••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
🕯امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
اسم گرامی: خادم حسین۔
کنیت: ابو سعد۔
القابات: امیرالمجاہدین، پاسبان ختم نبوت، محافظ ناموس رسالت، آبروئے سنیت، شہنشاہ خطابت، مخدوم ملت، عاشق صادق، مرد مجاہد، بابا جی۔
سلسلہ نسب: خادم حسین رضوی ابن لعل خان اعوان رحمۃ اللہ علیہما۔
تاریخ ولادت: آپ 3 ربیع الاول 1386ھ بمطابق 22 جون 1966ء کو گاؤں نکہ کلاں ضلع اٹک کے ایک مذہبی اور زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت: آپ نے ہوش سنبھالتے ہی گھر میں دینی ماحول دیکھا لہذا دین کی طرف آپ کا رجحان ایک فطری امر تھا یہی وجہ ہے کہ دنیاوی تعلیم کے طور پر آپ نے اسکول میں صرف چار جماعتیں پڑھیں اس کے بعد حفظ قرآن کریم کی طرف مائل ہوئے، جس وقت آپ نے حفظ قرآن کی غرض سے ضلع جہلم کی طرف رخت سفر باندھا، تب آپ کی عمر صرف آٹھ ۸ برس تھی۔ جون 1974ء میں اٹک سے جہلم تشریف لائے اور مدرسہ جامعہ غوثیہ اشاعت السلام میں قاری غلام یٰسین علیہ الرحمہ سے حفظ قرآن کریم کا آغاز کیا۔ ابتدائی بارہ ۱۲ پارے اسی مدرسہ میں حفظ کیے، اس کے بعد آخری اٹھارہ ۱۸ پارے مشین محلہ نمبر 1 کے دارالعلوم میں حفظ کیے، جس وقت آپ نے حفظ قرآن کریم کی تکمیل کی اس وقت آپ کی عمر بارہ ۱۲ برس تھی۔ بعد ازاں ستمبر 1979ء میں قرات کورس کے سلسلہ میں جہلم سے دینہ ضلع گجرات تشریف لے گئے وہاں جامعہ رضویہ احسن القرآن میں آپ نے تقریباً ایک سالہ قرات کورس مکمل کیا، اور جون 1980ء میں فراغت پائی، 1981ء میں صرف پندرہ ۱۵ سال کی عمر میں عالم دین بننے کی غرض سے جامع مسجد وزیر خان لاہور میں قاری منظور حسین علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے آپ کو اہل سنت کی شہرۂ آفاق دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ لاہور میں داخل کرا دیا، جامعہ کے ریکارڈ کے مطابق داخلے کی مصدقہ تاریخ 12 ستمبر 1981ء بروز ہفتہ ہے، وہاں آپ نے آٹھ ۸ سالہ درس نظامی مکمل کیا، مارچ 1988ء میں بائیس ۲۲ سال کی عمر میں آپ کا دورۂ حدیث شریف مکمل ہوا، تب آپ کو دستار فضیلت عطا کی گئی۔ [ماہنامہ النظامیہ "امیرالمجاہدین نمبر" حیات امیرالمجاہدین پر ایک نظر]
اساتذۂ کرام: آپ نے جن اکابر علمائے اہلسنت اور اساتذۂ کرام سے اکتساب فیض کیا ان میں سے بعض کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
۱) ملک المدرسین علامہ مفتی عطا محمد بندیالوی علیہ الرحمہ
۲) استاذ الاساتذہ مفتئ اعظم پاکستان محمد عبدالقیوم ہزاروی علیہ الرحمہ
۳) شیخ الحدیث مفتی عبداللطیف نقشبندی علیہ الرحمہ
۴) استاذالعلماء علامہ محمد رشید نقشبندی کشمیری علیہ الرحمہ
۵) شرف ملت علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ
۶) استاذالعلماء علامہ حافظ عبدالستار سعیدی علیہ الرحمہ
۷) محقق اہل سنت علامہ محمد صدیق ہزاروی علیہ الرحمہ
جامعہ نظامیہ لاہور سے عملی زندگی کا آغاز: آپ نے شوال المکرم 1410ھ بمطابق 1990ء میں جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور سے تدریس کی صورت میں اپنی عملی زندگی کا آغاز فرمایا۔ ابتداء سے علم الصرف بڑے انہماک و مہارت سے پڑھاتے رہے یہاں تک کہ علم صرف کی تدریس میں اپنے معاصرین پر بالاطلاق فائق، بے نظیر بے مثیل رہے۔ اپنی اسی تدریسی قابلیت اور خوش مزاجی کی بناء پر بہت جلد طلباء میں خوب مقبول ہوگئے۔
درس نظامی کے طلباء کے لیے علم الصرف سے متعلق دو ۲ شاندار کتابیں "تیسیر ابواب الصرف" اور "تعلیلات خادمیہ" بھی تحریر فرمائیں، یہ دونوں کتابیں علم الصرف میں حضرت کی زبردست مہارت کا منھ بولتا ثبوت ہیں اہل علم حضرات اسی مہارت کے پیش نظر آپ کو "امام الصرف" کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور کے نائب ناظم تعلیمات اور مدرس علامہ قاری احمد رضا سیالوی کے بقول آپ نے جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں تقریباً پچیس ۲۵ سال تک تدریس فرمائی، 1990ء سے لے کر 2006ء تک ہزاروں طلباء کو علم الصرف میں ماہر بنایا۔ جبکہ 2007ء سے 2015ء تک بطور شیخ الحدیث سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، اور آثار السنن، جیسی عظیم کتب حدیث کا باقاعدہ درس دیتے رہے۔
بیعت و ارادت: آپ روحانی طور پر سلسلہ نقشبند میں الحاج خواجہ محمد عبدالواحد صدیقی مجددی نقشبندی المعروف حاجی پیر صاحب علیہ الرحمہ جہلم پاکستان سے مرید تھے۔
اجازت و خلافت: نباض قوم حضرت علامہ مفتی ابو داؤد محمد صادق قادری رضوی صاحب گوجرانوالہ پاکستان اور نبیرۂ اعلیٰ حضرت حضور تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خان قادری ازہری بریلی شریف انڈیا رحمۃ اللہ علیہما جیسی عظیم ہستیوں نے آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت و خلافت سے نوازا۔
سیرت و خصائص: امیرالمجاہدین، پاسبان ختم نبوت، محافظ ناموس رسالت، آبروئے سنیت، شہنشاہ خطابت، مخدوم ملت، عاشق صادق، امام الصرف، شیخ الحدیث، امام غیرت و حمیت، امام عزیمت، بقیۃ السلف، استاذ العلماء، حضرت علامہ مولانا حافظ خادم حسین رضوی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ اپنی حق گوئی اور بے باکی میں یکتائے زمانہ تھے، آپ زندگی بھر کسی کی طاقت یا منصب سے مرعوب نہ ہوئے، اپنے ہوں یا پرائے وقت کا حاکم ہو یا عالَمِ کفر کا کوئی لیڈر، کوئی نامی گرامی پیر ہو یا مرید، عالمی شہرت یافتہ ہو یا اپنا کوئی کارکن، سب کی برملا اصلاح فرمایا کرتے۔ ایک سچا عاشق رسول ہونے کے باعث "عقیدۂ ختم نبوت" پر آپ نہ صرف کھل کر بات کیا کرتے بلکہ آپ کا لگایا ہوا نعرہ "تاجدار ختم نبوت زندہ باد" بھی منکرینِ ختم نبوت ﷺ کے سینوں پر ہمیشہ تیر بن کر برستا رہا، آپ کی اسی جرات و بہادری کے پیش نظر آپ کو "امیرالمجاہدین" کے لقب سے پکارا اور یاد کیا جاتا ہے۔
آپ اپنے مدلل مؤثر اور ولولہ انگیز انداز خطابت کے سبب دنیا بھر میں معروف و مقبول تھے، تقریر کی زبان اکثر پنجابی ہوا کرتی، مگر اس میں عربی فارسی اور اردو ادب کا بھی حسین ترین امتزاج ہوا کرتا۔
آپ جہاں پنجابی زبان میں اپنے منفرد اور جلالی انداز میں عظمت اسلام کا ذکر کرتے، وہیں اپنے مؤقف کی تائید میں آیات قرآنیہ اور عربی احادیث بھی پڑھ کر سنایا کرتے، اور ساتھ ہی ساتھ امام بوصیری، شیخ سعدی، امام اہلسنت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی، اور قلندر لاہوری ڈاکٹر اقبال رحمۃ اللہ علیہم کے فارسی اور اردو اشعار کے ذریعے ایک سماں باندھ دیا کرتے، اور اپنے سامعین کے جوش و جذبے میں اتنی کڑکتی بجلیاں بھر دیتے، اُن کے لہو کو اس قدر گرما دیتے کہ ہر طرف سے یہی صدائیں بلند ہونے لگتیں۔۔۔
دیکھو دیکھو کون آیا
محمد عربی کا دین آیا
عزت لایا عظمت لایا
امن و سکون محبت لایا
تاجدار ختم نبوت زندہ باد زندہ باد
لبیک لبیک لبیک یا رسول اللہ ﷺ
آپ اپنی ساری زندگی محبت رسول ﷺ کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر گزاری۔ آپ کی ہر تقریر عشق رسول ﷺ سے عبارت ہوا کرتی، آپ فرماتے کہ مجھے عشق رسول ﷺ اپنی ماں کی گود سے ملا ہے، میری ماں اٹھتے بیٹھتے ہر بات میں "صدقے یا رسول اللہ ﷺ" کہا کرتیں، ان کا یہ جملہ میری روح و بدن میں بس گیا ہے۔ آپ فرمایا کرتے کہ "ہمیں یہ جسم مصطفیٰ جان رحمت ﷺ کی ذات اقدس پر قربان کرنے کے لیے دیا گیا ہے، جب ہمارا مرنا برحق ہے تو پھر بندہ کیوں نہ نامِ مصطفیٰ ﷺ پر جان قربان کرکے عزت سے مرے"
آپ نے ساری زندگی اپنی ذات پر کیے جانے والے اعتراضات کے منفی تاثر کو زائل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی۔ "عقیدۂ ختم نبوت" اور "تحفظ ناموس رسالت ﷺ" کا مسئلہ ہمیشہ آپ کی اولین ترجیح رہا، آپ نے اپنی تقریر میں اسی موضوع پر بات کی اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہے، نتیجۃً آپ کے مؤثر انداز خطابت نے لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دیں، جو لوگ کل تک گانے گنگناتے تھے آپ نے ان کی زبانوں پر "لبیک یا رسول اللہ ﷺ" کا نعرہ جاری کروا دیا، جو لوگ شیطان کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے انہیں رسول اللہ ﷺ کی ناموس کا پہرے دار بنا دیا۔
آپ کی مؤثر تقاریر حرارت ایمانی کا سبب ہوا کرتیں لہذا آپ کی ولولہ انگیز اور جوش و جذبہ سے بھرپور آواز کو خاموش کرانے کے لیے وقت کے فرعونوں نے ہر ممکن کوششیں کی، مہینوں آپ کو جیل میں قید رکھا، اذیتیں دیں، ڈرایا دھمکایا، آپ پر دہشت گردی سمیت سینکڑوں مقدمات قائم کیے، مگر اللہ کی توفیق سے آپ کے پایہ استقلال و استقامت میں کوئی تزلزل نہیں آیا۔ آپ ہمیشہ ہر میدان سے سرخرو ہو کر مزید آگے نکلتے رہے اور زندگی کی آخری سانس تک حق بیان کرتے رہے اور یہ کہتے رہے ۔۔۔
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
ازواج و اولاد: آپ نے اپنے والدین کی مرضی سے شادی کی، آپ کے والد لعل خان اعوان نے اپنے چھوٹے بھائی کی بیٹی سے آپ کا رشتہ طے کیا، 1993ء میں محکمۂ اوقاف پنجاب میں بطور خطیب ملازمت کے بعد یہ شادی انجام پائی، آپ کی سعادتمند اولاد میں دو 2 بیٹے اور چار 4 بیٹیاں ہیں، بیٹوں کے نام یہ ہیں:
1) حافظ محمد سعد حسین رضوی
2) حافظ محمد انس حسین رضوی
وصال: آپ کا انتقال بظاہر شدید علالت کے سبب ہوا، وفات سے چند روز قبل آپ کو تیز بخار تھا، شدید بخار ہونے کے باوجود فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی نمائش کے خلاف فیض آباد دھرنے میں شرکت فرمائی، جہاں دسمبر کی سخت سردی اور مسلسل تیز بارشوں کے سبب آپ کی طبیعت مزید ناساز ہو گئی، فوری طبی امداد بھی دی گئی لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا، حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا ختم ہوا، تو آپ واپس لاہور تشریف لے گئے جہاں 3 ربیع الآخر 1442ھ بمطابق 19 نومبر 2020ء بروز جمعرات آپ کی طبیعت اچانک زیادہ خراب ہوئی، ایمبولینس کے ذریعے فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن آپ جانبر نہ ہو سکے، اور تقریباً آٹھ 8 بج کر اڑتالیس 48 منٹ پر آپ نے داعئ اجل کو لبیک کہا اور اس دنیائے فانی سے کوچ فرما گئے۔ انا للہ و انا الیہ رٰجعون
نماز جنازہ اور تدفین: آپ کی نماز جنازہ میں پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے علماء و مشائخ اور دیگر لوگ نے جوق در جوق شرکت کی، یہاں تک کہ بسوں، ٹرینوں، اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ ملنا بہت دشوار ہوگئے۔ آپ کی نماز جنازہ اکیس 21 نومبر 2020 بروز ہفتہ سہ پہر دو 2 بجے کے قریب "مینار پاکستان" گراؤنڈ میں ادا کی گئی۔ جنازے میں لاکھوں لاکھ افراد نے شرکت کی، مینار پاکستان گراؤنڈ مکمل بھر گیا، جو کہ اس سے پہلے پاک و ہند کی تاریخ میں کبھی نہیں بھرا تھا، نیز اطراف کی تمام سڑکیں بھی کئی کلو میٹر تک بھر چکی تھیں، لہذا سب نے بالاتفاق کہا کہ یہ جنازہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع جنازہ تھا۔ نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے حافظ سعد حسین رضوی حفظ اللہ نے پڑھائی۔ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ملتان روڈ پر واقع "مدرسہ ابوذر غفاری" میں امام غیرت وحمیت امیرالمجاہدین علامہ خادم حسین رضوی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی تدفین عمل میں آئی۔
ماخذ و مراجع: "قائد ملت اسلامیہ علامہ خادم حسین رضوی" (رحمۃ اللہ علیہ) حیات و خدمات اور سیاسی جد وجہد_ ایک مستند تحریر / از محقق اہلسنت مفتی عبدالرشید ہمایوں المدنی / ناشر: ادارۂ اہل سنت کراچی۔
https://t.me/Faizan_E_DarulUloom_Amjadia_Ngp
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈
*مرتبیـن📝 شمـس تبـریز نـوری امجـدی، محمـد یـوسف رضـا رضـوی امجـدی "فیضـانِ دارالعـلوم امجـدیہ ناگپور گروپ" 966551830750+/ 9604397443+*
◈◈⊰──────⊱◈◈◈⊰──────⊱◈◈
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں