(تحریر مکمل پڑھیں اور غور کریں)
ہر سال ہزاروں کی تعداد میں علمائے کرام اور مفتیان کرام فراغ ہوتے ہیں۔
فراغت کے بعد عملی زندگی میں آتے ہیں شادی، گھر کی ذمہ داریاں سر پر آتے ہی بہت سارے تجربات کا سامنا ہوتا ہے۔
چونکہ ہر عالم کی خواہش ہوتی ہے کہ فراغت کے بعد کوئی اچھی جگہ مل جائے ، کسی مدرسے میں پڑھانے کی جگہ مل جائے، مسجد میں امامت خطابت مل جائے۔مگر چونکہ جتنی مقدار میں فراغتیں ہوتی ہیں اتنی مساجد اور مدارس تو ہیں نہیں کہ سب کو جگہیں مل جائیں۔
جتنے علماء ہر سال فارغ ہوتے ہیں اتنا سکوپ نہیں ہوتا، محتاط اندازے کے مطابق سو میں سے 5 یا 10 فیصد علماء اپنی مسند پر بیٹھتے ہیں۔
اب جو علماء اور مفتی صاحبان رہ گئے وہ کیا کریں؟
خواہش تو سب کی پڑھانے کی ہوتی ہے، درس و تدریس کی ہوتی ہے مگر جگہ نہیں ملتی۔
فراغت کے بعد دو کام ہوتے ہیں شادی اور نئی جگہ کی تلاش
والدین نے شادی کر دی تو اب ایک جان کا مزید اضافہ ہوگیا جس کے نان نفقہ کا بندوبست کرنا ضروری ہے، درس و تدریس کی جگہ مل نہیں رہی، کوئی مسجد امامت خطابت کی جگہ ہے نہیں لیکن معاش کی تو ضرورت ہے۔
اب یہی علمائے کرام مفتیان کرام نوکری یا کہیں بھی جگہ ملنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔
چونکہ پڑھنے پڑھانے کے علاوہ کوئی کام آتا نہیں تو پھر یا تو ٹائنز جیسی کسی کمپنی کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں، کسی فراڈ یا کسی اشتہار سے متاثر ہوکر اپنا وقت اور پیسہ ضائع کر دیتے ہیں، کسی فیکٹری یا مل وغیرہ میں دیہاڑیوں پر لگ جاتے ہیں، یا پھر کسی بھی جگہ میں ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں جو ان کی شایان شان ہوتی نہیں۔
روزی روٹی کمانے میں بہت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، 8،9 سال پکی پکائی ملتی ہے، زمانہ طالب علمی میں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، کبھی محنت مشقت کی نہیں ہوتی، دوران تعلیم سارا خرچہ والدین اٹھاتے ہیں تو وہی سہولت پسندی ان کے سر پڑتی ہے تو دن کو تارے نظر آتے ہیں، فراغت کے بعد جب اپنے سر بات آتی ہے تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
ایسے علمائے کرام مفتیان کرام اپنی حیثیت اور مرتبے سے بہت ہی کم کسی جگہ میں لگ جاتے ہیں کہ چلو کچھ نہ ہونے سے کچھ بھی ہوجانا بہتر ہے۔
کسی مدرسے میں اعزازی مدرس لگ جاتے ہیں اس امید پر کہ جگہ بن جائے گی، یا پھر کسی مدرسے میں انتہائی کم معاوضہ میں حفظ ناظرہ وغیرہ کی کلاس۔
یہاں سے ان باصلاحیت اور پوزیشن ہولڈرز علماء کے استحصال کا ایسا دور شروع ہوجاتا ہےکہ اللہ کی پناہ۔
ایک مولوی صاحب جب تک زمانہ طالب علمی میں ہوتا ہے اسے قوی یقین ہوتا ہے کہ میری صلاحیت، میری پوزیشنیں اعلیٰ ہیں، زمانہ طالب علمی بہت شاندار رہا ہے تو مدرسے سے نکلتے ہیں بیسیوں مدارس کے مہتممین، مساجد کے متویلن ہار لے کر دروازے پر استقبال کے لئے کھڑے ہوں گے۔
مگرفراغت کے بعد جب ایک ایک ادارے، ایک ایک مدرسے، ایک ایک مسجد میں جا کر اپنی اسناد دکھائی جاتی ہیں، اپنی صلاحیتیں اور کارکردگیاں گنوائی جاتی ہیں، اپنی ڈگریاں اور پوزیشنیں دکھائی جاتی ہیں، زمانہ طالب علمی کی شیلڈ اور انعامات دکھائے جاتے ہیں۔۔۔
مگربنتا پھر بھی کچھ نہیں۔
کیوں کہ یہاں بھی اقرباء پروری، نالائق صاحب زادوں کا طوطی بولتا ہے۔
مہتممین کے صاحب زادے جو پوری زمانہ طالب علمی ہنستے کھیلتے اچھلتے کودتے گزار دیتے ہیں، کارکردگی ایسی ہوتی ہے کہ بس پاس ہوئے ہوتے ہیں ایسے نالائق اور نکھٹو صاحب زادوں کے لئے تو ادارے اور مدرسے میں جگہ ہوتی ہے۔
مگر ایک باصلاحیت، پوزیشن ہولڈر اور ممتاز عالم یا مفتی صاحب کے لئے جگہ نہیں ہوتی۔ (الا قلیل من اکثر)
جب ساری امیدوں پر پانی پھرتا ہے وہ سارے سنہرے خواب چکنا چور ہوتے ہیں تو اپنی حیثیت اور مرتبے کا تب احساس ہوتا کہ ہم کیا سوچتے رہے، کیا کیا خواب دیکھتے رہے مگر حقیقت کیا ہے۔۔۔
زمانہ طالب علمی کے کتنے ہی باصلاحیت ساتھی زمانہ کے حوادث کا شکار ہوجاتے ہیں، کتنے ہی خوش الحان قاری، نعت خواں، اور خطیب وقت کی دھول میں کہیں کھو جاتے ہیں۔
ان سرگرداں علماء، مفتی صاحبان کے پاس کوئی ہنر اور سکل تو ہوتی نہیں کہ اس کے ذریعے اپنے معاشی حالات کو درست کر سکیں لہذا مجبوراً کہیں نہ کہیں کچھ کرنے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں۔
اس لئے بار بار اسی موضوع پر میں کافی مدارس میں گیا، بہت سارے مہتممین حضرات سے گزارش کی کہ اپنے اپنے اداروں میں جگہ بنائیں، کم سے کم آخری دو سالوں کے طلباء کو کوئی ہنر سکھا دیں، آج کل جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے کمپیوٹر کی کوئی ایک سکل اچھی طرح دو سال میں سیکھ لیں، یا پھر دوسرے ہنر جیسے درزی، پلمبر، الیکٹریشن، ٹائل ماسٹر، مستریوں کا کام، ویلڈنگ کا کام، یا کوئی ہنر مزاج کے مطابق سکھا دیں۔
ایک عالم، قاری یا مفتی صاحب دنیا کا کون سا کام یا ہنر ہے جو احسن انداز سے سیکھ نہیں سکتے، جو شخص کلام اللہ کو سینے میں محفوظ کر سکتا ہے، دینی تعلیم کے مشکل ادوار کو عبور کر جاتا ہے اس کے لئے کون سا کام مشکل ہوسکتا ہے۔۔۔؟
علمائے کرام، مفتیان کرام اور خاص کر آخری دو سالوں کے طلبائے کرام خدارا خوابوں کی دنیا سے نکلیں، امیدیں لگانا چھوڑ دیں۔
اور کچھ ہنر سیکھ لیں ان شاء اللہ زندگی بھر پرمطمئن زندگی گزاریں گے۔
ایک بات یاد رکھیں۔۔۔
دنیا کا سب سے گندا کام بھیک مانگنا ہے اور سب سے زیادہ پریشان کن اور رزیل عادت قرض کی ہے۔
دنیا کا کوئی کام چھوٹا یا حقیر نہیں ہوتا، حقارت والا کام تو بھیگ مانگنا اور قرض اٹھانا ہے۔
لہذا اللہ کا واسطہ کر کے اپنے ذہن سے اس بات کو نکال دیں کہ فلاں کام میرے شایان شان نہیں، فلاں کام ایک عالم قاری یا مفتی کو زیب نہیں دیتا، لوگ کیا کہیں گے ، لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے۔
لوگ طرح طرح کی باتیں تب کرتے ہیں جب امام مسجد، مدرس صاحب قرض کے لئے ادھر ادھر دھکے کھاتے ہیں، لوگ منہ پر تو ہنس کر بات کر لیتے ہیں مگر پیٹھ پھیرتے ہی طعنے اور بھکاری جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔
اپنے اندر سے عزت و اکرام اورقدر کی چاہت کو نکال دیں کہ لوگ مجھے عزت دیں ، لوگ میری قدر کریں، لوگ مجھے القابات سے نوازیں۔
واللہ یہ سب کچھ آپ کو کبھی معاشی آسانیاں نہیں دے سکتی، آپ کی عزت قدر، مرتبہ تب بہت زیادہ گر جاتا ہے جب آپ کسی سے ادھار یا قرض لیتے ہیں۔
یاد رکھیں زمانہ طالب علمی میں گھر والے سب خرچے بخوشی اس لئے برداشت کرتے ہیں کہ بچہ پڑھ لکھ جائے گا، وہی والدین جو زمانہ طالب علمی میں ہر خواہش پوری کرتے ہیں، فراغت کے بعد ان کے سر سے ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے پھر آپ کو ہی کرنا ہوتا۔
کلاسوں میں امیر غریب ہر طرح کے لڑکے ہوتے ہیں، غریب طلباء امیر طلباء کی دیکھا دیکھی اسی جیسی شہزداوں والی زندگی اور ٹشن اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، گھر والے خرچے اور سب ناز نخرے برداشت کرتے ہیں، خاص کر وہ بےغم صاحب زادے جن کےاپنے مدارس مساجد اور ادارے ہیں ان کی شاہانہ زندگی سے مرعوب دوسرے طلباء بھی اس کے ساتھ یاری دوستی کے چکر میں اپناوقت ضائع کرتے ہیں اور ان جیسا بننے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
لہذا اپنے آپ کی قدر کریں، اپنی شخصیت کو نکھاریں، دوسروں سے دوڑ اور ریس چھوڑ دیں۔
اگر ابھی اپنے مستقبل کا کوئی فیصلہ نہیں کریں گے تو یقین مانیں فراغت کے بعد مشکلات کا پہاڑ منہ کھولے کھڑا ہوگا اور آپ کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ہوگا۔
پھر معاشی تنگیاں، استحصال کا وہ دور ہوگا کہ آپ کے پاس سیکھنے کو ٹائم نہیں ہوگا اور سر پر بیسیوں اخراجات منہ کھولے کھڑے ہوں گے۔
نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن
پھر اپنے اس وقت پر افسوس ہوگا کہ کاش میں نے کوئی سکل کوئی ہنر سیکھ لیا ہوتا۔
کاش کہ کوئی مدرسہ یا سیٹھ مہتمم صاحب طلباء کے لئے معاش کا بھی سوچیں ان کو اچھا عالم، مفتی، خطیب بنانے کے ساتھ ساتھ ہنر مند بھی بنالیں۔
میری سب علمائے کرام، مفتیان کرام اور خاص کر طلبائے کرام سے مخلصانہ گزارش ہے کہ اپنا وقت قیمتی بنائیں۔ خوابوں کی دنیا سے نکلیں، سستی کاہلی اور وقت ضائع کرنے کی عادت ترک کر دیں، دنیا کے کسی کام کو کمتر اور حقیر سمجھنا چھوڑ دیں اور جو کام اور ہنر آپ کو باعزت رزق فراہم کرے اس کی عزت و قدر کریں۔
شائد کہ کسی کے دل میں میرا درد کے لئے جگہ بن جائے😢
(اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں، اپنے آس پاس تمام طلباء، علماء، مفتیان کرام اور مہتممین حضرات کو یہ تحریر ضرور پڑھائیں)
آپ کا مخلص بھائی۔حافظ غلام مصطفی قادری اشرفی خطیب جامعہ نوراسلام ارزانی پور
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں