تحریر۔ عبدالغنی سعدی
تاریخ ۱۳ اپریل ۲۰۲۰
وقت کا شکوہ ہر کوئی کرتا ہے کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے حتی کہ والدین کے پاس بھی اپنے بچوں کے لیے وقت نہیں ہوتا اور یہ شکایت کرونا وائرس نے لاک ڈاون کی شکل میں دور کر دی اب اتنا وقت ہے کہ ٹائم پاس نہیں ہوتا ۔
والدین بجائے ٹائم پاس کے یہ وقت اپنے بچوں کو سنوارنے اور بنانے میں گزارے تو ان کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے ۔
والدین کریمین کی ذمہ داری صرف اہتمام خورد و نوش کرنا، سخت خنکی اور شدید تمازت و تپش سے بچانا ہی نہیں ہے
بلکہ انہیں تعلیمی زندگی فراہم کرنا بھی ہے
اور بھی غم ہے زمانہ میں محبت کے سوا
ان کے سینوں میں عدل و انصاف، طہارت و پاکیزگی اور انسانیت و شرافت کے پر کشش پھول کھلانا بھی ہے
اور یہ تمام چیزیں بغیر محنت شاقہ، تگ و دو اور شبانہ روز جد و جہد کے حاصل کرنا چاہتے ہیں جب کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیددہ ور پیدا
گلشن امید کے چہار جوانب سے لذیذ ثمرات کی توقع اسی وقت کی جا سکتی ہے جب کہ مقوی غذاؤوں کے ساتھ ساتھ ان کا بھرپور خیال بھی رکھا جائے اور انہیں کیڑے مکوڑے سے بھی بچایا جائے
والدین کے یہ کام بچوں کے حق میں نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں
ماؤں کا بچوں کو بلی کتے کے خوف سے سلانا ، کھانا کھلاتے وقت موبائل کا تھمانا، روتے وقت گانوں کا بجانا، ڈانس کرتے ہوئے دیکھ کر خوش ہونا اور کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ سمجھنا دشنام طرازی کے وقت داد و تحسین سے نوازنا وغیرہ
یہ کام کرلیں تو ان کے حق میں مفید ثابت ہوںگے
بچوں کے ساتھ بجائے سختی ،نرمی سے پیش آئیں ، دوستانہ سلوک اختیار کیا جائے، انہیں احساس دلائیں کہ ہم آپ کی باتیں سننے کو حاضر ہیں ،غلطی کے وقت اصلاح سے کام لیا جائے نہ کہ زد و کوب سے، ان کے دلوں میں خشیت الہٰی، عشق رسالت اور عبادت و ریاضت کا چراغ روشن کریں اور انہیں سوتے وقت سکھائیں کہ
میں سو جاؤں یا مصطفے کہتے کہتے
کھلے آنکھ صل علی کہتے کہتے
مولی عمل کی توفیق عطا فرمائے
آمین
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں