المستفتی: محمدانس رضا ،متعلم دارالعلوم نصیرالدین اولیاء بنگال ،
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَةَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ: صورت مستفسرہ میں کہ ایسے طالب علم جو صاحب نصاب نہ ہو اس کو زکوۃ و صدقات و خیرات دینا اور اس کا لینا جائز ہے اگر چہ امیر ہو جیسا کہ در مختار میں ہے کہ" ان طالب العلم يجوز له اخذ الزکوٰة ولو غنيا اذا فرغ نفسه لافادة العلم و استفادته لعجزه من الکسب والحاجة داعية الی مالا بد منه " اھ (رد المحتار على در المختار ج3،كتاب الزكاة،باب المصرف،صفحہ 285،الرياض)،
اور فتاوی رضویہ میں ہے: جو نصاب مذکور پر دسترس رکھتا ہے ہر گز زکوۃ نہیں پاسکتا اگرچہ غازی ہو یا حاجی یا طالب علم یا مفتی،...........طالب علم کو زکوۃ لینا جائز ہے خواہ وہ غنی ہو بشرطیکہ اس نے اپنے آپ کو علم پڑھانے اور پڑھنے کے لیے مختص کر رکھا ہو"١ھ(فتاوی رضویہ مترجم ج10 صفحہ 254،251)،
اور بہار شریعت میں ہے: طالب علم کہ علم دین پڑھتا یا پڑھنا چاہتا ہے، اسے دے سکتے ہیں کہ یہ بھی راہ خدا میں دینا ہے بلکہ طالبعلم سوال کر کے بھی مال زکاۃ لے سکتا ہے، جب کہ اس نے اپنے آپ کو اسی کام کے لیے فارغ کر رکھا ہو اگرچہ کسب پر قادر ہو،(بہار شریعت ج1 حصہ5 صفحہ 926،مکتبۃ المدینہ)،
وَاللهُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُه اَعْلَمُ صَلَّی اللّٰه تَعَالٰی عَلَیْه وَاٰلِه وَسَلَّم
كَتَبَهُ
عبده المذنب محمد شبیر عالم الثقافي غفرله
٣/رمضان المبارک ١٤٤١ھ مطابق ٢٧ اپریل ٢٠٢٠ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں