Header Ads

کرونا وائرس: احتیاطی تدابیر اور ہماری ذمہ داریاں

کرونا وائرس: احتیاطی تدابیر اور ہماری ذمہ داریاں

احتیاطی تدابیر اور ہماری ذمہ داریاں



غلام مصطفیٰ رضوی٭ 

    ملکِ ہند میں مشرکین کی سازشیں عروج پرہیں۔ مسلمانوں کو مٹانے کے لیے سی اے اے لایا گیا۔ این آر سی اور این پی آر کے ذریعے وہ (مشرکین) ناپاک سازشوں کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے آمادہ و تیار ہیں۔قرائین اور مشاہدات اِس پہلو کا پتہ دیتے ہیں۔ انھیں ایام میں چائنا سے سراُٹھانے والا کرونا وائرس(کووڈ۔19) دُنیا کے بیش تر خطوں میں پھیل گیا۔ جس کی زَد میں کثیر زندگیاں ختم ہو گئیں۔ اَور اس کے تباہ کُن اثرات دن بہ دن سامنے آ رہے ہیں؛ ہند کی سرزمین پر بھی اس کے اثرات نمودار ہونے لگے۔ گرچہ جانوں کا اتلاف نہیں کے برابر ہے، سی اے اے جیسے کالے قانون کے خلاف جمہوری جدوجہد کرنے والے نہتوں پر اقتدار و آر ایس ایس کے غنڈوں کی دہشت گردی کا وائرس کرونا وائرس سے سخت تر ہے؛ اور اس میں جو جانیں تلف ہوئیں وہ ہند کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ گویا اہلِ ہند دو طرح کی افتاد سے دوچار ہیں- تاہم اِس مضمون میں وَبائی مرض (کرونا وائرس) سے متعلق چند ضروری باتیں ذکر کی جاتی ہیں۔

*انسانی رویہ:*
عموماً بیماری/دُکھ میں مریض کی دل جوئی سے مرض کی شدت کم ہوتی ہے۔ راحت وآسودگی کا پیغام ملتا ہے۔ حالیہ کرونا وائرس متاثرین سے متعلق خبریں تشویش ناک آرہی ہیں۔ اِس مرض کے مہیب اثرات کے پیشِ نظر مریض سے نفرت کے جراثیم بڑھ رہے ہیں۔ جس سے انسانیت شرمندگی محسوس کر رہی ہے۔احتیاط کے تقاضے کسی حد تک درست ہیں، لیکن منافرت آمیز رویے اصلاح چاہتے ہیں۔ مریض سے حسنِ سلوک کی تعلیم اسلام نے دی ہے، حقِ مسلم کے حوالے سے حدیث ملاحظہ فرمائیں:

    مسلمانوں کے پانچ حقوق رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائے ہیں: 
[۱] سلام کا جواب دینا 
[۲] مریض کے پوچھنے کو جانا 
[۳] جنازے کے ساتھ جانا 
[۴]دعوت قبول کرنا 
[۵] چھینکنے والے کا جواب دینا۔(۱) 

    موجودہ حالات میں ان پانچوں نکات پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سلام پیغامِ سلامتی ہے۔ مریضوں سے بہتر سلوک انسانیت کی تکریم ہے۔ دعوتوں کے ذریعے غریب و متاثر کی دل جوئی کا سامان ہوتا ہے۔جنازوں میں شرکت سے آخرت کی یاد بھی تازہ ہوتی ہے، غم گین کے غم دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔چھینک کا جواب حمد و تحمید اور تشکر کا پیغام ہے۔الحمدللہ! کی صدائیں حمد و ثنا کے گلشن میں خوشبو لاتی ہیں۔

*مرض اُڑ کر لگنا!*
    کرونا وائرس گرچہ وبائی مرض ہے، لیکن ایک سوال اہم ہے کہ کیا مرض بھی اُڑ کر لگتا ہے؟ اِس بابت رسول اللہ ﷺ کے فرمانِ اقدس سے نُور حاصل کریں:

    صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عَدْویٰ نہیں یعنی مرض لگنا اور مُتَعَدِّی ہونا نہیں ہے، اور نہ بدفالی ہے۔ اور نہ ہامہؔ ہے نہ صفرؔ۔ اور مَجْذوم (جزامی) سے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ دوسری روایت میں ہے کہ ایک اعرابی نے عرض کی یارسول اللہ(ﷺ) اِس کی وجہ کیا ہے(کہ) ریگستان میں اونٹ ہرن کی طرح (صاف ستھرا) ہوتا ہے اور خارشتی اونٹ جب اس کے ساتھ مل جاتا ہے؛ تو اسے بھی خارشتی کر دیتا ہے۔ حضور نے فرمایا: پہلے کو کس نے مرض لگا دیا؟ یعنی جس طرح پہلا اونٹ خارشتی ہوگیا دوسرا بھی ہو گیا، مرض کا مُتَعَدِّی ہونا غلط ہے۔ اور مجذوم سے بھاگنے کا حکم سدِ ذرائع کے قبیل سے ہے۔ کہ اگر اس سے میل جول میں دوسرے کو جذام پیدا ہو جائے تو یہ خیال ہو گا کہ، میل جول سے ہوا پیدا، اِس خیالِ فاسد سے بچنے کے لیے یہ حکم ہوا کہ اس سے علاحدہ رہو۔(۲)

    اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: کوئی حدیث ثبوت عدویٰ میں نص نہیں، یہ تو متواتر حدیثوں میں فرمایا کہ بیماری اُڑ کر نہیں لگتی اور یہ ایک حدیث میں بھی نہیں آیا کہ عادی طور پر اُڑ کر لگ جاتی ہے۔ (۳)

    یعنی بیماری کا اُڑ کر لگنا غلط نظریہ ہے۔ کوئی بیماری اُڑ کر نہیں لگتی۔ ہاں! احتیاطی تدابیر اِس لیے اختیار کی جاتی ہیں کہ کہیں کم زور عقیدے کے حامل یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ جنھیں یہ مرض ہوا وہ مریض سے قریب تھے اِس لیے ہوا۔ جب کہ مرض اُسی وقت ہوتا ہے جب کہ قسمت میں اُس مرض کا ہونا مقرر ہو۔جیسا کہ یہ مشاہدہ ہے کہ مریض سے قریب تر تو محفوظ ہوتے ہیں اور دور اُفتادہ شخص مرض سے متاثر ہو جاتا ہے۔ 

*شفا:*
    صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اُتاری مگر اس کے لیے شفا بھی اُتاری۔(۴)

    کوئی مرض لاعلاج نہیں۔ پھر گھبرانا اور خوف زدہ ہونا کیسا؟ ہاں! یہ ضرور ہے کہ تدبیر کی جائے۔ احتیاط سے کام لیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے صاف ستھرے رہنے کا درس دیا۔ خود بھی ستھرے رہیں اور اپنے گھر، محلہ، گلی، علاقے صاف رکھیں۔ اسلام نفاست پسند ہے۔ پاکیزہ مذہب ہے۔ کیا ہم غور نہیں کرتے کہ ہمارا رب پاک، رسول پاک، صحابہ و اہلِ بیت پاک۔ بلکہ اولیاے کرام اور ان کے سردار غوث پاک۔ تو صفائی و پاکیزگی ہمارے مذہب کا فطری اصول ہے۔ بندۂ مومن کی فطرت میں پاکیزگی و ستھرائی ہے۔ گویا یہ امراض ، یہ وائرس، یہ وبائیں اس بات کی جانب راغب کر رہی ہیں کہ اسلامی احکام پر سختی سے گامزن ہوجائیں اور رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ سے رشتے استوار کر لیں؎
نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے
اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک ان کے آستانے سے

*احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور بے خوف رہیں:*
    تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کر لینے کے بعد بے خوف رہیں۔ رب تعالیٰ کا خوف پیدا کریں۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ جو بندۂ مومن احکامِ الٰہی کے تابع ہو جائے اور پھر وبائی مرض میں موت آجائے تو وہ رتبۂ شہادت پر فائز ہو جاتا ہے۔ اِس لیے اِن حالات میں عزم و یقیں کے ساتھ رہیں۔   

    امام بخاری و مسلم و احمد نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: طاعون ہر مسلم کے لیے شہادت ہے۔ (۵)

    بہر کیف! ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ صبر و تحمل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں۔ وبائی امراض میں تدبیر و احتیاط سے کام لیں۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جبینِ نیاز خم کریں۔ مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی صحیح صحیح طریقے سے کریں۔ غریبوں سے حسنِ سلوک کا معاملہ کریں۔ جن کے یہاں کھانے پینے کی دقتیں ہوں ایسے غریبوں کی مال و نقد سے مدد کریں۔غریب مریضوں کے لیے علاج کا سامان مہیا کرائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے مسلمان بھائیوں کے درد و دُکھ کا احساس کرنے کی توفیق بخشے اور دینی شعور عطا فرمائے۔ آمین بجاہ حبیبہٖ سیدالمرسلین ﷺ۔

*حوالہ جات:*  
[۱] بخاری و مسلم و ابوداؤد و ابن ماجہ، اسلامی اخلاق و آداب،ص۱۵۱ 
[۲] نفس مصدر،ص۱۵۶
[۳] الحق المجتلی فی حکم المبتلیٰ،ص۲۳،طبع رضا اکیڈمی ممبئی۱۹۹۸ء
[۴]اسلامی اخلاق و آداب،ص۱۵۴
[۵]نفس مصدر،ص۱۵۸

٭ ٭ ٭ 
٭[نوری مشن مالیگاؤں]
gmrazvi92@gmail.com
٢٥؍مارچ ۲۰۲۰ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے