آذان کے بعد جو صلوة پڑھی جاتی ہے اس کا پڑھنا کہاں سے ثابت ہے
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ علماے کرام کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ھیکہ اذان کے بعد میں جو صلوٰة پڑھی جاتی ہے اس کا جواب مع حوالہ قرآن و حدیث کی ردشنی میں۔
سائل: محمد عامر رضا نیپالی
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
وعلیکم السلام ور حمة الله وبركاته
*الجواب اللھم ہدایةالحق والصواب*
اذان و جماعت کے درمیان الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ پکارنا جائز و مستحسن ہے؛
اسے اصطلاح شرع میں تثویب کہتے ہیں اور تثویب کو فقہاۓ کرام نے نماز مغرب کے علاوہ باقی نمازوں کے لئے مستحسن قرار دیا ہے؛
جیسا کہ *فتاوی عالمگیری ،جلد اول مصری صفحہ ۵۳* میں ہے
*التثویب حسن عند المتاخرین فی کل صلاۃ الا فی المغرب ھکذا فی شرح النقایۃ للشیخ ابی المکارم وھو رجوع المؤذن الی الاعلام بالصلاۃ بین الاذان و الاقامۃ، والتثویب کل بلد ما تعارفوہ اما بالتنحنح او بالصلاۃ الصلاۃ اوقامت قامت لانہ للمبالغۃ فی الاعلام و انما یحصل ذلک بما تعارفوہ کذا فی الکافی ؛*
یعنی نماز مغرب کے علاوہ ہر نمازمیں علمائے متاخرین کے نزدیک تثویب مستحسن ہے
ایسا ہی شیخ ابوالمکارم کی شرح نقایہ میں ہے
اور تثویب یہ ہے کہ اذان و اقامت کے درمیان مؤذن نماز دوبارہ اعلان کرے اور ہر شہر کی تثویب وہ ہے جو شہر والوں میں متعارف ہو کھنکھارنا یا صلاۃ صلاۃ پکارنا یا قامت قامت کہنا اسلئے کہ تثویب اعلان نماز میں مبالغہ کے لئے ہے اور وہ اسی چیز سے حاصل ہوگا جو لوگوں میں متعارف ہو ایسا ہی کافی میں ہے
اور حضرت ملا علی قاری علیہ الرحمۃ والرضوان *مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد اول صفحہ نمبر ۴۱۸* میں تحریر فرماتے ہیں
*واستحسن المتاخرون التثویب فی الصلوات کلھا*
یعنی ہر نماز کے لئے تثویب کو متاخرین علماء نے مستحسن قرار دیا ہے،
اور مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے
*ویثوب بعد الاذان فی جمیع الاوقات لظھور التوانی فی الامور الدینیۃ فی الاصح و تثویب کل بلد بحسب ما تعارفہ اھلھا*
یعنی صحیح مذہب یہ ہے کہ اذان کے بعد تثویب کہی جاۓ اس لئے کہ دینی کاموں میں لوگوں کی سستی ظاہر ہے
اور ہر شہر کی تثویب شہر والوں کے عرف کے لحاظ سے ہے؛
فقہاۓ کرام کی ان تصریحات سے واضح ہوگیا کہ اذان و جماعت کے درمیان مؤذن کا نماز کے لئے دوبارہ اعلانیہ کرنا جائز و مستحسن ہے۔
اور ہر شہر میں ان کلمات کے ساتھ پکارا جائے جن سے شہر والے سمجھ لیں کہ یہ نماز کا دوبارہ اعلان ہے۔
اور آج کل عام شہروں میں الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اور اسی طرح دوسرے کلمات سے لوگ نماز کا دوبارہ اعلان سمجھتے ہیں۔
لہذا ایسے کلمات کا اذان و جماعت کے درمیان پکارنا جائز و مستحسن ہے جو آٹھویں صدی کی بہترین ایجاد ہے؛
جیسا کہ *در مختار مع ردالمختار جلد اول صفحہ نمبر ۲۷۳* میں ہے ؛
*التسلیم بعد الاذان حدث فی ربیع الآخر سنۃ سبع مائۃ واحدی وثمانین وھو بدعۃ حسنۃ*
یعنی اذان کے بعد الصلاۃ والسلام علیک یا رسول الله ﷺ پڑھنا ماہ ربیع الآخر ۷۸۱ ھجری میں جاری ہوا اور یہ بدعت حسنہ ہے
*📗بحوالہ فتاوی فیض الرسول، جلد اول، صفحہ ۱۸۸تا ۱۸۹*
واللہ اعلم باالصواب
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
شرف قلم،
حضرت علامہ و مولانا محمد معصوم رضا نوری صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی منگلور کرناٹک انڈیا
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں