حضرت رابعہ بصری جب مکہ مکرمہ پہنچیں تو کچھ دن بیاباں مقام میں مقیم رہ کر خداوند کریم سے التجاء کی کہ میں اس لیے دل گرفتہ ہویی کہ میری تخلیق تو مٹی سے ہوئی اور خانہ کعبہ کی تعمیر پتھر سے لہذا میں تجھ سے بلا واسطہ ملاقات کی متمنی ہوں ..
چنانچہ آپ کو بلا واسطہ اللہ عزوجل نے مخاطب کر کے فرمایا اے رابعہ!! کیا تم نظامِ عالم درہم برہم کر کے تمام اہلِ عالم کا خون اپنی گردن پر لینا چاہتی ہو اور کیا تمہیں معلوم نہیں جب موسی علیہ السلام نے دیدار کی خواہیش کی تھی تو ہم نے اپنی تجلیات میں سے ایک چھوٹی سی تجلی کوہ طور پر ڈالی تو وہ پاش پاش ہو گیا تھا
جب آپ دوبارہ حج پر گئیں تو دیکھا کہ خانہ کعبہ خود آپ کے استقبال کے لیے چلا آرہا ہے تو آپ نے فرمایا کہ مجھے مکان کی حاجت نہیں بلکہ مکین کی حاجت ہے مجھے حسنِ کعبہ سے زیادہ جمالِ خداوندی کے دیدار کی تمنا ہے
جب حضرت ابراہیم بن ادھم حج پر روانہ ہوے تو ہر گام پر دو رکعت نماز ادا کرتے ہوے چلے
اور مکمل چودہ سال میں مکہ مکرمہ پہنچے اور دوران سفر یہ بھی کہتے جاتے کہ دوسرے لوگ تو قدموں پر چل کر پہنچتے ہیں لیکن میں سر اور آنکھوں کے بل پہنچوں گا اور جب مسجد الحرام میں پہنچے تو دیکھا کہ:
" خانہ کعبہ اپنی جگہ سے غائب تھا"
آپ اس تصور سے آبدیدہ ہوگیے کہ شاید میری بصارت زائل ہو گیی ہے غیب سے ندا آیی کہ بصارت زائل نہیں ہوئی بلکہ کعبہ مشرفہ ایک "ضعیفہ" کے استقبال کے لیے گیا ہوا ہے۔۔
یہ سن کر آپ کو احساس ِ ندامت ہوا اور گریہ کناں ہو کر عرض کیا کہ یا اللہ وہ کون سی ہستی ہے ندا آیی کہ وہ بہت ہی عظیم المرتبت حیثیت ہے ۔۔۔آپ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے حضرت رابعہ بصری لاٹھی کے سہارے چلی آ رہیں ہیں اور کعبۃ المشرفہ بھی اپنی اصل جگہ پہنچ چکا ہے ۔
(تذکرۃ الاولیا، مولانا زبیر افضل عثمانی، صفحہ: 44)
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں