کیا اسلام اونٹوں کے پیشاب (ऊंट मूत्र) سے علاج کا حکم دیتا ہے؟

کیا اسلام اونٹوں کے پیشاب (ऊंट मूत्र) سے علاج کا حکم دیتا ہے؟ 
     آج سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں اسلام مخالف نے کچھ اس طرح لکھا ہے کہ”تمھیں (مسلمانوں کو) ऊंट मूत्र سے علاج کا حکم دیا گیا ہے اور ہم गोमूत्र پی رہے ہیں کرونا وائرس سے بچنے کے لیے پھر فرق کیا دونوں تو پیشاب ہی ہے،، جس کے نیچے بخاری شریف کا Reference دیا گیا ہے - میں نے کہا سوچا کہ اس مخالف ٹولی نے حوالہ تو ٹھیک دیا ہے لیکن صحیح طریقے سے نہیں حقیقت کے جانے بغیر اپنی منشاء کے مطابق بس فٹ کر لیا - جسے دیکھ کر بہت سے مسلمان بھی پریشان ہیں، پس میں نے سوچا کہ اس پر ذرا آسان انداز میں روشنی ڈال کر مخالف کے منصوبے پر پانی پھیرا جائے - 
      در اصل یہ ایک طویل حدیث کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے”فيَشرَبوا من ألبانِها وأبوالِها“ یعنی ایک خاص قوم کو خاص موقع پر خاص بیماری میں خاص الخاص معالم (نبی عالم غیب صلی اللہ علیہ والہ و سلم) نے حکم دیا تھا جس حکم کے بارے میں علماء نے پہلے تو یہ کہا ہے کہ یہاں پر ”شربوا“ کا معنی پینا نہیں بلکہ پیشاب کو اپنے کام میں لانے یعنی بدنوں پر ملنے کا حکم دیا گیا تھا -(تفہیم البخاری) 
       لیکن..... اگر یہ کہا جائے کہ نہیں”شربوا“ کا معنی پینا ہی ہے پھر بھی آج اسلام پر انگشت نمائی کی کوئی راہ نہیں ہے کیوں کہ ہم مسلمانوں کے نزدیک یہ امر مسلم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے کئی احکام کسی خاص انسان/قوم/جگہ یا پھر وقت کے لیے مخصوص مستثنٰی تھے مثال کے طور پر (١) حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کے لیے کسریٰ کے سونے کے کنگن پہننے کی بشارت - (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ) جو کہ عام مسلمان مرد کے لیے حرام ہے - (٢) حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کے لیے چھ مہینے کے بکری کے بچے کی قربانی کر لینا جائز کر دیا ۔ (بخاری) (٣) حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالٰی عنہا کو وفات کی عِدت کے عام حکم سے الگ فرما دیا اور ان کی عدت چار مہینے دس دن کے بجائے تین دن مقرر فرما دی ۔ (معجم الکبیر) (٤) حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گواہی ہمیشہ کے لیے دو مَردوں  کی گواہی کے برابر فرما دی (أبو داؤد) - (٥) حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو ایک گھر کے مُردے پر بیَن (نوحہ) کر کے رونے کی اجازت دے دی گئی (مسلم) - (٦) ابو حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ کو حکم دینا کہ حضرت سالم رضی اللہ عنہ جو کہ ڈھائی سال سے زائد کے تھے انھیں دودھ پلا کر حرمت رضاعت قائم کر لیں - حالاں کہ جمہور کا موقف اس کے خلاف ہے- ان میں سے ہر حکم خصوصی و استثنائی ہے - ٹھیک اسی طرح پیشاب پینے کا حکم بھی پوری امت مسلمہ کے لیے نہیں بلکہ صرف ایک قبیلہ (جماعت) کے لوگوں کو لیے خاص تھا -ع
نبی مختار کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کر دے 
     پھر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ کبھی بھی، کسی کے لیے بھی حکم ہو لیکن اسلام میں بھی جانوروں کے پیشاب سے علاج کا تصور ملتا ہے!! 
    اس کا جواب بھی اسلام کے پاسبانوں نے دیا ہے وہ یہ کہ پیشاب پینا عام حالات میں بہر حال ناجائز و گناہ تو تھا ہی لیکن ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا یہ حکم اس وقت ہو جب کہ حرام سے علاج کی ممانعت نہ ہو،، نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس بیماری کا علاج اس کے علاوہ کچھ اور رہا ہی نہ ہو اگر حضور اونٹ کے پیشاب کے ذریعے علاج کا طریقہ نہ بتاتے تو ان کی جان پر بن جاتی گوکہ یہ لوگ حالت اضطرار میں تھے جس میں حرام سے بھی جان بچائی جا سکتی ہے جب کہ اس کے مؤثر ہونے پر یقین کامل ہو - جب اس وضاحت کی تناظر میں یہ حدیث دیکھتے ہیں تو معاملہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضور عالم غیوب صلی اللہ علیہ والہ و سلم نبی ہیں جنھیں بذریعہ وحی اس کے مؤثر ہونے کا علم حتمی تھا کہ اس مرض کی دوا یہی ہے اور اس سے شفا یقینی ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے بھائی کا پیٹ چل رہا (دست ہو رہا) ہے، حضور نے فرمایا اسے شہد پلاؤ۔ اس نے پلایا، پھر دوسری مرتبہ وہی شخص حاضر آیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس مرتبہ بھی شہد پلانے کے لیے کہا۔ وہ پھر تیسری مرتبہ حاضر ہوا (اور عرض کیا کہ شہد پلایا لیکن شفا نہیں ہوئی) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے پھر فرمایا کہ اسے شہد پلاؤ، وہ پھر آئے اور کہا کہ (حکم کے مطابق) میں نے عمل کیا (لیکن شفا نہیں ہوئی)، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے چوتھی مرتبہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سچا ہے اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، اسے پھر شہد پلاؤ، چناں چہ انھوں نے شہد پھر پلایا اور اسی سے صحت یاب ہوگئے۔ (مخلصاً صحیح بخاری) چناں چہ اس حدیث سے ثابت ہو گیا کہ حضور کا تجویز کردہ علاج یقینی اور وحی الٰہی سے تائید شدہ ہوتا ہے - تو اب یہ بھی اظہر من الشمس واضح ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے صرف انھیں لوگوں کو خاص اسی موقع میں اونٹ کے پیشاب سے علاج کا حکم عطا فرمایا - 
       بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نہیں حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے خصوصی حکم نہیں دیا تھا پھر بھی ان کا الّو سیدھا نہیں ہو پائے گا کیوں کہ ہمارے اسلام کے بہت سارے احکام ایسے ہیں جو پہلے تھے بعد میں منسوخ ہو گئے، جس کی مثال خود اسی حدیث میں موجود ہے کہ جب کوئی دشمن خیانت کرے اور ظالم کے ظلم کی انتہا ہو جائے تو تمھیں بھی پلٹ کر بدلہ لینے اور ظالم پر حملہ کرنے کا حکم ہے جو کہ اب بھی برقرار ہے مگر مذکورہ حدیث میں مارنے کے بعد مثلہ کا بھی حکم دیا گیا تھا جو آیت قصاص کے نزول سے منسوخ ہو گیا اسی طرح اونٹ کے پیشاب سے علاج کا حکم جو تھا وہ بھی ”استنزهوا من البول؛ فإن عامة عذاب القبر منه“ سے منسوخ ہو گیا، اب اونٹ کے پیشاب سے علاج کا جواز بھی نہ رہا ہے کیوں کہ طب کے سارے کے سارے قوانین ظنی ہیں کوئی بھی ڈاکٹر اگر کسی بیماری کا نسخہ تجویز کرتا ہے تو وہ بہر حال ظن کی حد تک ہوتا ہے یقین سے نہیں ہوتا اور یہ بات أطباء بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ طب کا سارا کا سارا معاملہ تجربہ (ظن) پر مبنی ہے مگر حلت و حرمت والے مسئلے میں صرف ظن پر حکم نہیں دیا جا سکتا لہٰذا پیشاب جس کا پینا شریعت میں حرام نیز کئی قسم کے جراثیم سے پر ہے، جسے پی کر شفا کے بجائے بیماری کا خدشہ ہوتا ہے اس سے علاج کا حکم محض ظن اور چند لوگوں کے تجربہ پر کبھی نہیں دیا جا ہے - اسلام میں پیشاب جیسی غلاظت سے (چاہے کسی بھی جانور کا) ہو علاج کی قطعی اجازت نہیں (یہی موقف اکثر فقہاء و ائمہ کا ہے) - 
       امید ہے کہ اسلام مخالفین کے ذریعے سوشلستان میں پھیلائی گئی غلط بیانی سے دنیا قطعی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوگی - اللہ رب العزت ہمیں حرام خراکوں سے محفوظ فرمائے - (آمین) 

✍🏻خادمـئہ اسـلام بنـــت مفـتی عبـد المـالک مصبـاحی ،جمشـید پـور {جھارکھنڈ}
20/مارچ 2020ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے