگوں نے ہمارے آدَمی کو قتل کردیاہے ۔ پیشی ہوئی ، ان میاں بیوی نے جنگل کا سارا واقِعہ کہہ سنایا اورکہا کہ ان دونوں بُزُرگوں میں سے ایک بُزُرگ یہاں کے مشہور مجذُوب گل محمد شاہ صاحِب کے ہمشکل تھے۔    چُنانچِہ ان مجذوب بُزُرگ کو بلوایا گیا، وہ تشریف لے آئے اور اُنہوں نے آتے ہی اوّل تا آخِر سارا واقِعہ لفظ بہ لفظ بیان کردیا ۔ لوگ حُضُور غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی یہ زندہ کرامت سن کر اَش اَش کر اُٹھے۔ رَنجیب سنگھ نے مقدَّمہ خارِج کرتے ہوئے ان دونوں میاں بیوی کو اِنعام واکرام دے کر رخصت کیا۔    
(الحقائق فی الحدائق ص۹۵)  

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا 
مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا   

(حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

70 بار اِحتلام

   حضرتِ سیّدنا غوث اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کا ایک مرید ایک ہی رات میں نئی نئی عورتوں کے سَبَب ستَّر بارمُحْتَلِم ہوا۔  صُبح غسل سے فارِغ ہوکر اپنی پریشانی کی فریاد لیکر اپنے مرشدِ کریم حضور غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی خدمتِ باعَظَمت میں حاضر ہوا ۔ قبل اِس کے کہ وہ کچھ عرض کرے ، سرکارِ بغداد حضورِ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے خود ہی فرمایا:  رات کے واقِعے سے مت گھبراؤ ، میں نے رات لوحِ محفوظ پر نظر ڈالی تو تمہارے بارے میں ستَّر مختلف عورَتوں کے ساتھ زِنا کرنا مقدَّر تھا،  میں نے بارگاہ ِالٰہی عَزَّوَجَلَّ میں التجا کی کہ وہ تیری تقدیر کو بدل دے اوران گناہوں سے تیری حفاظت فرمائے ۔ چُنانچِہ ان سارے واقِعات کو خواب میں اِحتلام کی صورت میں تبدیل کردیا گیا۔     
(بَہْجَۃُ الاسرار ص۱۹۳)

ترے ہاتھ میں ہاتھ میں نے دیا ہے
ترے ہاتھ ہے لاج یاغوثِ اعظم  

(ذوقِ نعت)

اِرشاداتِ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم

     میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس سے معلوم ہوا کہ کسی پیرِ کامل کی بَیعَت ضَرورکرنی چاہئے کہ پیر کی توجُّہ سے مصیبتیں ٹل جاتی ہیں اوربعض اَوقات بڑی آفت چھوٹی آفت سے بدل کر رہ جاتی ہے ۔ ’’بَہجۃُ الْاَسرار شریف‘‘   میں ہے ،   پِیروں کے پِیر،پیر دستگیر ، روشن ضمیر ، قُطبِ رَبّانی، محبوبِ سبحانی ، پیرِلاثانی، قندِیل نورانی، شَہبازِ لامکانی ، اَلشَّیخ ابو محمد سیِّد عبدُالقادِر جِیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّ بَّانِی کا فرمانِ بِشارت نشان ہے :   مجھے ایک بَہُت بڑا رجسٹر دیا گیا جس میں میرے مُصاحبوں اور میرے قِیامت تک ہونے والے مریدوں کے نام دَرج تھے اورکہا گیاکہ یہ سارے اَفراد تمہارے حوالے کردئیے گئے ہیں ۔ فرماتے ہیں ، میں نے داروغۂ جہنَّم سے اِستفسار کیا:  کیا جہنَّم میں میرا کوئی مُرید بھی ہے ؟  اُنہوں نے جواب دیا :  ’’نہیں ۔‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مزید فرمایا : مجھے اپنے پروَردگار کی عزّت وجلال کی قسم !  میرا دستِ حِمایت میرے مُرید پر اس طرح ہے جس طرح آسمان زمین پر سایہ کُناں ہے ۔   اگر میرا مُرید اچّھا نہ بھی ہوتو کیا ہوا اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میں تو اچّھا ہوں ۔   مجھے اپنے پالنے والے کی عزّت و جلال کی قسم ! میں اُس وَقت تک اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی

بارگاہ سے نہ ہٹوں گا جب تک اپنے ایک ایک مُرید کو داخلِ جنّت نہ کروالوں ۔    
(ایضاً)

مریدوں کو خطرہ نہیں بحرِ غم سے
کہ بیڑے کے ہیں ناخدا غوثِ اعظم  

(ذوقِ نعت)  

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عظیم الشّان کرامت

  ابوالمظفرحسن نامی ایک تاجِر نے حضرتِ سیِّدُناشیخ حمّاد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَاد کی بارگاہ میں حاضِر ہوکر عرض کی:  حُضُور !  میں تجارت کیلئے قافِلے کے ہمراہ مُلکِ شام جارہا ہوں ،    آپ سے دُعا کی درخواست ہے۔ سیِّدُنا شیخ حمّاد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَادنے فرمایا : ’’آپ اپنا سفر ملتوی کردیجئے،  اگر گئے تو ڈاکو سارا مال بھی لوٹ لیں گے اورآپ کو قتل بھی کرڈالیں گے ۔ ‘‘ تاجِر یہ سن کر بڑا گھبرایا، اِسی پریشانی کے عالم میں واپَس آرہا تھا کہ راستے میں حضور غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم مل گئے،  پوچھا کیوں پریشان ہیں ؟اُس نے سارا واقِعہ کہہ سنایا۔   آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا:  پریشان نہ ہو ں شوق سے ملکِ شام کا سفر کیجئے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ  سب بہتر ہوجائے گا ۔ چُنانچِہ وہ قافلے کے ساتھ روانہ ہوگیا،  اُسے کاروبار میں بَہُت نفع ہوا، وہ ایک ہزار ۱۰۰۰ اشرفیوں کی تھیلی لیے مُلکِ شام کے شہر ’’ حَلب‘‘  پہنچا۔ اِتِّفاقاًوہ اَشرفیوں کی تھیلی کہیں رکھ کر بھول گیا، اِسی فکر میں نیند نے غَلبہ کیا اورسوگیا ۔ اُس نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا کہ ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کر کے سارا مال لوٹ لیا ہے اوراسے بھی قتل کرڈالاہے! خوف کے مارے اُس کی آنکھ کھل گئی، گھبراکر اُٹھا تو وہاں کوئی ڈاکو وغیرہ نہ تھا۔   اب اُسے یا دآیا کہ اشرفیوں کی تھیلی اُس نے فُلاں جگہ رکھی ہے، جھٹ وہاں پہنچاتوتھیلی مل گئی۔   خوشی خوشی بغداد شریف واپَس آیا ۔ اب سوچنے لگا کہ پہلے غوثُ الاعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم سے ملوں یا شیخ حمّاد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَاد سے!   اِتِّفاقاً راستے میں ہی سیِّدُنا شیخ حمّاد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْجَوَاد مل گئے اور دیکھتے ہی فرمانے لگے: ’’پہلے جا کر غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم سے ملو کہ وہ محبوبِ رَبّانی ہیں ، اُنہوں نے تمہارے حقّ میں 17 بار دُعا مانگی تھی تب کہیں جاکر تمہاری تقدیر بدلی جس کی میں نے خبر دی تھی، اللہ عَزَّ وَجَلَّنے تمہارے ساتھ ہونے والے واقعے کو غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی دُعاکی بَرَکت سے بیداری سے خواب  میں منتقل کردیا۔ ‘‘ چُنانچِہ وہ بارگاہِ غوثیت مَآب میں حاضِرہوا ۔ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے دیکھتے ہی فرمایا: واقِعی میں نے تمہارے لیے17مرتبہ دعامانگی تھی ۔ مزید فرمایا :  میں نے تمہارے بارے میں 17 در 17 سے لے کر 70مرتبہ تک دُعا مانگی تھی۔     
(بَہْجَۃُ الاسرار ص ۶۴) 
اللہ عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری  بے حساب مغفرت ہو۔  

غرض آقا سے کروں عرض کہ تیری ہے پناہ
بندہ مجبور ہے خاطِر پہ ہے قبضہ تیرا   

(حدائقِ بخشش شریف) 

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                              
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عذاب قبر سے رہائی

    ایک غمگین نوجوان نے آکر بارگاہِ غوثیَّت میں فریاد کی :  حضور!  میں نے اپنے  والد ِمرحوم کو رات خواب میں دیکھا، وہ کہہ رہے تھے: ’’بیٹا! میں عذاب ِقبر میں مبتلاہوں ،  تو سیِّدُنا شیخ عبدُالقادِرجِیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی بارگاہ میں حاضِر ہوکر میرے لیے دُعا کی درخواست کر۔  ‘‘یہ سن کر سرکارِبغدادحُضُور غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے اِستفسار فرمایا:  کیا تمہارے ابّاجان میرے مدرَسے (مَد۔  رَ۔  سے) سے کبھی گزرے ہیں ؟  اس نے عرض کی:  جی ہاں۔   بس آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خاموش ہوگئے ۔ وہ نوجوان چلا گیا ۔ دوسرے روز خوش خوش حاضِرِ خدمت ہوا اورکہنے لگا : یامرشِد!   آج رات والِدِ مرحوم سبز حُلّہ (یعنی سبز لباس ) زیبِ تن کئے خواب میں تشریف لائے ، وہ بے حد خوش تھے ، کہہ رہے تھے:  ’’بیٹا !  سیِّدُنا شیخ عبدُالقادِر جِیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّ بَّانِی کی بَرَکت سے مجھ سے عذاب دُورکردیا گیا ہے اوریہ سبز حُلّہ بھی ملا ہے ۔ میرے پیارے بیٹے! تو ان کی خدمت میں رہا کر۔ ‘‘ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : میرے رب عَزَّوَجَلَّ  نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ جو مسلمان تیرے مدرَسے سے گزرے گا اُس کے عذاب میں تَخفیف (یعنی کمی) کی جائے گی۔    
(بَہْجَۃُ الاسرارص۱۹۴)      

نزع میں ، گورمیں ، میزاں پہ سرِپل پہ کہیں
نہ چھٹے ہاتھ سے دامانِ  معلّٰی  تیرا   

(حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

مُردے کی چیخ وپُکار

     ایک مرتبہ بارگاہ ِ غوثیَّت مآب میں حاضِر ہوکر لوگوں نے عرض کی:  عالی جاہ ! ’’بابُ الْاَزَج‘‘ کے قبرِستان میں ایک قَبْر سے مُردے کے چیخنے کی آوازیں آرہی ہیں ۔   حُضُور !  کچھ کرم فرمادیجئے کہ بے چارے کاعذاب دُور ہوجائے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا :کیا اُس نے مجھ سے خِرقۂ خلافت پہنا ہے ؟  لوگوں نے عرض کی :  ہمیں معلوم نہیں ۔ فرمایا :  کیا کبھی وہ میری مجلس میں حاضِر ہوا؟  لوگوں نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔ فرمایا : کیا اُس نے کبھی میرا کھانا کھایا ؟ لوگوں نے پھر لاعلمی کا اظہار کیا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے پوچھا :   کیا اُس نے کبھی میرے پیچھے نَماز ادا کی؟ لوگوں نے وُہی جواب دیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ذرا ساسرِ اَقدس جُھکایا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر جلال و وقار کے آثار ظاہِر ہوئے ۔ کچھ دیر کے بعد فرمایا:  مجھے ابھی ابھی فرِشتوں نے بتایا: ’’اُس نے آپ کی زیارت کی ہے اور اُسے آپ سے عقیدت بھی تھی لہٰذا اللہ تبارَک وَتعالٰی نے اس پر رَحم کیا۔‘‘ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّاُس کی قَبْر سے آوازیں آنی بند ہوگئیں۔      
(بَہجۃُ الاسرارللشّطنوفی ص۱۹۴)

بد سہی، چور سہی، مجرِم و ناکارہ سہی
اے وہ کیسا ہی سہی ہے تو کریما تیرا  

(حدائقِ بخشش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                    
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

یہ رسالہ خود پڑھ کر آگے بھی شیئر کر دیجئے

شادی غمی کی تقریبات،اجتماعات،اعراس اور جلوسِ میلاد و غیرہ میں مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسائل اور مدنی پھولوں پر مشتمل پمفلٹ تقسیم کرکے ثواب کمائیے ،    گاہکوں کو بہ نیتِ ثواب تحفے میں دینے کیلئے اپنی دکانوں پر بھی رسائل رکھنے کا معمول بنائیے ،    اخبار فروشوں یا بچوں کے ذریعے اپنے محلے کے گھر گھر میں ماہانہ کم از کم ایک عدد سنتوں بھرا رسالہ یا مدنی پھولوں کا پمفلٹ پہنچاکر نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیے اور خوب ثواب کمائیے۔   

غمِ مدینہ و بقیع و مغفرت و بے حساب  جنّت الفردوس  میں آقا کے پڑوس کا طالب

۸ ربیع النور شریف۱۴۲۷ھ
17-04-2016


Munny ki lash

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے