حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

📚     «  مختصــر ســوانح حیــات  »     📚
-----------------------------------------------------------
🕯حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

آپ اولیاء ہند میں کبار مشائخ میں شمار ہوتے تھے۔ بڑی بڑی عجیب و غریب کرامات کا اظہار ہوتا ہے مقامات ارجمند پر فائز تھے۔ حضرت شیخ مدار کی بزرگی احاطہ تحریر میں نہیں آسکتی۔ 
اخبار الاخیار۔ معارج الولایت۔ تذکرہ العاشقین اور مناقب الاولیاء جیسی کتابوں کی سند سے یہ بات صحیح ہے کہ آپ مقام صمدیت پر فائز تھے۔ بارہ سال تک کھانا نہیں کھایا۔ ایک بار جو لباس پہن لیا وہ کبھی میلا نہیں ہوا۔ آپ اپنے چہرہ منور کو حجاب میں رکھا کرتے تھے۔ ان کے حسن و جمال میں اتنی کشش تھی کہ جو کوئی آپ کو دیکھتا سجدہ میں گرجاتا۔ 

 صاحب معارج الولایٔت نے آپ کا شجرۂ نسب از طرف والد اور والدہ یوں درج کیا ہے۔
’’شیخ بدیع الدین بن شیخ علی بن شاہ طیفور بن شاہ کافور بن قطب بن اسماعیل بن محمد حسن بن علی بن طیفور بن بہاؤالدین محمد شاہ بن بدرالدین بن قطب الدین بن عمادالدین بن عبدالحافظ بن شہاب الدین طاہر بن عبدالرحمان بن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہم۔‘‘

اس طرح آپ کا شجرہ نسب حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے ملتا ہے آپ کی والدہ کا اسم گرامی بی بی حاجرہ تھا۔ 
والدہ ماجدہ کی نسبت سے آپ کا ان واسطوں کے ساتھ شجرۂ نسب حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی ﷲ عنہ سے ملتا ہے بی بی حاجرہ نبت حامد بن محمود بن عبداللہ بن احمد بن آدم بن محمد بن فخرالدین بن طیفور بن محمد بن قوام الدین بن شمس الدین بن سراج الدین بن عبدالرحمٰن بن بلخور بن عبدالرشید بن عبدالجلیل بن عبدالرحمان بن عوف رضی ﷲ عنہم۔

*خاندانی حالات:*
آپ ہاشمی ہیں اور سادات بنی فاطمہ ہیں۔

*والدماجد:*
آپ  کے والد ماجد کا نام سید علی ہے۔

*والدہ ماجدہ:*
آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ ثانی کاسلسلہ نسب کئی واسطوں سےحضرت امام حسن رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے،ان کے والد کا نام عبداللہ تھا۔

*ولادت باسعادت:*

آپ حلب میں یکم شوال ۴۴۲ھ کو صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے۔

*نام نامی:*
آپ کا نام بدیع الدین ہے۔

*لقب:*
آپ "قطب مدار" کے لقب سے مشہور ہیں۔

*تعلیم وتربیت:*
آپ کی عمر جب پانچ سال کی ہوئی تو آپ کے والد بزرگوار نے آپ کی بسم اللہ کے بعد آپ کو مولانا حذیفہ شامی کے سپرد کیا، آپ کی تعلیم مولانا حذیفہ شامی کی نگرانی میں شروع ہوئی، آپ نے بہت جلد قرآن شریف ختم کیا، بارہ سال کی عمر میں آپ نے مختلف علوم میں اچھی خاصی استعداد حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے تفسیر، حدیث، فقہ میں کمال حاصل کیا اور محدث مشہور ہوئے۔ چودہ سال کی عمر میں آپ کا شمار علماء میں ہونے لگا۔آپ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ علم سیمیا، علم کیمیا اور علم ریمیا میں بھی علم حاصل کی۔

*بیعت وخلافت:*
بعد تحصیل علوم ظاہری جذبہ الٰہی نے آپ کو علم باطن کے حصول کی طرف متوجہ کیا۔ آپ حضرت طیفور شامی سے بیعت ہوئے۔ 
اور بعد میں خرقہ خلافت سے سرفراز ہوئے، آپ کے پیر و دستگیر نے آپ کو جس دم کی تعلیم فرمائی، آپ حکم بجالائے اور اس قدر حبس دم کیا کہ کھانے پینے کی خواہش جاتی رہی۔

*زیارت حرمین شریف:*
مکہ معظمہ پہنچ کر آپ نےحج کا فریضہ ادا کیا، کچھ دن وہاں قیام کرکے مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ دربارِ رسالت میں باطنی نعمتوں سے مستفید و مستفیض ہوئے، نسبت محمدی سے آپ کا لقب روشن ہوا۔

*فرمان:*
ایک دن آپ دربار رسالت میں حاضر تھے۔ مراقب ہوئے۔ حضوری ہوئی، سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آپ سے فرمایا۔
"بدیع الدین! تم ہندوستان جاؤ اور وہاں جاکر مخلوق کی ہدایت میں کوشش کرو۔

*ہندوستان میں آمد:*
آپ پہلی بار جب ہندوستان تشریف لائے تو گجرات میں کچھ عرصہ قیام فرمایا۔ گجرات سے روانہ ہو کر اور شہروں کو زینت بخشی۔

*روانگی:*
کچھ دن ہندوستان میں رہ کر اور مختلف شہروں میں گھوم کر آپ مکہ معظمہ چلےگئے۔ حج کیا اور پھر مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ بعد ازاں کاظمین، بغداد، نجف اشرف ہوتے ہوئے پھر ہندوستان تشریف لائے اور بغداد میں حضرت غوث الاعظم سے ملاقات کی"

اس مرتبہ جو ہندوستان تشریف لائے تو دیگر مقامات کی سیر کی، پھر اجمیر پہنچے، اجمیر میں کوکلاپہاڑی پر آپ نے قیام فرمایا۔ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ سےآپ کی ملاقات ہوئی۔
اجمیر سے روانہ ہو کر دیگر مقامات کو شرف بخشا۔

*حج:*
حرمیں شریفین کی زیارت کا شوق پھر دامن گیر ہوا۔ آپ حرمین شریفین کی زیارت اور حج سے فارغ ہو کر نجف اشرف گئے۔ وہاں سے اپنے وطن حلب آئے۔ حلب سے چنار گئے، وہاں کچھ دن قیام فرمانے کے بعد آپ اپنے عزیز سید عبداللہ کے تینوں لڑکوں سید ابو محمد ارغون، سید ابوتراب فصور اور سید ابوالحسن طیغور کو ہمراہ لے کر مدینہ منورہ آئے اور ایک عرصے تک انوار محمدی سے منور و روشن ہوتے رہے اور مستفید ہوتے رہے۔

*ارشادعالی:*
ایک روز دربار رسالت سے آپ کو حکم ملاکہ......
"بدیع الدین! ہم نےتمہارے قیام کے لئے ہندوستان کو تجویز کیا ہے۔ وہیں تم جاؤ اور رہو سہو اور دین محمدی کو پھیلاؤ اور اس کی کوشش میں دقیقہ نہ اٹھا رکھو"۔

ہندوستان میں سکونت کے متعلق آپ کو دربار رسالت سے یہ حکم ملا قنوج کے میدان میں جنوب کی طرف جو تالاب ہے، اس کی لہروں سے یاعزیز کی آواز آتی ہے، وہ زمین ان کے رہنے کےلئے مناسب ہے، ان کا مسکن اور ان کا مدفین وہیں ہوگا"۔

*ہندوستان میں:*
حکم پاکر ہندوستان روانہ ہوئے۔ممالک عرب، عجم، خراسان کی سیر و سیاحت فرماتے ہوئے، اجمیر آئے اور اجمیر سے کالپی چلے گئے۔ کالپی سے جونپور ہوتے ہوئے مکن پور پہنچے، وہاں کنتور گئے، پھر گھاٹم پور ہوتے ہوئے سورت میں رونق افروزہوئے۔

*وصیت:*
آپ نے وصیت فرمائی کہ۔
"سید محمد ارغون، سید ابوتراب فصور، سید ابوالحسن طیفور کو میں نے اپنا جانشین کیا۔ ان تینوں کو بجائے میرے تصور کرنا اور جو کوئی مشکل پیش آئے تو ان کی طرف رجوع کرنا"۔

دوسری وصیت آپ نےیہ فرمائی کہ۔

"میرے جنازے کی نماز مولانا حسام الدین سلامتی پڑھائیں گے"۔

*وصال:*
آپ نے۱۷جمادی الاول۸۳۸ھ کو وصال فرمایا۔ مزار پرانوار مکن پور میں واقع ہے۔
"ساکن بہشت" مادہ تاریخ وفات ہے۔
 صاحب معارج الولایت نے آپ کی عمر دو سو پچاس (۲۵۰) لکھی ہے۔ 
مخبرالواصلین نے آپ کا سال ولادت ۷۱۶ھ تحریر کیا ہے۔ 
اور وفات بتاریخ ۱۸؍جمادی الاوّل بروز جمعۃ المبارک ۸۴۰ھ کی ہے۔ اس طرح آپ کی عمر شریف ایک سو چوبیس سال تحریر کی گئی ہے۔

*خلفاء:*
تین حضرت کو آپ کی خلافت و جانشینی کا شرف حاصل ہوا۔ ان تین حضرات کو "کنفس واحدہ" مانا جاتا ہے اور ایک ہی لقب سے تینوں پکارے جاتےہیں۔
ان تین حضرات کے نام حسب ذیل ہیں۔

حضرت خواجہ سید ابو محمد ارغوں، حضرت سیدابوتراب فصور، حضرت سید ابوالحسن طیفور۔

آپ کےممتاز خلفاء حسب ذیل ہیں۔

حضرت قاضی محمود، حضرت سید اجمل جونپوری، حضرت قاضی مطہر۔
ان کے علاوہ حسب ذیل حضرات کو آپ کا خلیفہ ہونےکا شرف حاصل ہے۔
سید پولاد شمس ثانی چوبدار، حضرت قاضی شہاب الدین پرکالہ آتش سید صدر الدین، شیخ حسین بلخی، سید صدر جہاں شیخ آدم صوفی، سلطان شہباز، سلطان حسن عربی،میاں سیف اللہ شیخ فخرالدین، عادل شاہ۔


*کشف وکرامات:*
بی بی نصیبہ کے کوئی لڑکا نہیں تھا۔ جب بغداد تشریف لےگئے،بی بی نصیبہ آپ سے دعا کی طالب ہوئیں، آپ کی دعا سے دو لڑکے ہوئے۔

ایک روز کا واقعہ ہےکہ آپ دریا کےکنارے رونق افروز تھے، ایک سوداگر اپنا مال کشتی میں رکھ کر روانہ ہوا، کچھ دور جاکر وہ کشتی دریا میں ڈوب گئی، ایک شخص نے جو وہاں موجود تھا۔اس حادثےکی خبر آپ کو دی، آپ نے ایک مٹھی خاک اس کودی اور دریا میں ڈالنے کی تاکید فرمائی اس نے وہ مٹھی خاک دریا میں ڈالی، کشتی بر آمد ہوگئی۔

*حوالہ:* سفینتہ الاولیاء(فارسی) تذکرہ الکرام تاریخ خلفاء عرب والاسلام،
ثمرۃ القدس،
تحفتہ الابرار، تحفتہ المداریہ
لطائف اشرفی
مداراعظم
ذوالفقار بدیع

(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)

لوگ آپ کے متعلق بڑے بڑے عجیب و غریب واقعات نقل کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ آپ سمندر میں رہا کرتے تھے جو صوفیوں کا ایک مقام ہے، آپ نے بارہ سال تک کھانا نہیں کھایا، ایک بار جس کپڑے کو پہنتے پھردھونے کی غرض سے اتارتے نہ تھے، اکثر کپڑے سے چہرہ ڈھانپے رہتے تھے، آپ کے چہرہ پر جس کی نظر پڑجاتی تو وہ بے اختیار ہوکر آپ کی غایت درجہ تعظیم و تکریم کرتا۔

عمر کے طویل ہونے یا کسی اور وجہ سے آپ کا سلسلہ پانچ یا چھ واسطوں سے رسول کریم ﷺ تک مل جاتا ہے اور سلسلہ مداری کے بعض لوگ تو آپ کو بغیر کسی واسطہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادیتے ہیں، بعضے کچھ اور کہتے ہیں لیکن یہ سب باتیں حدود شریعت سے خارج اور بے اصل ہیں واللہ اعلم بالصواب۔

قاضی شہاب الدین دولت آبادی بھی آپ ہی کے ہم عصر تھے، ایک خط کے متعلق لوگوں میں بہت مشہور ہے کہ یہ خط شاہ بدیع الدین نے قاضی شہاب الدین کو لکھا تھا اور جو کچھ شیخ سراج سوختہ کے متعلق لکھا گیا ہے وہ کالپی کے بعض بڑے فضلا سے منقول ہے، یہی فضلاء فرماتے ہیں کہ اس خط کا قصہ ہمارے دیار میں بھی مشہور ہے لیکن یہ بلاسند بات ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

اخبار الاخیار

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب📝 شمـــس تبـــریز نـــوری امجـــدی بانی گروپ فیضـــانِ دارالعـــلوم امجـــدیہ ناگپور 966551830750+📲
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

  1. شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ مزید لکھتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ عمر کے طویل ہونے یا کسی اور وجہ سے آپ کا سلسلہ پانچ یا چھواسطوں سے رسول کریمﷺ تک مل جاتا ہے اور سلسلہ مداریہ کے بعض لوگ تو آپ کو بغیر کسی واسطہ کے رسول ﷺ تک پہنچا دیتے ہیں۔بعض کچھ اور کہتے ہیں لیکن یہ سب باتیں حدود شریعت سے خارج اور بے اصل ہیں۔واللہ اعلم با لصواب

    اخبار الاخیار مترجم ص 355
    مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی

    جواب دیںحذف کریں

اپنا کمینٹ یہاں لکھیں