Header Ads

حضرت امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت امام ابو عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

نام و نسب: 
اسم گرامی: محمد۔
کنیت: ابو عیسیٰ۔
لقب: امام المحدثین، حافظ الحدیث، صاحبِ سنن۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے: امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی بن سورۃ بن موسیٰ بن ضحاک بن سکن سلمی ترمذی۔علیم الرحمہ۔
امام ترمذی علیہ الرحمہ نے اپنے نام کی بجائے کنیت کو اختیار کیا ہے، اور اسی سے معروف ہوئے۔

تاریخ ِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 209 ھ، کو "ترمذ" ازبکستان میں ہوئی۔

تحصیل علم: خراسان ماوراء النہر کا علاقہ علم و فن کا گہوارہ رہا ہے جس کی خاک سے ہزاروں اسلامی شخصیتیں ابھریں انہیں میں امام ترمذی کی باکمال ذات گرامی بھی ہے امام ترمذی نے جس زمانہ میں آنکھ کھولی آپ کے گرد پیش کا سارا ماحول علم و فضل کے غلغلوں سے معمور تھا انہوں نے اپنی فطری مناسبت علم اور قوت حفظ و ضبط کے ساتھ ابتداء میں اپنے شہر کے محدثین سے کسب فیض کیا پھر اسلامی شہروں کی رحلت کی اور اپنے دامن کو علم حدیث کی دولت سے مالا مال کیا۔ 
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: "طاف البلاد وسمع خلقاً من الخراسیین والعراقیین والحجازیین" 
انہوں نے متعدد شہروں کا سفر کیا۔ خراسان، عراق اور حجاز کے ارباب کمال سے سماع کیا۔ (تہذیب، ج۹، ص۳۴۴)

قوت حافظہ: قدرت نے انہیں غیر معمولی قوت حفظ و ضبط عطا فرمائی تھی جس حدیث کو ایک بار سن لیتے ہمیشہ کے لیے حافظہ میں محفوظ ہوجاتی۔ بعض محدثین نےامام ابو عیسیٰ ترمذی کا امتحان لیا اور اپنی چالیس غریب حدیثیں ان کے سامنے پڑھیں جو ابو عیسیٰ نے اسی وقت زبانی پڑھ کر سنادیں اس پر وہ بولے "ما رأیت مثلک" میں نے آپ جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ 
(تذکرہ، ج 2 ص188)

قدرت نے امام ترمذی میں ضبط علم کی فطری صلاحیتیں و دیعت کردی تھی اور ساتھ ہی انہیں اپنے وقت کے بڑے بڑے محدثین سے اکتساب علم کا موقع ملا خصوصیت کے ساتھ امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری کی صحبت نے آپ کو علم حدیث میں ذروۂ کمال تک پہنچا دیا۔ آپ کی جلالت علم،شان حفظ و ضبط،اورفضل وکمال پر تمام محدثین اور ارباب تذکرہ کا اتفاق ہے۔ امام ترمذی نے خداداد صلاحیت علم کو بروئے کار لاکر اپنے وقت کے جلیل القدر محدثین سے حدیث کا سماع کیا۔ امام بخاری اور امام مسلم کے بعض شیوخ سے بھی استفادہ کیا۔ اس طرح آپ کے شیوخ کثیر تعدادمیں ہیں۔

سیرت و خصائص: حافظ الحدیث،امام المحدثین حضرت امام ابوعیسیٰ محمدبن عیسی ترمذی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ کا شمار ملتِ اسلامیہ کے عظیم شخصیات میں ہوتا ہے، علم، عمل، زہد، تقویٰ، بہترین اخلاق، عظیم کردار کی بدولت آج بھی ان کا نام اور کام زندہ و جاوید ہے۔ آپ کی عظیم دینی خدمات ہیں۔ جامع ترمذی کا شمار کتاب اللہ کے بعد جو اصح الکتب ہیں، جن کو "صحاح ستہ " کہا جاتا ہے، میں ہوتا ہے۔ جو آج بھی پوری دنیا میں پڑھی جاتی ہے، اور علماء استفادہ کر رہے ہیں۔

آپ کی عظمت کاشخصیات اسلام نےاعتراف کیاہے۔ امام بخاری: امام بخاری باجودیکہ آپ کے عظیم المرتبت شیخ ہیں فرماتےہیں :
"ما انتفعت بک اکثر مما انتفعت بی"تم نے مجھ سے جتنا فائدہ حاصل کیا اس سے زیادہ میں نے تم سے حاصل کیا۔ (ایضاً، ص۳۴۵)ادریسی:کان الترمذی احد ائمۃ الذین یقتدیٰ بھم فی علم الحدیث صنف الجامع و التواریخ والعلل تصنیف رجل عالم متقن کان یضرب بہ المثل فی الحفظ۔ 
امام ترمذی ان اماموں میں سے تھے علم حدیث میں جن کی پیروی کی جاتی ہے۔ انہوں نے حدیث میں جامع علل اور تاریخ تصنیف فرمائی۔ وہ عالم اور متقن شخص تھے قوت حفظ میں ان کی مثال دی جاتی تھی۔ 
(تہذیب التہذیب، ج۹، ص۳۴۵)عمران ابن علان: مات محمد بن اسماعیل البخاری ولم یخلف بخراسان مثل ابی عیسی فی العلم والورع بکی حتی عمی۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری نے وفات پائی اور اپنے بعد خراسان میں علم و تقویٰ میں ابو عیسیٰ ترمذی کا مثل نہیں چھوڑا وہ خشیت الہی سے اس قدر روئے کہ بینائی جاتی رہی۔ (ایضاً)

حلقۂ درس اور تلامذہ: امام ترمذی صرف خراسان ہی نہیں بلکہ تمام اسلامی شہرو اور قریوں میں عظمت علم و فضل کے لیے مشہور ہوگئے تھے۔ امام بخاری کے بعد پورے خراسان میں کوئی صاحب علم آپ کا ہمسر نہ تھا یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے حلقۂ درس قائم کیا تو خراسان کے علاوہ دوسرے ملکوں اور شہروں سے بھی طالب علموں کا قافلہ جوق در جوق سماع سماع حدیث کے لیے آنے لگا۔ آپ کے تلامذہ میں بڑے بڑے محدثین کا نام آتا ہے۔

تصانیف: امام ترمذی بلند پایہ مصنف بھی تھے حدیث، رجال اور علل کے ساتھ صحابہ، تابعین، تبع، تابعین اور ائمہ فقہ کے اقوال و آراء میں درجۂ کمال رکھتے تھے۔ ان کی اہم تصانیف انہیں موضا عات ر مشتمل ہیں۔ چند مشہور مصنفات یہ ہیں۔
۱۔ جامع ترمذی 
۲۔ کتاب العلل 
۳۔ کتاب التاریخ 
۴۔ کتاب الذہد 
۵۔ کتاب الاسماء والکنی 
۶۔ کتاب الشمائل النبویہ۔

جامع ترمذی: لیکن امام ترمذی کو جس کتاب نے شہرت دوام عطا کی وہ جامع ترمذی ہے جامع ترمذی، نسائی اور ابو داؤد کے بعد تصنیف کی گئی لیکن اپنی افادیت و جامعیت کے لحاظ سے اس کتاب کاشمار کتب صحاح ستہ میں بخاری و مسلم کے بعد کیا جاتا ہے۔

شیخ ہرات عبداللہ انصاری فرماتےہیں: 
میرے نزدیک ابو عیسیٰ ترمذی کی کتاب جامع ترمذی صحیح بخاری اور مسلم سے زیادہ مفید ہے ان کتابوں سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جسے حدیث میں معرفت تامہ حاصل ہو ان کے برعکس امام ترمذی نے اپنی کتاب میں تمام احادیث کی شرح و تفسیر اور مذاہب علماء اس طرح بیان کردئیے ہیں کہ اس سے ہر فقیہ، ہر محدث بآسانی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
 (تذکرۃ المحدثین، ص۲۴۵)

امام ابو عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں: 
"صنفت ھٰذا الکتاب فعر ضتہ علٰی علماء الحجاز والعراق والخر اسان و رضوابہ ومن کان فی بیتہ ھٰذ الکتاب یعنی الجامع فکانمافی بیتہ نبی ﷺ یتکلم"
 میں نے یہ کتاب تصنیف کی تو اسے حجاز، عراق اور خراسان کے علماء کے سامنے پیش کیا سب نے اسے پڑھ کر پسندیدگی کا اظہار کیا جس گھر میں یہ کتاب (جامع ترمذی) موجود ہے یوں سمجھو کہ اس میں خود نبی ﷺ کلام کر رہے ہیں۔ 
(تذکرۃ الحفاظ، ج۲، ص۱۸۸)

اخلاق و کردار: امام ترمذی جس طرح علم میں امتیازی شان رکھتے تھے عمل و کردار کے سدا بہار پھولوں سے بھی ان کا دامن حیات مالا مال تھا۔ زہد و ورع، عبادت و ریاضت کے ساتھ خوف خدا ان کے رگ وریشے میں سرایت کئے ہوئے تھا۔ خشیت الہی کا اتنا غلبہ تھا کہ روتے روتے بینائی ختم ہوگئی تھی مگر ان کا قلب اور بصیرت تادم مرگ روشن رہا۔

تاریخِ وصال: آپ کا وصال 13/رجب المرجب 279ء کو بمقام "ترمذ" ہوا۔ وہیں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔

ماخذ و مراجع: محدثین عظام حیات و خدمات۔ تذکرۃ المحدثین۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے