علامہ اقبال کے مصرع "پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں" پر ایک شان دار تضمین۔

علامہ اقبال کے مصرع "پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں" پر ایک شان دار تضمین۔

ہم سے تابندہ ہوا جذبۂ ایمان یہاں
شاہِ اجمیر کی باقی ہے ابھی شان یہاں
ٹیپو سلطان کی موجود ہے پہچان یہاں
عظمتِ ہند پہ رضیہ ہوئی قربان یہاں
سرکٹانا بھی ہمارے لیے دشوار نہیں 
"پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں"

ہند کے سر کی نہیں ہم نے لگائی بولی
بیچ کر راز نہیں ہم نے بھری ہے جھولی 
ہم نے کھیلی نہیں اندرا کے لہو سے ہولی
ہم نے باپو پہ چلائی نہیں ہرگز گولی
ہم جفا کش ہیں، جفا کیش وجفا کار نہیں 
"پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں"

اپنی سرحد کے نگہبان کو سب بھول گئے
جنگ کشمیر کی اس جان کو سب بھول گئے
ایک آہن نما انسان کو سب بھول گئے
یعنی برگیڈئر عثمان کو سب بھول گئے
اس کا کچھ ذکر نہیں، اس کا کچھ اظہار نہیں
"پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں"

ہم سے سائنس کا بھی شعبہ ہوا آباد یہاں
ہم نے میزائل و راکٹ کیے ایجاد یہاں 
فوج کو فکر سے ہم نے کیا آزاد یہاں
ہے "کلام" ایسا کوئی ذہن خداداد یہاں 
"اگنی" و "پرتھوی" جیسا کوئی شہ کار نہیں
"پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں"

ہند کو ناز ہے جس پر وہ نشانی ہم ہیں
تاج اور لال قلعے کے یہاں بانی ہم ہیں
ہند کو بخشی ہے جس نے یہ جوانی ہم ہیں 
جس سے آئی ہے یہاں خوب روانی ہم ہیں
اتنے احساں ہیں ہمارے کہ شمار نہیں 
"پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں"

نا معلوم

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے