پانچواں باب: احکام قرآن
ابوعدنان محمد طیب بھواردی
قرآنی معلومات
سوال172:قرآن مجید کی کس سورت میں حرمت شراب کا تذکرہ آیا ہوا ہے ؟
جواب: سورۃ المائدہ:90۔
سوال173:قرآن مجید کی کس سورت میں مسجدوں میں حاضری کے وقت مناسب زینت یعنی لباس تن کرنے کا حکم آیا ہے ؟
جواب: سورہ اعراف آیت: 31۔
سوال174:قرآن مجید کی کس سورت میں وضو کا طریقہ بیان ہوا ہے ؟
جواب: سورہ مائدہ آیت:6۔
سوال175: قرآن مجید کی کس سورت میں محرمات ( جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ) کا تذکرہ آیا ہوا ہے؟
جواب:سورہ نساء از آیت 22 تا 24۔
سوال176: قرآن مجید کی کس سورت میں تعداد ازواج کا ذکر آیا ہوا ہے ؟
جواب: سورہ نساء آیت:3۔
سوال177:کس سورت میں متوفی عنہا زوجہا ( جس عورت کا خاوند مر چکا ہو ) کی عدت کا تذکرہ آیا ہوا ہے۔
جواب: سورہ بقرہ آیت:234۔
سوال178: کس سورت میں بد گمانی، تجسس اور غیبت کی مذمت بیان کی گئی ہے ؟
جواب: سورہ حجرات آیت:12۔
سوال179: کس سورت میں لعان کا طریقہ بیان کیا گیا ہے ؟
جواب:سورہ نور از آیت 6 تا 9۔
سوال180:کس سورت میں چوری کی حد بیان کی گئی ہے ؟
جواب: سورہ مائدہ آیت:38۔
سوال181:استہزاو تمسخر کی مذمت کس سورت میں آئی ہوئی ہے ؟
جواب: سورہ حجرات آیت:11۔
سوال182:وہ کون سی سورت ہے جس کا نماز عید میں پڑھنا مشروع ہے ؟
جواب: سورہ ق۔ سورہ قمر۔ سورہ اعلیٰ۔ سورہ غا شیہ۔ ( صحیح سنن الترمذی، باب القرءۃ فی العیدین )
سوال183:وہ کون سی سورت ہے جس کا جمعہ کی فجر میں پڑھنا مشروع ہے ؟
جواب:سورہ الم سجدہ اور سورہ دہر۔ ( صحیح البخاری کتاب الجمعہ ، باب ما یقراء فی صلاۃ الفجر یوم الجمعہ)
سوال184:وہ کون سی آیت ہے جس میں کسی کو منہ بولا بیٹا بنانا حرام قرار دیا گیا ہے اور وہ آیت قرآن کی کس سورت میں ہے ؟
جواب:وہ آیت یہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے {وما جعل ادعیا کم ابنائکم}[ اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو ( واقعی ) تمہارے بیٹے بنانا ہے ] ( سورہ احزاب آیت: 4)
سوال185: وہ کون سی آیت ہے جس کو طواف کرنے والا حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان بطور دعا بار بار پڑھتا ہے ؟
جواب: وہ آیت یہ ہے {ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الا خرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار}( سورہ بقرہ آیت: 201)
سوال186:وہ کون سی آیت ہے جس سے علما نے جادوگر کے کافر ہونے پر دلیل پکڑی ہیں ؟
جواب: اللہ کا فرمان ہے {وما یعلمان من احد حتی یقولا انما نحن فتنہ فلا تکفر}[ سورہ بقرہ آیت: 102] نیز اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے {ولا یفلح الساحر حیث اتی} ( سورہ طہ آیت: 69)
سوال187: قرآن کریم کی وہ دو آیتیں کون سی ہیں جن سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر ائمہ مفسرین نے حمل کی اقل مدت چھ ماہ ہونے پر استدلال کیا ہے ؟
جواب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے {والوالدات یر ضعن اولاد ھن حولین کاملین لمن ارادان یتم الرضا عۃ }( سورہ بقرہ آیت: 233)اور دوسری آیت یہ ہے فرمان الٰہی ہے {و حملہ وفصا لہ ثلاثون شھرا}[سورہ احقاف آیت: 15]مدت رضاعت دو سال ہیں تو تیس مہینوں میں سے چھ ماہ باقی رہ جاتا ہے جو مدت حمل کی کم سے کم مدت ہے۔
سوال188:حاملہ عورت کی عدت کیا ہے ؟
جواب:حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے اور اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے {واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن}[ اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کی وضع حمل ہے ] ( سورہ طلاق آیت:4)
سوال189:ایمان کے گھٹنے اور بڑھنے پر قرآن مجید کی ایک آیت پیش کیجئے ؟
جواب: آیت{وھو الذی انزل السکینۃ فی قلوب المومنین لیزدادوا ایمانا مع ایمامھم}[ وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون ( اور اطمینان ) ڈال دیا تاکہ ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان بڑھ جائے ] (سورہ فتح آیت: 4)
سوال190: کیا بسم اللہ سورہ فاتحہ میں شامل ہے ؟
جواب: بسم اللہ کے متعلق اختلاف ہے کسی نے کہا ہے کہ یہ ساتویں نمبر کی آیت ہے اور یہی قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے اسی لئے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بسم اللہ پڑھنے کو واجب اور ضروری قرار دیا ہے لیکن راجح قول کے مطابق بسم اللہ سورہ فاتحہ میں شامل نہیں ہے۔
سوال191: سورہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ کیا ہے ؟
جواب: سورہ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہ لکھے جانے کے متعلق مختلف اقوال ہیں :
ایک قول یہ ہے کہ سورہ توبہ کے ساتھ بسم اللہ نازل نہیں ہوئی ، جب کہ دوسری سورتوں کے ساتھ بسم اللہ بھی نازل ہوئی تھی۔
دوسرا قول یہ ہے کہ سورہ انفال اور سورہ توبہ ایک ہی سورت ہے اور انفال کے شروع میں بسم اللہ لکھی ہوئی ہے یہ بعض صاحبہ رضوان اجمعین کا قول ہے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ بسم اللہ امان ہے اور اس میں مشرکین سے براءت کا اعلان عام ہے ( بحوالہ ابن کثیر)
سوال192: قرآن مجید کی وہ کون سی آیت ہے جو خود کشی کی حرمت پر دلالت کرتی ہے ؟
جواب: فرمان الٰہی ہے {ولا تقتلو ا انفسکم}[ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو] ( سورہ نساء آیت: 29) {ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ}[اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو (سورہ بقرہ آیت: 195)
سوال193: کیا غیر مدخولہ مطلقہ کے لئے عدت ہے اور کون سی آیت میں اس پر دلیل ہے ؟
جواب:غیر مدخولہ کے لئے کوئی عدت نہیں ہے فرمان باری تعالیٰ ہے { یاایھا الذی امنوا اذا نکحتم المومنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فما لکم علیھن من عدۃ تعدو نھا فمتعو ھن و سر حوھن سراحا جمیلا}[اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے ( جماع) سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو اور بھلے طریق پر انہیں رخصت کر دو]
( سورہ احزاب آیت:49)
سوال194:فرمان الٰہی ہے {فوکزہ موسی فقضی علیہ}[ موسی علیہ السلام نے اسے مکا مارا جس سے وہ مر گیا] (سورہ قصص آیت: 15) کیا نبی کے لئے یہ جائز ہے کہ بلا سبب کسی کو قتل کر دے ؟
جواب:اس کا جواب یہ ہے حضرت موسی علیہ السلام کا مقصد ہرگز اسے قتل کرنا نہیں تھا، بلکہ حضرت موسی علیہ السلام کا مقصد اسرائیلی کا دفاع کرنا تھا لیکن غلطی سے اس قبطی کا قتل ہو گیا۔
سوال195:[تفسیر میں ]اسرائیلی روایات کا کیا مطلب ہے اور ان کا کیا حکم ہے ؟
جواب:جو روایتیں اہل کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں سے ہم تک پہنچی ہیں انہیں اسرائیلی روایات کہتے ہیں ، علامی ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسرائیلیات کی تین قسمیں ہیں :
(1) وہ روایات جن کی سچائی قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہو جیسے فرعون کا غرقاب ہونا، حضرت موسی علیہ السلام کا کوہ طور پر تشریف لے جانا وغیرہ، اس بارے میں حکم ہے کہ ان کی تصدیق کی جائے۔
(2) وہ روایات جن کا جھوٹ ہونا قرآن و سنت کے دوسرے دلائل سے ثابت ہو جیسے اسرائیلی روایات میں مذکور ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنی آخری عمر میں ( معاذ اللہ ) مرتد ہو گئے تھے ، اس بارے میں حکم ہے کہ ان کی تردید کی جائے۔
(3) وہ روایات جن کے بارے میں قرآن و سنت اور دوسرے شرعی دلائل خاموش ہوں جیسے کے تورات کے احکام وغیرہ ایسی روایات کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ ان کے بارے میں سکونت اختیار کیا جائے نہ ان کی تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ( لا تصدقوا ا ھل الکتاب ولا تکذبو ھم و قو لوا امنا باللہ وما انزل علینا ) ( صحیح بخاری ج8/138 )
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی حکم ہے ( حد ثواعنی بنی اسرائیل و لا حرج )
البتہ اس مسلئہ میں علما کا اختلاف ہے کہ آیا ایسی روایات کو نقل کیا جائے یا نہیں ؟ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ ابن کثیر میں قول فصیل کی حیثیت سے یہ بیان کیا ہے کہ انہیں نقل کرنا جائز تو ہے لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ شرعی اعتبار سے وہ حجت نہیں ہے ، البتہ فی زمانہ اور عام لوگوں کے سامنے انہیں بیان نہ کیا جائے ورنہ انہیں حدیث نبوی کا نام دے کر عمل کرنا شروع کر دیں گے اور دین میں ایک نیا فتنہ کھڑا ہو جائے گا۔
سوال196:وہ کون سی آیت ہے جس میں غیر شادی شدہ مرد و عورت سے زنا کا ارتکاب ہو جانے پر سو سو کوڑے لگانے کا حکم آیا ہوا ہے ؟
جواب: وہ آیت یہ ہے {الزانیۃ والزانی فا جلدوا کل واحد منھما مائۃ جلدۃ}( سورہ نور آیت: 2) [زنا کار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔]
سوال197: کس آیت میں تہمت زنا اور اس کی حد بیان کی گئی ہے ؟
جواب:آیت کریمہ {والذین یرمون المحصنت ثم لم یاتوا باربعۃ شھداء فا جلدو ھم ثمانین جلدۃ ولا تقبلو الھم شھادۃ ابدا واو لئک ھم الفسقون}( سورہ نور آیت:4)[جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو یہ فاسق لوگ ہیں۔]
سوال198:وہ کون سی آیت ہے جس میں پنج وقتہ نمازوں کی محافظت کا حکم دیا گیا ہے ؟
جواب:فرمان الٰہی ہے {حافظوا علی الصلوات والصلاۃ الوسطی وقوموا للہ قنتین}[ اور نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص درمیان والی نماز کی] ( سورہ بقرہ آیت: 238)
سوال199:قرآن مجید کی وہ کون سی آیت ہے جس میں حیض کے دوران بیوی سے جماع کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے ؟
جواب: فرمان الٰہی ہے {ویسئلونک عن المحیض قل ھو اذی فا عتز لوا النساء فی المحیض ولا تقربو ھن حتی یطھرن }[آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ] ( سورہ بقرہ آیت:222)
سوال200:وہ کون سی آیت ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنا کفر ہے ؟
جواب: وہ آیت یہ ہے {فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما} (سورہ نساء آیت:25)[سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر آپ جو فیصلے ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور نا خوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں ]
سوال201:قرآن مجید کی کس آیت میں یہود و نصاریٰ اور کافروں سے دوستی لگانا حرام قرار دیا گیا ہے ؟
جواب: ارشاد باری تعالیٰ ہے {یاایھا الذی امنوا لا تتخذوا الیھود و النصاری اولیاء بعض ومن یتو لھم منکم فانہ منھم ان اللہ لا یھدی القوم الظالمین}[اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست بنائے گا وہ ان ہی میں سے ہو گا بلا شبہ اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا] ( سورہ مائدہ آیت: 51)
دوسری آیت ہے {یا ایھا الذین امنوا لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمودۃ و قد کفروا بما جاء کم من الحق یخرجون الرسول وایاکم ان تومنوا باللہ ربکم}[اے ایمان والوں ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور حالانکہ وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آ چکا ہے کفر کرتے ہیں وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو ] (سورہ ممتحنہ آیت: 1 ) اس بارے میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔
سوال202:قرآن مجید کی کس آیت میں اللہ تعالیٰ نے درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے ؟
جواب: ارشاد باری ہے {ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی یاایھا الذی امنو اصلو اعلیہ وسلموا تسلیما}[اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے ایمان والو ! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو ] ( سورہ احزاب آیت:56)
سوال203:کیا دعوت تبلیغ کی وجہ سے غیر مسلموں کو ترجمہ قرآن دیا جا سکتا ہے ؟
جواب:جی ہاں دعوت و تبلیغ کی غرض سے ترجمہ قرآن دیا جا سکتا ہے ، فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن جبرین حفظہ اللہ سے پوچھا گیا، کیا غیر مسلم ترجمہ و تفسیر قرآن چھو سکتا ہے ؟ شیخ نے جواباً فرمایا اگر غیر مسلم قرآن کے معنی اور مفہوم کو جاننا، سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہو اور اس کی ہدایت کی امید ہو تو اسے ترجمہ و تفسیر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے گرچہ اس میں ترجمہ و تفسیر کے ساتھ قرآنی آیات بھی تحریر ہوں ، دیکھئے (ابو انس علی بن حسین کی کتاب فتوی و احکام الی الداخلین فی الاسلام)
آج چونکہ غیر مسلموں میں قرآن فہمی کا ذوق و شوق بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اس لئے قرآن کے ترجمہ کو مسلمانوں اور غیر مسلموں میں زیادہ سے زیادہ پھیلانا چاہئے تاکہ قرآن کا پیغام گھر گھر پہنچے اور غافل لوگ ہوش میں آئیں نیز غیر مسلموں پر اللہ کی حجت قائم ہو۔
سوال204:بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عوام قرآن نہیں سمجھ سکتے ، قرآن سمجھنا صرف علماء کا کام ہے عوام کے لئے بزرگوں کی کتابیں پڑھ لینا کافی ہے تو کیا واقعتاً قرآن صرف علما کے سمجھنے کے لئے ہے ؟
جواب:قرآن صرف علماء کے سمجھنے کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ تمام انسانوں کے لئے کتاب ہدایت ہے اور اس کا تقاضا ہے کے لوگ اس کا مطالعہ کریں اور اسے سمجھیں کیونکہ قرآن تو اپنے نزول کا مقصد ہی {لعلکم تعقلون}[تاکہ تم سمجھو] بتلاتا ہے ( سورہ یوسف آیت:2)قرآن کہتا ہے {ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر}[اور ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے نصیحت حاصل کرنے کے لئے تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا](سورۃ القمر آیت:17) اس لئے یہ خیال کرنا کہ قرآن کو صرف علما ہی سمجھ سکتے ہیں سراسر غلط اور بے بنیاد ہے اور یہ در حقیقت لوگوں کو قرآن سے محروم کرنے کی ایک سازش ہے۔ ( ماخوذ از کتاب کیا قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ضروری نہیں ؟ للشیخ شمس پیرزادہ)
سوال205:کتنے دنوں میں قرآن ختم کرنا بہتر ہے ؟
جواب:قرآن ختم کرنے کے سلسلہ میں سلف کی عادتیں مختلف رہی ہیں بعض دو ماہ میں قرآن ختم کیا کرتے تھے اور بعض ایک ماہ میں ، بعض دس دنوں میں بعض سات دنوں میں قرآن ختم کرنے کا عمل اکثر سلف کا رہا ہے۔ (علامہ نودی کی کتاب الاذکار ص 153)
بعض سے تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا اور بعض سے ایک دن اور ایک رات میں بھی قرآن ختم کرنا ثابت ہے ، اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا واقعہ مشہور ہے صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ تم روزانہ روزہ رکھتے ہو اور ایک رات میں قرآن پڑھ لیتے ہو ، میں نے کہا یا رسول اللہ یہ سچ ہے اور اس سے مقصود صرف اور صرف نیکی کا حصول ہے آپ صلی اللہ و علیہ وسلم نے فرمایا داؤد ولیہ السلام والا روزہ رکھو بیشک وہ بندوں میں بڑے عبادت گزار تھے اور مہینہ بھر میں قرآن ختم کیا کرو، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ نے فرمایا تو پھر دس روز میں ختم کر لیا کرو، میں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ! میں تو اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر ایک ہفتے میں ختم کر لیا کرو اور اس سے آگے نہ بڑھو۔
اس حدیث سے بعض لوگوں نے استدلال کرتے ہوئے قرآن ختم کرنے کی کم از کم مدت ایک ہفتہ بیان کی ہے ، اور بعض لوگوں نے قرآن ختم کرنے کی کم سے کم مدت تین روز بیان کی ہے اور ان لوگوں نے عبداللہ بن عمر کی اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جس کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ابواب القراء ات عن رسول صلہ اللہ علیہ وسلم کے تحت بیان کیا ہے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا {لم یفقہ من قرا القرآن فی اقل من ثلاث}[جس نے تین دن سے کم میں قرآن کو ختم کیا اس نے قرآن کو نہیں سمجھا] ( دیکھئے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سلسلہ الصحیحہ : 1513)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آدمی کی طاقت اور دلچسپی پر موقوف ہے ، اس سلسلہ میں راجح بات وہی ہے جو علامہ نوعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ کم از کم سات دن میں قرآن ختم کرنا چاہیے۔
سوال206: بے وضو قرآن چھونا کیسا ہے ؟
جواب:اس سلسلہ میں علما کی رائے مختلف ہے بعض کی رائے یہ ہے کہ بے وضو قرآن نہ چھوا جائے اور ان کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے {لا یمسہ الا المطھرون}[قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں ] ( سورہ واقعہ آیت :79) اور کہتے ہیں کہ اس آیت سے مراد جنابت اور حدث سے پاک لوگ ہیں اس لئے بے وضو قرآن چھونا منع ہے ان حضرات نے عمرو بن حزم کی اس حدیث سے بھی یہ دلیل لی ہے جسے امام مالک نے روایت کیا ہے {لا یمس المصحف الا طاھر}قرآن کو صرف پاک لوگ چھوتے ہیں ، لیکن یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
بعض علما کی رائے یہ ہے کہ بے وضو قرآن چھو سکتا ہے اور کہتے ہیں کہ اس کی ممانعت کی کوئی صحیح اور صریح دلیل نہیں ہے ، ( نیز امام ابن حزم رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب المحلی میں ، امام ابن القیم رحمۃ اللہ نے البیان فی اقسام القرآن میں ، اور امام شوکانی رحمۃ اللہ نے نیل الاعطار میں اسی کو راجح قرار دیا ہے ، عبداللہ بن عباس، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ شعبی اور امام ابو حنیفہ وغیرہم کی یہی رائے ہے )
سوال207:قرآنی آیتوں اور سورتوں کو لکھ کر گھر کی دیواروں ، دکانوں ، گاڑیوں اور چوراہوں پر لٹکانا کیسا ہے ؟
جواب:افتاء کی دائمی کمیٹی کا فتوی ہے کہ قرآنی آیتوں اور سورتوں کو لکھ کر گھر کی دیواروں ، دکانوں ، گاڑیوں اور چوراہوں پر لٹکانا درج ذیل اسباب کی بنا پر منع ہے :
(1) قرآنی آیات اور سورتوں کے لٹکانے میں نزول قرآن کے مقاصد سے انحراف ہے۔
(2)یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے عمل کے سراسر خلاف ہے۔
(3) اللہ نے قرآن کریم پڑھنے کے لئے نازل کیا ہے نہ کہ تجارت کو فروغ دینے کے لئے۔
(4) اس میں آیات قرآنی کی بے حرمتی اور توہین ہے۔
(5)ایسا کرنے سے شرک کا دروازہ کھلنے کے ساتھ ساتھ آیات قرآنی پر مشتمل تعویذ و گنڈے کے جواز کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
سوال208: کیا ختم قرآن کی کوئی مخصوص دعا ہے ؟
جواب:ختم قرآن کی کوئی مخصوص دعا نہیں ہے اور ختم قرآن کی جتنی دعائیں مروج ہیں ان کی مشروعیت پر کوئی دلیل نہیں ہے ، اور نہ ہی کوئی مرفوع حدیث اس سلسلے میں آئی ہے جس سے ختم قرآن کے وقت ان دعاؤں کی التزام پر حجت قائم کی جا سکے ، ان مشہور دعاؤں میں سے ( دعاء ختم قرآن ہے ) جس کی نسبت شیخ السلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کر دی گئی ہے حالانکہ اس دعاء ختم القرآن کی نسبت کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے۔
شیخ عبد الرحمٰن بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت ہے کے اس دعا کو شیخ الاسلام کے فتادی ( مجموع فتاوی لابن تیمیہ) میں شامل نہ کیا جائے کیوں کہ اس دعا کی نسبت ان کی طرف مشکوک ہے۔ دیکھئے شیخ ابو بکر زید حفظہ اللہ کی کتاب ( الاجزاء الحدیثیۃ ص 239 کا حاشیہ، بحوالہ کتاب اللہ داب مطبوع دار القاسم، الریاض)
اور یہاں پر آپ کے فائدے کے لئے یہ بھی بتا دوں کہ نماز تراویح میں امام یا منفرد کا رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد ختم قرآن پڑھنے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے ، البتہ قاری قرآن نماز سے باہر ختم قرآن کی دعا کرے تو یہ جائز ہے کیوں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور تابعین کی ایک جماعت سے ایسا کرنا ثابت ہے۔ (دیکھئے شیخ بکر ابو زید حفظہ اللہ کی کتاب مروبات دعاءختم القرآن ص 290 )
سوال209:تلاوت قرآن سے فارغ ہو کر صدق اللہ العظیم کہنا کیسا ہے اور کیا ایسا کہنے پر کوئی دلیل ہے ؟
جواب:قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو کر صدق اللہ العظیم کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے گرچہ یہ اکثر قاریوں کا عمل ہے لیکن اکثریت کا عمل اس کے حق اور سچ ہونے کی دلیل نہیں ہے ، فرمان الٰہی ہے {وما اکثر الناس ولو حرصت بمومنین}البتہ جو لوگ قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو کر صدق اللہ العظیم کہنے کے قائل نہیں ہیں ان کے ساتھ دلیل ہے جیسا کہ امام بخاری و امام مسلم رحمہم اللہ علیہھم اجمعین نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، میں نے کہا آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ یہ آپ ہی پر نازل ہوا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ اس کو دوسروں سے سنوں پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورہ نساء پڑھنی شروع کی، یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچے {فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید و جئنا بک علی ھئولاء شھیدا}[کیا حال ہو گا جس وقت ہم لائیں گے ہر امت میں سے ایک گواہی دینے والا اور لائیں گے ہم تجھ کو ان سب کے اوپر گواہ بنا کر] ( سورہ نساء آیت:41) تو آپ نے فرمایا رک جاؤ(یہی اتنا کافی ہے )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا آپ کی آنکھیں اشک آلود ہیں ، میرے ماں اور باپ آپ پر قربان ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے یہ نہیں فرمایا کہ صدق اللہ العظیم کہو اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے اور نہ ہی صدر اول میں اس کا رواج تھا کہ وہ تلاوت قرآن سے فارغ ہوتے وقت صدق اللہ العظیم کہتے تھے اور نہ ہی صحابہ کے بعد سلف صالحین سے ایسا جانا گیا، اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ یہ کہا جائے کہ یہ بدعت ہے۔
سعودی عرب کے افتاء دائمی کمیٹی کا فتوی ہے کہ صدق اللہ العظیم بذات خود اچھا ہے لیکن قرات سے فارغ ہوتے وقت ہمیشہ صدق اللہ العظیم کہنا بدعت ہے اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے جب کے وہ لوگ کثرت سے تلاوت کرنے والے تھے تو معلوم ہوا کہ صدق اللہ العظیم کہنے پر کتاب و سنت اور صحابہ کے عمل سے کوئی دلیل نہیں ملتی بلکہ یہ متاخرین کی بدعت ہے ، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ( من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد) جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا معاملہ دین نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔
( من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد) جس نے ہمارے اس دین میں ایسی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے (دیکھئے شیخ فواد بن عبد العزیز الشلہوب کی کتاب (کتاب الاداب۔ باب آداب تلاوۃ القرآن وما یتعلق بہ)
سوال210:قرآن کی تلاوت کرتے اور سنتے وقت رونا کیسا ہے ؟
جواب:قرآن کی تلاوت کرتے اور سنتے ہوئے رونا ثابت ہے اور دونوں کے لئے حدیث آئی ہوئی ہے۔
پہلی حدیث جس کو عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔
{اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو یصلی ولجو فہ ازیز کا ز یز المرجل}[سنن رترمذی، مسند و احمد، سنن ابو داؤد، اور سنن نسائی، اس حدیث کی سند قوی ہے ]
عبداللہ بن شداد کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ کے رونے کی آواز سنی جب کہ میں آخری صف میں تھا آپ {انما اشکوبثی وحزنی الی اللہ}پڑھ رہے تھے۔دوسری حدیث وہ ہے جس کو عبداللہ بن مسعود نے بیان کیا ہے ، (صحیح بخاری باب اذا بکی الامام ف الصلاۃ)
مذکورہ دونوں حدیثوں سے یہ معلوم ہوا قرآن تلاوت کرتے اور سنتے وقت رونا جائز ہے البتہ بعض لوگ جو چیختے چلاتے اور آہ و بکا کرتے ہیں یہ سیدھے راستے سے انحراف و رد گردانی اور خشوع و خضوع کے خلاف ہے آج لوگ قنوت میں امام کی دعائیں سن کر روتے اور آنسو بہاتے ہیں لیکن اللہ کا کلام اور آیات سن کر نہیں روتے۔
سوال211:سجدہ تلاوت کرنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب:سجدہ تلاوت واجب نہیں بلکہ سنت ہے اور اس کے سنت ہونے اور عدم و جوب کی دلیل یہ ہے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ نجم پڑھی اور آپ نے سجدہ نہیں کیا۔(صحیح بخاری: حدیث 1037، صحیح مسلم حدیث:577)
اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن ممبر پر خطاب کے دوران سورہ نحل کی تلاوت کی اور پھر سجدہ کے مقام پر سجدہ کیا، پھر اس کے بعد والے جمعہ کو سورہ نحل کی تلاوت کی اور جب سجدہ کے مقام پر پہنچے تو فرمایا:
اے لوگو! ہم سجدہ سے گذر رہے ہیں تو جس نے سجدہ کیا اس نے درست کیا اور جس نے سجدہ نہیں کیا اس پر کوئی گناہ نہیں اور آپ نے سجدہ نہیں کیا اور نافع نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہم پر سجدہ تلاوت فرض نہیں قرار دیا بلکہ ہماری چاہت پر چھوڑ دیا ہے۔ ( صحیح بخاری حدیث:1077)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سجدہ تلاوت گرچہ واجب نہیں تاہم تلاوت قرآن کرنے والے کو چاہیے کہ جب سجدے کی آیت سے گذرے تو سجدہ کرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ یہ دعاء پڑھے :
{اللھم لک سجدت وبک امنت ولک اسلمت سجد وجھی للذی خلقہ و صورہ وشق سمعہ و بصرہ تبارک اللہ احسن الخالقین}[صحیح مسلم حدیث:771]
سوال212:قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو کر قرآن کو چومنا اور اسے پیشانی سے لگانا اور چہرے پر رکھنا کیسا ہے ؟
جواب: قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو کر قرآن کو چومنا اور اسے پیشانی سے لگانا اور چہرے پر رکھنا بدعت ہے ، (دیکھیے شیخ رائد بن صبری بن ابی علفہ کی کتاب معجم البدع)
قرآن چومنے والے اسے پیشانی سے لگانے والے اسے کہتے ہیں کہ ہم ایسا قرآن کے احترام اور تعظیم میں کرتے ہیں جب کہ ہم کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث نبوی کا احترام اس میں ہے کہ اسے نہ چوما جائے ، کیوں کہ یہ ایسا عمل ہے جو آپ سے ، آپ کے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ اجمعین سے ثابت نہیں ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں گرچہ چومنے میں قرآن کا احترام اور عظمت ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب بیت اللہ کا طواف کیا تو بیت اللہ کے تمام رکنوں کا بوسہ لیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ کو ٹوکا تو حضرت معاویہ نے فرمایا کہ بیت اللہ کی کوئی چیز چھوڑے جانے کے قابل نہیں ہے ، تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا سنت یہی ہے کہ حجر اسود کے علاوہ اور کسی کا بوسہ نہ لیا جائے۔ ( دیکھئے شیخ ابن مفلح کی کتاب الاداب الشرعہ ج 2، ص 273)
اسی طرح حضرت سعید بن مسیّب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر کی نماز کے بعد کثرت سے رکوع اور سجدے کر رہا ہے آپ نے اس کو منع فرمایا تو اس نے کہا اے ابو محمد ایعذبنی اللہ علی الصلاہ کیا اللہ تعالیٰ نماز پر بھی مجھے عذاب دے گا، فرمایا نہیں لیکن خلاف سنت عمل پر عذاب دے گا۔ دیکھئے ( التمھید لا بن عبد البر20 / 104 مطبوع دار طیبہ بحوالہ کتاب الاداب لفواد بن عبد العزیز السلہوب) سعودی عرب کے افتاء کی دائمی کمیٹی کا بھی یہی فتوی ہے کہ قرآن چومنے کی مشروعیت پر کوئی دلیل نہیں ہے اللہ نے قرآن کو پڑھنے اس کو تدبر کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے نازل کیا ہے۔ دیکھئے ( فتوی 8852، 2/273)
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں