صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا
باغِ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
مستِ بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا
بارہویں کے چاند کا مُجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ بُرجوں سے جھکا ایک اِک سِتارہ نور کا
میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا
نور دن دُونا تِرا دے ڈال صدقہ نور کا
تاج والے دیکھ کر تیرا عِمامہ نور کا
سر جھکاتے ہیں الٰہی بول بالا نور
ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا
تم کو دیکھا ہو گیا ٹھنڈا کلیجا نور کا
تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا
چاند جھک جاتا جِدھر اُنگلی اٹھاتے مَہد میں
کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا
اے رضاؔ یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
ہوگئی میری غَزل بڑھ کر قصیدہ نور کا
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں