بے پردہ اور بے حیا عورتوں کا انجام

*📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯بے پردہ اور بے حیا عورتوں کا انجام🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📬 شرم و حیاء سے عاری اور بے پردہ عورتوں کا دُنْیَوی انجام تو ہر کوئی معاشرے میں اپنی نگاہوں سے دیکھ سکتا ہے کہ عزت دار اور باحیا طبقے میں ان کی کوئی قدر نہیں ہوتی، لوگ انہیں اپنی ہوس بھری نگاہوں کا نشانہ بناتے ہیں، ان پر آوازیں کستے اور ان سے چھیڑ خوانی کرتے ہیں، لوگوں کی نظر میں ان کی حیثیت نفس کی خواہش اور ہوس پوری کرنے کا ذریعہ ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ ہوس پوری ہو جانے کے بعد وہ عورت سے لا تعلق ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ ایسی عورت خود طرح طرح کے خطرناک اَمراض کا شکار ہو جاتی ہے اور آخر کار عبرتناک موت سے دوچار ہو کر قبر کی اندھیر نگری میں چلی جاتی ہے، یہ تو ان کا دُنیوی انجام ہے، اب یہاں ایسی عورتوں کا اُخروی انجام بھی ملاحظہ ہو۔
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ:
’’جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں ) نہیں دیکھا (بلکہ وہ میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی)۔
(1) وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو (ناحق) ماریں گے۔ 
(2) وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر موٹی اونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ یہ نہ جنت میں جائیں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دور سے آتی ہو گی۔
*( مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، باب النساء الکاسیات۔۔۔ الخ، ص۱۱۷۷، الحدیث: ۱۲۵(۲۱۲۸)*

اس حدیث پاک میں عورتوں کے تین کام بیان ہوئے جن کی وجہ سے وہ جہنم میں جائیں گی۔
*(1)* لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی۔
یعنی اپنے بدن کا کچھ حصہ چھپائیں گی اور کچھ حصہ ظاہر کریں گی تاکہ ان کا حسن و جمال ظاہر ہو یا اتنا باریک لباس پہنیں گی جس سے ان کا جسم ویسے ہی نظر آئے گا تو یہ اگرچہ کپڑے پہنے ہوں گی لیکن در حقیقت ننگی ہوں گی۔
*(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الدیات، باب ما لا یضمن من الجنایات، الفصل الاول، ۷ / ۸۳، تحت الحدیث: ۳۵۲۴)*

*(2)* مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں گی۔ 
یعنی لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود ان کی طر ف مائل ہوں گی یا دوپٹہ اپنے سر سے اور برقعہ اپنے منہ سے ہٹا دیں گی تاکہ ان کے چہرے ظاہر ہوں یا اپنی باتوں یا گانے سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود ان کی طرف مائل ہوں گی۔

*(3)* ان کے سر موٹی اونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔
اس جملے کی تشریحات تو بہت ہیں لیکن بہتر تشریح یہ ہے کہ وہ عورتیں راہ چلتے وقت شرم سے سر نیچا نہ کریں گی بلکہ بے حیائی سے اونچی گردن سر اٹھائے ہر طرف دیکھتی لوگوں کو گھورتی چلیں گی، جیسے اونٹ کے تمام جسم میں کوہان اونچی ہوتی ہے ایسے ہی ان کے سر اونچے رہا کریں گے۔
*(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الدیات، باب ما لا یضمن من الجنایات، الفصل الاول، ۷ / ۸۳-۸۴، تحت الحدیث: ۳۵۲۴، ملخصاً)*

اگر غور کیا جائے تو ان تینوں میں سے وہ کون سی ایسی صورت ہے جو ہمارے معاشرے کی عورتوں میں نہیں پائی جاتی، ہمارے غیب کی خبریں دینے والے آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صدیوں پہلے جو خبر دی وہ آج حرف بہ حرف پوری ہوتی نظر آرہی ہے اور ہمارے معاشرے کی عورتوں کا حال یہ ہے کہ وہ لباس ایسے پہنتی ہیں جس سے ان کے جسم کا کچھ حصہ ڈھکا ہوتا ہے اور کچھ ننگا ہوتا ہے، یا ان کا لباس اتنا باریک ہوتا ہے جس سے ان کے جسم کی رنگت صاف نظر آرہی ہوتی ہے، یا ان کا لباس جسم پر اتنا فٹ ہوتا ہے جس سے ان کی جسمانی ساخت نمایاں ہو رہی ہوتی ہے تو یہ بظاہر تو کپڑے پہنے ہوئی ہیں لیکن در حقیقت ننگی ہیں کیونکہ لباس پہننے سے مقصود جسم کو چھپانا اور اس کی شناخت کو نمایاں ہونے سے بچانا ہے اور ان کے لباس سے چونکہ یہ مقصود حاصل نہیں ہو رہا، اس لئے وہ ایسی ہیں جیسے انہوں نے لباس پہنا ہی نہیں اور ان کے چلنے، بولنے اور دیکھنے کا انداز ایسا ہوتا ہے جس سے وہ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کر رہی ہوتی ہیں اور خود کا حال بھی یہ ہوتا ہے کہ غیر مردوں کی طرف بہت مائل ہوتی ہیں، دوپٹے ان کے سر سے غائب ہوتے ہیں اور برقعہ پہننے والیاں نقاب منہ سے ہٹا کر چلتی ہیں تاکہ لوگ ان کا چہرہ دیکھیں۔ 
ایسی عورتوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور جہنم کی خوفناک سزاؤں سے ڈرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہماری عورتوں کو ہدایت اور عقل ِسلیم عطا فرمائے اور اپنی بگڑی حالت سدھارنے کی توفیق نصیب کرے۔ آمین 

*اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اور پردہ:*
اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ پردے کا خوب اہتمام کرتی تھیں، یہاں ان کے پردے کا حال ملاحظہ ہو۔
چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں:
ہم ازواجِ مُطَہَّرات کے پاس سے سواروں کے قافلے گزرتے تھے اور ہم (حج کے سفر میں ) تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ احرام کی حالت میں تھیں، جب سوار ہمارے سامنے سے گزرنے لگتے تو ہم میں سے ہر ایک اپنی چادر کو اپنے سر سے لٹکا کر چہرے کے سامنے کر لیتی اور جب وہ آگے بڑھ جاتے تو ہم چہرہ کھول لیتی تھیں۔
*( ابو داؤد، کتاب المناسک، باب فی المحرمۃ تغطی وجہہا، ۲ / ۲۴۱، الحدیث: ۱۸۳۳)*

اللہ تعالیٰ اُمت کی ان مقدس ماؤں کے درجات بلند فرمائے اور ایک طرح سے ان کی بیٹیوں میں داخل مسلم خواتین کو اپنی ماؤں کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے